”حبل اللہ “کی تعبیر کا مقصد
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۱۰۲وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ۱۰۳
ایمان والو اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ. اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ.
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ان مامور کو حبل اللہ سے تعبیر کرنے سے ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ انسان عام حالات میں جب کہ کوئی مرّبی اور رہنما نہ ہو ، طبیعت کے درّے ، سر کش سر شت کی گہرائیوں اور جہل و نادانی کے تاریک کنویں میں پڑا رہتا ہے ۔ اس پستی سے نجات حاصل کرنے اور تاریک کنویں سے باہر نکلنے کے لئے ایک مضبوط رسّی کی ضرورت ہے جسے وہ پکڑ سکے اور اس سے باہر آسکے ۔
یہ مضبوط رسی وہ خدائی رابطہ ہے جو قرآن اس کے لانے والے اور ان کے حقیقی جانشینوں تک پہنچتا ہے اوریہ لوگوں کو مادیت کی پستی سے نکال کر معنویت اور راحانیت کے عروج تک پہنچا دیتا ہے ۔