Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ ایک اور سوال کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 1-5

: المسد

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ۱مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ۲سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۳وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۴فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ ۵

Translation

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے. نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا اور نہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی. وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا. اور اس کی بیوی جو لکڑی ڈھونے والی ہے. اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی بندھی ہوئی ہے.

Tafseer

									یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ان پیشین گوئیو ں کی مو جودگی میںممکن نہیں تھا کہ ابو لہب اور اس کی بیوی ایمان لے آتے ،ورنہ یہ خبر جھو ٹی اور دردغ ہو جاتی ۔
یہ سوال اسی معروف سوال کے مانندہے جو ”علم ِ خدا “کے مسئلہ کے بارے میں جبر کی بحث میں پیش ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا جو ازل سے ہر چیز کا عالم تھا ،وہ گنہگاروں کے گناہ اور اطاعت گزاروں کی اطاعت کو جانتا تھا ۔اس بناء پر اگر گنہگار گناہ نہ کرتے تو خداکا علم جہالت میں بدل جائے ۔
علماء اور فلا سفئہ اسلام قدیم سے اس سوال کا جواب دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا جانتا ہے کہ ہر شخص اپنے اختیار و آزادی سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے کون کون سے کام انجام دے گا ،مثلاََزیرِبحث آیات میں خدا ابتداء سے جانتا تھا کہ ابو لہب اور اس کی بیوی اپنی خواہش و رغبت اور ارادہ و اختیار سے ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ،جبری اور لازمی طور نہیں ۔
دوسرے الفاظ میں ارادہ و اختیار کی آزادی کا عنصر بھی خدا کو معلوم تھا۔وہ جانتا تھا کہ بندے صفت اختیا ر کے ساتھ اور اپنے ارادہ سے کون سے عمل انجام دیں گے۔
مسلمہ طور پر ایسا علم اور مستقبل کے بارے میں اس قسم کی خبر دینا ،مسئلہ اختیار کی تاکید ہے ،جبراور مجبوری کے لیے کو ئی دلیل نہیں ہے ۔(غور کیجئے)