اٹھ اور عالمین کو ڈرا
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۱قُمْ فَأَنْذِرْ ۲وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۳وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۴وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۵وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ۶وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ۷فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ ۸فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ ۹عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ ۱۰
اے میرے کپڑا اوڑھنے والے. اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ. اور اپنے رب کی بزرگی کا اعلان کرو. اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو. اور برائیوں سے پرہیز کرو. اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار بن جاؤ. اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو. پھر جب صور پھونکا جائے گا. تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا. کافروں کے واسطے تو ہر گز آسان نہ ہوگا.
تفسیر
اٹھ اور عالمین کو ڈرا
اس میں شک نہیں کہ ان آیات میں مخاطب خود پیغمبرؐ کی ذات ہے۔ اگرچہ اس بات کی ان میں صراحت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ان آیات میں موجود قرائن اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
پہلے فرماتا ہے: "اے بستر خواب میں آرام کرنے والے اور اے چادر اوڑھ کر سونے والے"۔(يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ)۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
"اٹھ کھڑا ہو اور انزار کر اور عالمین کو ڈرا"(قُمْ فَاَنْذِرْ)۔
کیونکہ سونے اور آرام کرنے کا وقت گزر گیا ہے اور قیام و تبلیغ کا زمانہ آگیا ہے۔
خصوصیت کے ساتھ انزار پر تکیہ، حالانکہ پیغمبرؐ "بشیر" بھی ہیں اور "نزیر" بھی۔ اسی بناء پر ہے، چونکہ "انزار" خصوصیت کے ساتھ کام کے آغاز میں ، سوئی ہوئی ارواح کو بیدار کرنے میں، زیادہ عمیق اور گہری تاثیر رکھتا ہے۔
اس بارے میں کہ پیغمبرؐ بستر میں کیوں آرام کررہے تھے، کہ اس خطاب نے آپ کو قیام کی دعوت دی ، مفسرین نے بہت سے احتمال دیئے ہیں۔
1- مشرکینِ عرب موسم حج کے قریب جمع ہوۓ اور ان کے سرداروں مثلاً ابوجہل ، ابو سفیان، ولید بن مغیرہ، نضر بن حارث وغیرہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ باہر سے مکہ میں آنے والے لوگوں کے سوالات کے مقابلہ میں، جنھوں نے اِدھر اُدھر سے پیغمبر اسلامؐ کے ظہور کے سلسلہ میں مختلف مطالب سنے ہیں کیا کہیں ؟
اگر ہر ایک الگ الگ جواب دینا چاہے ، ایک اسے کاہن کہے، دوسرا مجنون کہے، تیسرا ساحر کہے تو یہ اختلاف راۓ اچھا اثر نہ چھوڑے گا لہذا ضروری ہے کہ پیغمبر کے برخلاف پروپیگنڈا کی جنگ میں متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ بحث و گفتگو کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ وہ سب کہ سب اسے "ساحر" کہیں، کیونکہ "جادو" کے واضح آثار میں سے ایک بیوی اور شوہر اور باپ اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالتا ہے اور پیغمبر نے دینِ اسلام کو پیش کرکے اس قسم کا کام انجام دیا ہے۔
