Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اس کی سر نوشت شوم 

										
																									
								

Ayat No : 26-30

: المدثر

سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ۲۶وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ۲۷لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ۲۸لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ ۲۹عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ۳۰

Translation

ہم عنقریب اسے جہنمّ واصل کردیں گے. اور تم کیا جانو کہ جہنمّ کیا ہے. وہ کسی کو چھوڑنے والا اور باقی رکھنے والا نہیںہے. بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے. اس پر انیس فرشتے معین ہیں.

Tafseer

									        تفسیر
     اس کی سرنوشتِ شوم
 گزشتہ آیات کو جاری رکھتے ہوۓ، کو شرک کے بعض سرحنوں کی وؒح و کیفیت، اور قرآنِ مجید اور پہغمبراسلامؐ کی رسالت کی نفی و انکار کی بات کرتی تھیں۔ ان آیات میں قیامت میں ان کے وحشت ناک عزاب کی طتف اشارہ کرتا ہے۔
 فرماتاہے :"ہم عنقریب اس کو جہنم میں داخل کریں گے، اور دوزخ کی آگ میں جلائیں گے"۔ (سَاُصْلِيْهِ سَقَرَ)۔
 "سقر" اصل میں "سقر" (بروزن نقر) کے مادہ سے دگرگوں ہونے اور سورج کی گرمی کے اثر سے پگل جانے کے معنی میں ہے اس بعد جہنم کے ناموں میں سے ایک نام کے عنوان سے انتخاب ہوا ہے اور باہا ورآنی آیات میں آیا ہے اور اس نام کا انتخاب دوزخ کے ہولناک عزابوں کی طرف اشارہ ہے، جو اہل دوزخ کو دامن گیر ہوں گے، اور بعض نے جہنم کے ہول انگیز طبقات و درکات میں سے ایک نام سمجھا ہے۔
    ـــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کے بعد عزابِ دوزخ کی عظمت و شدت کے بیان کے لیے کہتا ہے :"تو کی جانتا ہے کہ سقر کیا ہے"۔(وَمَآ اَدْرَاكَ مَا سَقَرُ)۔ یعنی اس کا عزاب اس قدر شدید ہے جو دائرہ تصور سے باہر ہے اور کسی شخص کے فکر و خیال میں نہیں سماتا، جیسا کہ جنت کی نعمتوں کی اہمیت و عظمت کسی فکر و خیال میں نہیں سماتیں۔
 "وہ نہ کسی چیز کو باقی رہنے دیتی ہے اور نہ ہی کسی چیز کو چھوڑتی پے"۔(لَا تُبْقِىْ وَلَا تَذَرُ)۔
 یہ جملہ ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جہنم کی آگ ، دنیا کی آگ کے بر خلاف ـــــــــ جو کبھی بدن کے ایک حصہ پر اثر انداز ہوتی ہے اور دوسرا حصہ صحیح و سالم رہ جاتی ہے اور کبھی جسم پر اثر کرتی ہے، لیکن روح اس سے امان میں رہتی ہے ـــــــ ایک ایسی گھیرنے والی آگ ہے جو انسان کے پورے وجود کو اپنے احاطہ میں لے لی گی اوت کسی چیز کو نہیں چھوڑےگی۔ 
 بعض یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دوزخیوں کو نہ مارے گی اور نہ ہی زندہ رہنے دے گی ، بلکہ وہ ہمیشہ موت و حیات کے درمیان گرفتار رہیں گے ، جیسا کہ سورۃ اعلٰی کی آیہ 13 میں آیا ہے : لایموت فیھا ولا یحیٰی "نہ وہ اس میں مریں گے اور نہ ہی وہ زندہ رہیں گے"۔  
 یا یہ ہے کہ نہ تو جلد اور گوشت بدن پر رہنے دے گی اور نہ ہی ہڈیوں کوصحیح وسالم چھوڑے گی، اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کلی طور پر جلادے گی، کیونکہ یہ معنی اس چیز سے، جو سورۃ نساء کی آیہ 56 میں آئی ہے، سازگار نہیں ہے، جہاں فرماتا پے:(كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُـمْ بَدَّلْنَاهُـمْ جُلُوْدًا غَيْـرَهَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ) جس وقت اس ان کے بدن کی جلدیں جل جائیں گی تو ہم ان پر دوسری جلدیں تبدیل کردیں گے، تاکہ وہ خدا کے عزاب کا مزا چکھیں۔   
     ــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کے بعد قہر الٰہی کی اس جلانے والی آگ کی دوسری صفت کو بیان کرتے ہوۓ مزید کہتا ہے :"وہ بدن کی جلد کو کامل طور پربدل کر رکھ دے گی ، جو بہت دور کے فاصلہ سے انسانوں کے لیے نمایاں ہوگی"۔(لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ)۔ ؎ 1
 وہ چہرے کو اس طرح سے سیاہ اور تاریک بنادے گی کہ وہ شب تاریک سے زیادہ سیاہ نظر آۓ گا۔
 "بشر" یہاں "بشرہ" کی مجع ہے ، جو بدن کی ظاہری جلد کے معنی میں ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ انسانوں کے معنی میں ہو، "لواحۃ" "لوح" کے مادہ سے، کبھی تو ظاہر و آشکار ہونے کے معنی میں آتا ہے، اور کبھی تغیر دینے اور دگرگوں کرنے کے معنی میں۔
