Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اشکال اوراس کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 34

: النساء

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ۳۴

Translation

مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے- پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو- انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے.

Tafseer

									  اشکال اوراس کا جواب
 ممکن ہے اس موقع پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اسلام نے مردوں کو کسے اجازت دی کہ وہ عورتوں کو بدنی سزادیں۔ اس اعتراض کا جواب آیت کے معنی اور ان روایات کہ جو اس 

سلسلے میں ہیں اور وہ وضاحت جو كتب فقہ میں آئی ہے نیز اسی طرح ان توضیحات کہ جو آجکل کے ماہرین نفسیات بیان کرتے ہیں ، مد نظر رکھتے ہوئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ 
 پہلی بات تو یہ ہے کہ آیت نے بدنی سزا کا مسئلہ ان کے بارے میں جائز قرار دیا ہے جو اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے لیکن یہ اس وقت ہے جب کوئی اور ذریعہ کارگرنہ 

ہو ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں جو صرف اسلام ہی میں ہو۔ دنیا کے تمام قوانین میں جب صلح کے ذریعے افراد کو ان کی ذمہ داری محسوس نہ کرائی جاسکے تو سختی اور 

شدت اختیارکرنا پڑتی ہے نہ صرف مار پیٹ کے زریعے بلکہ بعض موقعوں پرتواس سے بھی زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے جو قتل کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔
 دوسرے یہ کہ بدنی سزا جیسا کتب فقہ میں ہے خفیف ہونا چاہیے۔ جس سے ہڈی ٹوٹنے ، بدن کے زخمی ہونے اور ورم آنے کا اندیشہ نہ ہو۔
 تیسرے یہ کہ آجکل کے ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ کچھ عورتیں آزار طلب ہوتی ہیں جب کبھی ان کی یہ حالت شدت اختیار کرے تو انہیں سکون و آرام پہنچانے کا واحد علاج 

مختصری بدنی سزا ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ ایسے افراد کو پیش نظررکھا گیا ہو جن کے لیے خفیف سی بدنی سزا باعث تسکین ہے ، یہ ایک نفسیاتی علاج ہے۔
 یہ مسلم ہے کہ اگرگذشتہ مراحل میں سے کوئی اثر کرے اور عورت اپنی ذمہ داری انجام دینے لگے تو مرد کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بہانہ بازی کرکے کو عورت کو تکلیف 

پہنچائے ۔ اس لیے اس جملہ کے بعد فرماتا ہے۔
 فان اطمنكم فلاتبغوا عليهن سبيلا 
 یعنی اگروہ اطاعت کرلیں تو پھر ان پر ظلم وستم نہ کرو۔
 اب اگر یہ کہا جائے کہ اس قسم کی سرکشی طغیان اور زیادتی مرد بھی تو کرسکتے ہیں تو یاک مردوں کو بھی اسی قسم کی سزا دی جائے گی تو ہم کہیں گے کہ جی ہاں مرد بھی 

بالکل عورتوں کی طرح اپنے فرائض ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی قسم کی سزا مستحق ہوں گے یہاں تک کہ انہیں بدنی سزا بھی دی جائے گی ۔ البتہ کیونکہ یہ کام عورتوں کی ذمہ خارج ہے اس 

لیے حاکم شرع پر فرض ہے کہ وہ خلاف ورزی کرنے والے مردوں کو مختلف طریقوں سے یہاں تک کہ بدنی سزا کے ذریعے انہیں ان کی ذمہ داری بتاۓ۔
 اس شخص کی داستان مشہور ہے جس نے اپنی بےقصور بیوی پر زیادتی کی تھی اورکسی طرح اپنی غلطی ماننے کے لیے تیارنہ ہوتا تھا ۔ حضرت علیؑ نے اسے عمالًا تنبیہ کی بلکہ 

تلوار سے ڈرا دھمکا کر اسے اپنی زیادتی ماننے پر آمادہ کرلیا۔
 ان الله كان علیًا کبیرا
 آیت کے آخر میں مردوں کو دوبارہ خبردار کیاگیا ہے کہ وہ خاندان کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے غلط فائده نہ اٹھائیں اور خدا کی قدرت کو جو تمام قدرتوں سے بالاتر ہے اپنے 

تصور میں رکھیں (کیونکہ خدا بلند  مرتبہ اور بہت ہی بڑا ہے)۔