جنگ اُحد
وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۱۲۱إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ۱۲۲
اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح سویرے گھر سے نکل پڑے اور مومنین کو جنگ کی پوزیشن بتارہے تھے اور خدا سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے. اس وقت جب تم میں سے دو گروہوں نےصَستی کا مظاہرہ کرنا چاہا لیکن بچ گئے کہ اللہ ان کا سرپرست تھا اور اسی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہئے.
تفسیر
” وَ إِذْ غَدَوْتَ مِنْ اٴَہْلِکَ تُبَوِّءُ الْمُؤْمِنِینَ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ وَ اللَّہُ سَمیعٌ عَلیمٌ ۔“
یہاں سے ایک اہم اور وسیع اسلامی واقعہ یعنی جنگ احد کے بارے میں آیات شروع ہوئی ہیں ۔ گذشتہ آیات کے قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات جنگ احد کے بعد نازل ہوئیں ہیں اور اس وحشتناک کے بعض پہلووٴں کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بہت سے مفسرین کا بھی یہی نظریہ ہے ۔
سب سے پہلے یہ پیغمبر کے مدینہ سے کوہ احد کے دامن میں لشکر گاہ کے انتخاب کے لئے باہر آنے کی طرف اشارہ کرتی ہےں اور ارشاد ہوتا ہے :
اے پیغمبر یاد کرو ! اس دن کو کہ صبح کے وقت تم اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر مدینہ سے باہر آئے تاکہ دشمن سے جنگ کرنے کے لئے مومنین کے لئے کوئی لشکر گاہ تیار کر سکو ۔ اس روز مسلمانوں کے درمیان چہ میگوئیاں ہوئیں اس کی طرف ہم واقعے احد کی تفصیل میں اشارہ کریں گے۔مقام جنگ کے انتخا ب کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف تھا کہ آیا مدینہ میں ہو یا باہر اور رسالتماب نے اکثریت کے نظریہ کو قبول کر لیا اور لشکر گاہ شہر سے باہر کوہ احد کے دامن میں منتقل کر دی ۔ فطری طور پر ان میں کچھ ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے کچھ باتیں دل میں چھپا رکھی تھی اور کئی وجوہات کی بنا پر انہیں ظاہر کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
”وَ اللَّہُ سَمیعٌ عَلیمٌ ۔“
کاجملہ گویاانسب کی حالت کی غمازی کرتاہے کہ خدا تمہاری باتوں کو بھی سنتا ہے اورتمہارے مخفی بھیدوں کو بھی جانتا ہے ۔
”إِذْ ہَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْکُمْ اٴَنْ تَفْشَلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔“
اس جملہ کا روئے سخن اس ماجرے کے ایک اور پہلو کی طرف ہے اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ (تاریخ کے مطابق قبیلہ اوس میں سے بنو سلمہ اور خزرج میں سے بنو حارثہ )نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ جنگ سے پہلو تہی کرتے ہوئے ایک راستے سے مدینہ کی طرف پلٹ آئیں گے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ مدینہ کے اندر جنگ کرنےکے حق میں تھے لیکن پیغمبر اکرم نے اس بات کو قبول نہ کیا علاوہ ازایں جیسا کہ واقعے کی تفصیل سے ہو جائے گا کہ عبداللہ بن سلول تین سو یہودیوں کے ہمراہ لشکر اسلام میں آیا تھا اور اس صورتحال کی وجہ سے وہ لوگ بھی مدینہ کی طرف واپس آگئے ۔ اس بات نے دو مسلمان گروہوں کے لوٹ جانے کے پختہ ارادوں کو متزلزل اور کمزور کردیا لیکن جیسا کہ آیت کے ذیل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں گروہ اپنے ارادہ سے پلٹ آئے اور دیگر مسلمانوں سے آ ملے ۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ ”وَ اللَّہُ وَلِیُّہُما وَ عَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ “۔یعنی خدا ان دو گروہوں کا معاون و مددگار ہے اور اہل ایمان کو خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
ضمنی طور پر اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ واوقعے احد کا زکر ان آیات کے بعد جو کفار پر اعتماد نہ کرنے کے بارے میں تھیں ۔اس زندہ حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح پہلے بھی گذر چکا ہے اور بعد میںبھی تفصیل کے ساتھ بتائیں گے کہ پیغمبر اکرم نے ان یہودیوں کو اجازت نہ دی جو بظاہر مسلمانوں کی حمایت کے لئے کھرے ہوئے تھے اور وہ اسلامی لشکر گاہ میں ٹہرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ پھر بھی بیگانے تھے اور ان نازک حالات میں ان کا مسلمانوں کے ساتھ ہونا مناسب نہ تھا۔