Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کل کے دشمن اور آج کے دوست

										
																									
								

Ayat No : 102-103

: ال عمران

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۱۰۲وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ۱۰۳

Translation

ایمان والو اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ. اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ.

Tafseer

									اس کے بعد قرآن کریم اتحاد اور اخوت کے عظیم نعمت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور مسلمانوں کو گذشتہ افسوس ناک حالت پر غور و فکر کرنے اور اس پراکندگی کا اس اتحاد اور وحدت کے ساتھ تقابل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : تمہیں نہیں بھولنا چاہئیے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن خدا وند عالم نے اسلام و ایمان کی بر کت سے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے انس پیدا کیا اور تم آج بھائی بھائی بن گئے ۔قابل توجہ یہ بات ہے کہ اس آیت میں لفظ نعمت کو مکرر لا یا گیا ہے اور اس طرح سے اتفاق و اخوت کی نعمت کی اہمیت ان کے گوش گذار کی گئی ہے ۔ 
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خدا نے مونین کی تالیفِ قلوب کو اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے کہا کہ خدا نے تمہارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کردی ۔ اس تعبیر سے اسلام کے ایک اجتماعی معجزہ کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ اگر عربوں کی سابقہ عداوت پر غور کیا جائے کہ کس طرح سالہا سال سے ان کے دلوں میں گہرے کینے بھرے ہوئے تھے اور کس طرح ایک معمولی سے مسئلے پر ان کے درمیان خونیں جنگ کی آگ بھڑج اٹھی تھی ، خصوصااس بات کی طرف توجہ کی جائے کہ عموماً ناداں ، ان پڑ اور نیم وحشی افراد ہٹ دھرم ہوتے ہیں اور آسانی سے گذشتہ چھوٹے چھوٹے مسلے کو نسیان پر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ اس صورت میں عظیم اسلام کے اجتماعی معجزہ کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عام اور روز مرّہ کے طور طریقوں سے یہ ممکن نہیں تھا کہ اس قسم کی کینہ پر ورنادان قوموں کی ایک ملت بنائی جائے اور انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا جائے ۔ 
مندرجہ بالا امر ( کینہ پر عرب قبا ئل کے درمیان وحدت اور بھائی چارہ) کی اہمیت علماء مورخین حتی کہ غیر مسلم موخین کی نظر سے مخفی نہیں رہی اوراور سب نے بڑے تعجب خیز انداز سے اس کا ذکر کیا ہے ۔ 
جان ڈیون پورٹ، مشہور انگریز عالم رقمطراز ہے : 
” ..... محمد جیسے ایک عالم عرب نے اپنے ایک چھوٹے منتشر کردہ ، برہنہ اور فلاس زدہ ملک کو ایک متحرک اور منظم معاشرے میں تبدیل کردیا اور روئے زمین کی اقوام کے درمیان انہیں نئے صفات اور تازہ اخلاق کے ساتھ متعارف کرایا اور تیس سال سے کم عرصے میں اس طرز و روش نے حاکم قسطنطنیہ کو مغلوب کردیا اور سلام طین ایران کو نیست و نابود کردیا ، شام ، بین النہرین اور مصر کو مسخر کیا اور ان کی فتو حات اور اوقیانوں اطلس سے لے کر دریا ئے خرز اور سیحوں تک جا پہنچیں ۔ ۱#
تومال کارل لکھتا ہے : 
” خدا وند عالم نے اسلام کے ذریعے عربوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف ہدایت کی ۔ ایک بے حرکت اور منجمد قوم کہ جس کی نہ کو ئی آواز تھی اور نہ حرکت محسوس ہوتی تھی سے ایک ملت پیدا کی جسے گمنامی سے شہرت ، سستی سے بیداری ، پستی سے بلندی اور عجز و ناتوانی سے قوت و توانائی کی طرف لے گیا ۔ ان کی روشنی چار دانگ عالم میں ضیاء پاشی کرنے لگی ۔ اعلان اسلام کو ابھی ایک صدی نہیں ہوئی تھی کہ مسلمانوں نے ایک قدم ہندوستان اور دوسرا قدم سر زمین اندلس میں رکھا اور آخر کار اس مختصر سی مدت میں اسلام نصف کرہٴ ارض پر ضو افشانی کرنے لگا ۔ ۲#
”ڈاکٹر گوستاد لوبون“ نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: 
” اس حیرت انگیز حادثہ یعنی اسلام سے قبل کہ جس نے عرب قوم کو جہانگیری اور نئے معانی کے اخلاق کے روپ میں ہمارے سامنے پیش کیا عربستان کا علاقہ نہ تاریخ و تمدن کی جز ء سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی وہاں علم یا مذہب کا نام و نشان تھا ۔(” تاریخ تمدن اسلام و عرب از گوستاد لوبون)۔ 
ایک ہندو دانشمند اور سیاستدان نہر و اس بارے میں لکھتا ہے : 
” عربوں کی سرگزشت اور داستان کہ وہ کس تیز رفتاری سے ایشاء، یورپ اور افریقہ پر چھا گئے اور عالی شان و عظیم تمد اور ثقافت کو انہوں نے جنم دیا ، انسانی تاریخ میں ایک عجیب و غریب چیز ہے .....-- نئی توانائی اور جدید فکر کہ جس نے ان کو بیدار کیا اور انہیں اطمنانِ نفس اور قدرت سے نواز وہ دین اسلام تھا ۔3#
و کنتم علی شفا حفرة من النار فانقذ کم منھا