یہ بات پیغمبرؐ کے کان تک پہنچی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور بیماروں کی طرح غمگین حالت میں گھر میں آئے اوربستر میں لیٹ گئے، تو اوپر والی آیات نازل ہوئیں اور آپ کو قیام اور مبارزہ کی دعوت دی۔
2- یہ آیات وہ پہلی آیات تھیں جو پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئیں ، کیونکہ "جابر بن عبداللہ" کے واسطہ سے پیغمبرؐ سے نقل ہوا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:"میں کوہِ حرا پر تھا کہ ایک آواز بلند ہوئی اور کہا، اے محمدؐ! "تو خدا کا رسول ہے"۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی میں نے اپنے سر کے اوپر دیکھا ۔ تو ایک فرشتے کو عرش پر آسمان و زمین کے درمیان دیکھا، میں ڈرگیا اور خدیجہ کی طرف لوٹ آیا، اور میں نے کہا: "مجھ پر کپڑا ڈال دو، مجھ پر کپڑا ڈال دو اور ٹھنڈا پانی مجھ پر ڈالو"، یہ وہ منزل تھی کہ جبریل مجھ پر نازل ہوۓ اور "یایھا المدثر"لاۓ"۔
لیکن اس بات کیطرف توجہ کرتے ہوۓ کہ اس سورہ کی آیات آشکارادعوت کو بیان کر رہی ہیں، اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ یہ آیات کم ازکم تین سال تک پوشیدہ طور سے دعوت کرنے کے بعد نازل ہوئی ہیں، اور یہ بات اس چیز سے جو اوپر والی روایت میں بیان کی گئی ہے سازگار نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ یہ کہا جاۓ کہ اس سورہ کی چند ابتدائی آیات آغازِ دعوت میں نازل ہوئی تھیں اور بعد والی آیات چند سال کے بعد سے تعلق رکھتی ہیں۔
3- پیغمبر سوۓ ہوۓ تھے اور اوپر چادر لی ہوئی تھی کہ جبرائیل نازل ہوۓ اور آپ کو بیدار کیا اور یہ آیات آپ کے سامنے پڑھیں کہ اٹھ جائیےاور بستر اور ننید سے کنارہ کشی کیجیے اور رسالت اور پیغام الٰہی کو انجام دیجیے۔
4- کپڑا اوڑھنے سے مراد ظاہری کپڑا نہیں ہے ، بلکہ لباس نبوت و رسالت ہے۔ جیسا کہ پرہیزگاری کو "لباس التقوٰی" کہا گیا ہے۔
5- "مدثر" سے مراد ایسا شخص ہے جس نے گوشۂ عزلت اختیار کرلیا ہو اور علحیدگی اور تنہائی میں زندگی بسر کرتا ہو، اس بناء پر آیت یہ کہتی ہے کہ عزلت اور گوشہ نشینی سے باہر نکل آؤ اور مخلوق کو انزاراور خدا کے بندوں کو ہدایت کرو۔
ان سب تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔
قابل توجہ بات یہ کہ "فانذر" (انزار کرو) کا جملہ یہ بیان کرتا ہے کہ کس چیز سے ڈراؤ ؟ اور کس موضوع میں انزار کرو؟ اور یہ حقیقت میں عمومیت کے بیان کے لیے ہے، یعنی بت پرستی ، شرک و کفر ، ظلم و بیداگری اور فساد و عذاب الٰہی اور حسابِ محشر وغیرہ کے بارے میں لوگوں کو خبردارکرو، (اور اصطلاح کے مطابق متعلقہ بات کا محزوف ہونا، عمومیت پر دلالت کرتا ہے) ضمنی طور پر یہ عذاب دنیا کوبھی شامل ہے اور عزابِ آخر کو بھی اور انسان کے اعمال کے برے نتائج کع بھی دامن گیر ہوں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور قیام و انزار کی دعوت کے بعد پیغمبر اسلامؐ کو پانچ حکم دیتا ہے ، جو دوسروں کے لیے ایک نمونہ ہیں، ان میں پہلا حکم توحید کے بارے میں ہے۔ فرماتا ہے : "صرف اپنے پروردگار کو بڑا سمجھ"۔(وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ)۔ ؎ 1