 پہلے معنی کی بناء پر آیت کی تفسیر اس طرح ہوگی: دوزخ دور کے فاصلہ سے انسانوں کے لیے نمایاں ہوگی، جیسا کہ سورۃ نازعات کی آیہ 36 میں آیا ہے: (وَبُرِّزَتِ الْجَحِـيْـمُ لِمَنْ يَّرٰى) "دوزخ دیکھنے والوں کے لیے ظاپر و آشکار ہوگی"۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  ؎ 1   "لواحۃ" مبتداۓ مخزوف کی خبر ہے اور تقدیر میں "ھی لواحۃ" ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور دوسرے معنی کی بناء پر آیت کی تفسیر اس طرح ہے : "دوزخ بدن کی جلد کے رنگ کو کلی طور پر دگرگوں  کردے گی"۔
     ـــــــــــــــــــــــــــ
 اور آخری زیرِ بحث آیات میں فرماتا ہے : "انیس عزاب کے فرشتے جہنم پر مقرر کیے گئے ہیں"۔(عَلَيْـهَا تِسْعَةَ عَشَرَ)۔ ؎ 1
 وہ فرشتے جو قطعی طور سے ترحم، شفقت اور مہربانی پر مامور نہیں ہیں، بلکہ سزا دینے، عزاب اور سختی پر مامور ہیں۔
 اگر اوپر والی آیت میں صرف امیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے اور عزاب پر مامور ملائکہ کی تصریح نہیں ہوئی، لیکن بعد والی آیت سے اطھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تعداد عزاب پر مامور فرشتوں کی تعداد کی طرف اشارہ ہے۔
 نعخ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ فرشتوں کے انیس گرہوں کی طرف اشارہ ہے، نہ کہ انیس افارد کی طرف ، اور "وما یعلم جنود ربک الاھو" (تیرے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا) کا جملہ، جو بعد والی آیت میں آیا ہے ، اس کو اس معنی پر قرینہ سمجھتے ہیں۔ 
 لیکن مامورین عزاب الٰہی کے لیے اعداد میں سے صرف انیس کا عدد ہی کیوں انتخاب کیا گیا، کوئی بھی شخص وقت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک نہیں جانتا، لیکن کچھ لوگوں نے یہ احتمال دیا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کے عدد میں۔ اکائیوں میں سب بڑا عدد (نو کا عدد) اور دہائیوں میں سے سب سے چھوٹا عدد (دس کا عدد) جمع ہے۔
 بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقِ رذیلہ کی جڑیں انیس ظاہری و باطنی اخلاق کی طرف لوٹتی ہیں اور چونکہ اخلاقِرذیلہ میں سے ہر ایک عزاب الٰہی کا ایک عامل ہے، اس لیے دوزخ کے انیس طبقے ہیں، جو ان کی تعداد کے مطابق ہیں اور ہر طبقہ پر ایک فرشتہ یا فرشتوں کا ایک گروہ عزاب پر مامور ہے۔
 اصولی طور پر قیامت ، بہشت و دوزخ اور ان کے جزئیات و خصوصیات سے مربوط مسائل ہم لوگوں کے لیے، جو محدود دنیا کے محیط میں اسر ہیں ، پورے طور پر واضح نہیں ہیں، جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ان کے کلیات ہیں۔ اسی لیے روایات میں یہ آیا ہے کہ ان انیس فرشتوں میں سے ہر ایک بہت بڑی قدرت رکھتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک بہت بڑے قبیلہ کو آسانی کے ساتھ جہنم میں پھینک سکتا ہے۔
 اور یہاں سے ان لوگوں کے افکار کا ضعف و ناتوانی واضح ہوجاتا ہے، جو ابو جہل کی طرح سوچتے ہیں، اس نے جب یہ آیت سنی تو اس نے قبیلہ قریش سےبطوراستہزاءکےیہ کہاکہ تمھاری مائیں تمھاری عزا میں ہیٹھیں،کیا تم سنتےنہیں ہو کہ "ابن ابی کبشہ" (پیغمبر اکرمؐ کی طرف اشارہ ہے)۔ ؎ 2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  ؎ 1   اس جملہ میں "علیہا" خیر مقدم ہے اور "تسعۃ عشر" مبتداۓ موخر ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لفظ مبنی پر فتحہ ہے۔ اس لیے ظاہر میں اس پر رفع نہیں آسکتا اور اس کی وجہ نحویوں نے یہ بتائی ہے کہ وہ داد عاطفہ کے معنی کو مضمن ہے۔
  ؎ 2   اس برے میں کہ قریش پیغمبر کو اس عنوان سے کیوں پکارتے تھے، بعض نے تو یہ کہا ہے کہ قبیلہ "خزاعہ" کا ایک شخص "ابو کبشہ" نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں بتوں کی عبادت سے دستبردارہوگیا تھا اور چونکہ پیغمبر بت پرستی کے شدید مخالف تھے لہزا وہ آپ کو "ابو کبشہ" کے بیٹے کے نام سے پکارتے تھے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ابو کنشہ پیغمبر کے مادری اجداد میں سے تھالیکن بہرحال اس میں شک نہیں کہ ان کا مقصد اس نام کے انتخاب کرنے میں تمسخر اڑانا تھا، کیونکہ عربی زبان میں "کبشہ" "مینڈے" کے معنی میں ہے۔ اگرچہ یہ نام مدح کے طور پر بھی آیا ہے اور لشکر کے بہادروں اور کمانڈروں کو بھی کہا جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ دوزخ کے خازن انیس افراد ہیں، لیکن تم بہادروں کا ایک بہت بڑا گروہ ہو، کیا تم میں سے ہر دس آدمی بھی ان میں سے ایک کو مغلوب نہیں کرسکتا؟ "ابوالاسدی جمعی" (قریش میں سے ایک طاقت ور شخص) نے کہا: ،میں ان میں سے سترہ کے لیے کافی ہوں، باقی کے دونفر کا حساب چکا لینا۔ ؎ 1
      ـــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
  ؎ 1     "مجمع البیان" جلد 10 ص 388 اور دوسری تفاسیر