شفاکے لغوی معنی خندق یا کنویں کا کنارہ ہے اور شاید لب پر بھی ” شفہ “ کا .....- اطلاق اسی مناسبت سے ہوتا ہے ۔ اسی طرح اس لفظ کا استعمال بیماری سے تند رست ہونے کے لئے بھی اسی مناسبت سے ہے کہ انسان سلامتی اور تندرستی کے کنارے پر آپہنچا ہے ۔ 
مندرجہ بالا جملے میں خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : تم گذشتہ زمانے میں آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ۔ ہر آن ممکن تھا کہ تم اس میں گر جاوٴ اور تمہارا سب کچھ خاکستر ہو جائے لیکن خدا وند عالم نے تمہیں نجات نخشی اور ہلاکت کے اس گڑھے سے امن و امان کے نقطہ کی طرف تمہاری رہنمائی کی جو اخوت و محبت کا نقطہ تھا ۔
آیت میں آگ سے مراد جہنم کی آگ ہے یا اس دنیا کی ، اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن پوری آیت پر توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑوں سے کناریہ ہے جو ہر لحظہ زمانہ جاہلیت میں کسی نہ کسی بہانہ عربوں میں بھڑک اٹھتی تھی ۔ 
قرآن مجید اس جملے میں زمانہ جاہلیت کے خطر ناک حالات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر لحظہ جنگ اور خونریزی کا خطرہ ان کے سروں پر منڈلاتا رہتا تھا اور خدا وند عالم نے نور اسلام کی بر کت سے انہیں اس حالت سے نجات دی ۔ یہ مسلم ہے کہ انہوں نے اس خطر ناک حالت سے خلاصی پاکر جہنم کی جلانے والی آگ سے بھی نجات پالی ۔ 
کذٰلک یبن اللہ لکم اٰیاتہ لعلکم تھتدون۔ 
آیت کے آخر میں مزید تاکید کی گئی ہے کہ خدا اسی طرح اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تمہاری ہدایت ہو جائے ۔ اس بناء پر آخری مقصد اور غرض تمہاری ہدایت و نجات ہے اور چونکہ یہ تمہارے منافع اور سر نوشت کا معاملہ ہے لہٰذا جو کچھ کہاگیا اسے زیادہ سے زیادہ اہمیت دو۔ 
قوموں کی بقاء کے لئے اتحاد کی اہمیت 
ان باتوں کے باوجود کہ جو اتحاد کے اعجازاً میز اثر کے بارے میں اجتماعی مقاصد او رمعاشروں کی بلندی کی طرف پیش رفت کے سلسلے میں کہی گئی ہیں ، کہا جاسکتا ہے کہ ابھی تک اس واقعی اثر نہیں پہچانا گیا۔ 
عصر حاضر میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے بند باندھے گئے ہیں جو زیادہ صنعتی توانائیوں کی بدولت ہیں اور وہ وسیع و عریض زمینوں کی آبیاری اور روشنی کا سبب بنے ہیں ۔ اگر صحیح طور سے غور و فکر کیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ اتنی بڑی قدرت صرف ناچیز تلاش بارش کے قطرات کے ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کی قدرت کے نتیجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ، یہیں سے ہم انسانوں کے اتحاد اور مل کر کو شش کرنے کی اہمیت سے واقف ہو سکتے ہیں ۔ 
پیغمبر اکرم اور دیگر بزرگ اسلامی رہنماوٴں سے اکثریت میں مختلف عبارات کے ذریعے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ 
چنانچہ ایک مقام پر رسو ل اللہ فرماتے ہیں : 
”الموٴمن للموٴمن کلبنیان یشد بعضہ بعضاً“
مومنین ایک دوسرے کے لئے ایک عمارت کے اجزاء کی مانند ہیں کہ جن میں ہر ایک جزء دوسرے جز کی مضبوطی سے نگہبانی کرتا ہے۔ 
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا : 
” الموٴمن کالنفس الواحدة “
مومنین ایک نفس و روح کی طرح ہیں ۔ 
آپ نے مزید فرمایا : 
مثل الموٴمن فی توادھم و تراحمھم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی بعضہ تداعی سائرة السھر و الحمی۔ 
صاحبان ایمان ، افراد دوستی اور ایک دوسرے پر رحم کرنے ، اور نیکی کرنے میں ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کہ جب ان میں ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی اعضاء و جوارح کو قرار و آرام نہیں آتا ۔ 4#

۱۰۴۔ وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ۔
۱۰۵۔ وَلاَتَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَہُمْ الْبَیِّنَاتُ وَاٴُوْلَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ۔
ترجمہ 
۱۰۴۔ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی باتوں کی طرف دعوت دینے والی ہو ۔ وہ نیکی کا حکم دے برائی سے روکے ۔ اور بلا شبہ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔ 
۱۰۵۔ اور دیکھو! ان لوگوں کی سی چال نہ چلنا جو( خدا کے ایک ہی دین پر اکھٹے رہنے کی بجائے ) الگ الگ ہو گئے ، اور باوجود یہ کہ ( کتاب اللہ ) کی روشن دلیلیں ان کے سامنے آچکی ہیں ۔ باہم دگر اختلافات میں پڑ گئے پس ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ 
 

۱#”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن “ از جان ڈیون پورٹ ، فارسی ترجمہ از سید غلام رضا سعیدی، صفحہ ۷۷۔ 
۲”#نقشہ ہائی استعمار“از محمد محمود صواف، صفحہ ۳۸۔ 
3# نگاہی بہ تاریخ جہان ، جلد ۱ ، صفحہ۳۱۷۔
4# تفسیر ابو الفتوح رازی ، جلد ۲، صفحہ ۴۵۔