وہی خدا جو تیرا مالک و مربی ہے اور جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اسی کی طرف سے ہے۔
تو اس کے غیر کو بھول جا اور تمام جھوٹے معبودوں پر سرخ لکیر پھیر دے، اس مختصر سی عبارت میں مسئلہ توحید کو دلیل کے ذکر کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ قرآن کی تعبیریں کتنی عمدہ اور مضامین پر ہین کہ ایک مختصر سی عبارت میں یہ سب معنی بیان ہوگئے ہیں۔
"فکبر" کے جملہ سے مراد صرف "اللہ اکبر" کہنا نہیں ـــــــ اگرچہ اللہ اکبر بھی کہنا اس کا ایک معنی ہے، جس کی طرف روایات میں بھی اشارہ ہوا ہے ـــــــــ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے خدا کو اعتقاد کے لحاظ سے بھی ، عمل کے لحاظ سے بھی اور گفتگو میں بھی بڑا سمجھو، اور اس کو اوصافِ جمال کے ساتھ متصف اور ہر قسم کے نقص و عیب سے منزہ جان ، بلکہ اس کو اس سے برتر سمجھ کہ اس کی تعریف و توصیف ہوسکے، جیسا کا روایات اہل بیت میں آیا ہے کہ "اللہ اکبر" کا معنی یہ ہے کہ خدا اس سے برتر ہے کہ اس کی توصیف ہوسکے، اور وہ فکر انسانی میں سما سکے، اس بناء پر "تکبیر" "تسبیح" کی نسبت زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے جو صرف ہر قسم کے نقص و عیب سے تنزیہ کو شامل ہوتی ہے۔
مسئلہ توحید کے بعد دوسرا حکم آلودگیوں سے پاکیزگی کے بارے میں دیتے ہوۓ مزید کہتا ہے :"اور اپنے لباس کو پاک کر"(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ)۔
"لباس" کی تعبیر ممکن ہے انسان سے مراد دل، روح اورجان ہے، یعنی اپنے دل کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک کر ، جہاں لباس کو پاک ہونا چاہیے، تو صاحبِ لباس اولیت رکھتا ہے کہ وہ پاک ہو۔
بعض نے اسی ظاہری لباس کے ساتھ اس کی تفسیر کی ہے۔ کیونکہ لباس کے ظاہر کی پاکیزگی کسی کی شخصیت کے اہم ترین ہونے اور انسان کی تربیت اور تہزیب و تمدن کی نشانی ہے۔ خصوصًا زمانہ جاہلیت میں بہت کم لوگ غلاظت سے اجتناب کرتے تھے اور بہت ہی گندا لباس رکھتے تھے خصوصًا معمول یہ تھا (جیسا کہ اس آخری زمانہ جاہلیت میں گرفتار شدہ افراد میں بھی یہی معمول ہے)کہ لباس کے دامن کو بہت بڑا کرتے ہیں، اس طرح کہ وہ زمین پر کھنچتا ہے اور آلودہ ہوجاتا ہے ، اور یہ جو بعض روایات میں امام صادق سے نقل ہوا ہے کہ آپ فرمایا : آیت کا مرنی یہ کہ ثیابک فقصر(اپنے لباس کو چھوٹا کر ؎ 2)
یہ نبھی اسی معنی کو بیان کرتا ہے۔
بعض نے اس کی بیویوں کے ساتھ تفسیر کی ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے تم اپنی بیویوں کا لباس ہو اور وہ بھی تمھارا لباس ہیں (کیونکہ تم ایک دوسرے کی آبرو کی حفاظت کرتے ہو اور ایک دوسرے کی زینت ہو۔) (ھن لباس لکم وانتم لباس لھن)(بقرہ آیہ 187)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 "فکبر" میں "فا" بعض کے نظریہ کے مطابق زائدہ ہے اور تاکید کے لیے آیا ہے اور بعض کے نظریہ کے مطابق "شرط" کے معنی کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے اور جملہ کامعنی اس طرح ہے ، چاہے جو واقعہ اور حادثہ آۓ ، خدا کے بڑا ہونے کو نہ بھول جانا(بعد والی آیات کے بارے میں بھی یہی گفتگو ہے)
