Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حق کی دعوت اور فساد کا مقابلہ

										
																									
								

Ayat No : 104-105

: ال عمران

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۱۰۴وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۱۰۵

Translation

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے, نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں. اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب هعظیم ہے.

Tafseer

									وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ۔
امت اصل میں مادہ ” ام “ سے ہے جس کا معنی ہر وہ چیز جس کا دووسری چیزیں ضمیمہ ہوں ۔ اسی بناپر ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جن کے درمیان وحدت کا پہلو ہو ۔ اس میں فرق نہیں کہ وحدت زمانی ہویا مکانی یا مقصد میں وحدت ہو، لہٰذا متفرق اور پراکندہ اشخاص کو امت نہیں کہا جاسکتا ۔ 
گذشتہ آیات اخوت و وحدت کے بارے میں ہیں ۔ اب اس آیت میں امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو حقیقت میں ایک اجتماعی زرہ کے مانند ہے اور جو جمیعت کی حفاظت کرتی ہے ۔ کیونکہ اگر امر بال معروف اور نہی عن المنکرنہ ہو تو مختلف عوامل جو ” اجتماعی وحدت“ کی بقا ء کے دشمن ہیں دیمک کی طرف اندر سے معاشرے کی جڑوں کو کھاتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتے ہیں ۔ اسی لئے وحدتِ اجتماعی کی حفاظت عوام کی نگرانی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ 
آیت بالا میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا گروہ ہونا چاہئیے جو ان دو اجتماعی عظیم ذمہ داریوں کو انجام دے ۔ 
لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائیوں سے منع کرے اور آیت کے آخری حسے میں با قاعدہ تصریح ہوئی ہے کہ فلاح و نجات صرف اسی راستے سے ممکن ہے ۔