۳۔بے بصیرت رشتہ دار ہمیشہ دور ہوتے ہیں۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ۱مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ۲سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۳وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۴فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ ۵
ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہوجائے. نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا اور نہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی. وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا. اور اس کی بیوی جو لکڑی ڈھونے والی ہے. اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی بندھی ہوئی ہے.
یہ سورہ ایک مرتبہ پھراس حقیقت کی تاکید کر رہا ہے کہ ایسی رشتہ داری جس میں ایمان اور عقیدہ کا رشتہ نہ ہو اس کی کوئی حیثیت اور قدر و قیمت نہیں ہوتی ،اور مردان ِ خدا منحرف ،جبار اور سر کش لوگوں کے مقابلہ میں کسی قسم کامیلان نہیں رکھتے تھے چاہے وہ ان کے کتنے ہی قریبی رشتہ دار ہوں۔
با وجود اس کے کہ ابو لہب پیغمبر اکرم کا چچا تھا اور آپ کے قریب ترین رشتہ داروں میں شمار ہو تاہے ،جب اس نے اپنا اعتقادی اور عملی راستہ آپ سے جدا کر لیا تو اس کی بھی دوسرے منحرف اور گمراہ لوگوں کی طرح سخت ملامت اور سر زنش کی گئی ۔اس کے بر عکس ایسے دور دراز کے لو گ بھی تھے جو نہ صرف پیغمبر کے رشتہ داروں میں شمار نہ ہو تے تھے ،بلکہ آپ کے خاندان اور اہل زبان سے بھی نہیں تھے ،لیکن وہ فکری ،اعتقادی اور عملی رشتہ کی بنا ء پر اس قدر نزدیک ہو گئے ، کہ مشہور حدیث میں سلمان منا اھل البیت (سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں )کے مطابق گویا خاندانِ رسالت کاجزء ہو گئے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس سورہ کی آیات صرف ابو لہب اور اس کی بیوی کے بارے میں گفتگو کر رہی ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ صرف ان کے صفات کی وجہ سے ان کی ایسی مذمت کی گئی ہے ۔اس بناء پر جو شخص یا جو گروہ اُنہیں اوصاف کا حامل ہوگا اس کی سر نو شت بھی ا ُ نہیں جیسی ہوگی ۔
خدا وندا!ہمارے دل کو ہر قسم کی ہٹ دھرمی اور عناد سے پاک کر دے ۔
پر ور دگار!ہم سب اپنے انجام اور عاقبت کار سے ڈرتے ہیں ،ہمیں امن و سکون اور آرام بخش دے و اجعل عاقبةامر نا خیراََ،(ہماری عاقبت بخیر کر)
بارِالہا !ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم عدالت میں نہ تو مال و دولت کام آتے ہیں اور نہ ہی کوئی رشتہ داری فائدہ دیتی ہے ،صرف تیرا لطف و کرم ہی کام آتا ہے ،لہٰذا ہم پر اپنا لطف و کرم کر ۔
آمین یا ربّ العالمین