؎ 2 مجمع البیان جلد 10 ص 385
____________________________________________________________________________
ان معانی کے درمیان جمع کرنا بھی ممکن ہے۔
حقیقت میں آیت کا اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ رہبرانِ الٰہی کی باتیں اس وقت نفوذ کرسکتی ہیں جبکہ ان کا دامن ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو اور ان کا تقوٰی و پرہیزگاری ہر لحاظ سے مسلم ہو، اسی لیے قیام وانزار کے بعد پاکدامنی کو حکم دیتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
تیسرے حکم میں فرماتا:"ناپاکیوں سے اور ان چیزوں سے جو عزاب الٰہی کا موجب ہیں پرہیز کرو"۔(والر جزفاھجر)۔
رجز (پلیدگی) کے مفہوم کی وسعت کے سبب اس کے لیے گوناگوں تفسریں بیان کی گئی ہیں۔
کبھی اس کی بتوں کے ساتھ، کبھی ہر قسم کی معصیت و نافرمانی کے ساتھ، کھبی قبیح و ناپسندیدہ اخلاق کے ساتھ، کبھی محبت دنیا کے ساتھ جو ہر گناہ اور خطا کا سرچشمہ ہے، کبھی عزاب الٰہی کے ساتھ کے جو شرک و معصیت کا نتیجہ ہے اور ہر اس چیز کے معنی میں جو انسان کو خدا سے غافل کردیتی ہے، تفسیر کی ہے۔ نکتہ اصلی یہ ہے کہ "رجز" اصل ،میں اضطراب و تزلزل کے معنی میں ہے۔ ؎1 اور اس کے بعد ہر قسم کے گناہ، شرک، بت پرستی، شیطانی وسوسوں، اخلاق ذمیمہ اور عزاب الٰہی کے لیے ــــــــ جو انسان کے اضطراب کا سبب بنتے ہیں اور اس کو صحیح رستے سے منحرف کردیتے ہیں، اطلاق ہونے لگا،
حالانکہ بعض اس لفظ کامعنی"عزاب" کرتے ہیں۔ ؎2 اور چونکہ شرک و گناہ، برے اخلاق اور دنیا کی محبت عزاب الٰہی کو جلب کرتے ہیں، لہذا ان پر بھی "رجز" کا اطلاق ہونے لگا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ قرآن مجید میں لفظ "رجز" (بروزن شرک) عام طور پر عزاب کے مونی آیا ہے۔ ؎3
بعض یہ نظریہ بھی رکھتے ہیں کہ "رجز" اور "رجس" جو "پلیدگی" کے معنی میں ہیں، دونوں مترادف اور معنی ہیں۔ ؎4
یہ تینوں معانی اگرچہ اپس میں مختلف ہیں، لیکن ہھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ قریبی ارتباط رکھتے ہیں۔ بہرحال ایت ایک جامع مفہوم رکھتی ہے جو ہر طرح کے انحراف، پلید اور قبیح عمل اور ہر اس کام کو جو دنیا و آخرت میں خدا کے غیض و ضضب اور اس کے عزاب کا موجب ہو، شامل ہے۔
مسلمہ طور پر پیغمبر اسلامؐ نبوت سے پہلے بھی ان امور سے پرہیز کرتے تھے اور ان سے دوری رکھتے تھے اور آپ کی زندگی کی تاریخ بھی جس کے دوست ودشمن سب ہی معترف ہیں، اس پر گواہ ہیں، لیکن یہاں دعوت الی اللہ کی راہ میں ایک اساسی اور بنیادی اصل کے عنوان سے بھی اور سب کے لیے ایک نمونہ اور اسوہ کے عنوان سے بھی، اس پرتکیہ ہوا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 "مفردات" راغب
؎ 2 "المیزان" و "فی ظلال القرآن" (زیر بحث آیت کے ذیل میں)
؎ 3 سورہ اعراف کی آیہ 134 ، 135 ۔ اور سبا کی آیہ 5 ، اور جاثیہ کی آیہ 11 اور بقرہ کی آیہ 59 ، اور اعراف کی آیہ 162 ، اور عنکبوت کی آیہ 34 کی طرف رجوع کریں۔
؎ 4 فخررازی کی تفسیر میں یہ معنی ایک احتمال کی صورت میں بیان ہو ہے۔ (جلد 30 ص 193)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
چوتھے حکم میں فرماتا ہے: "احسان نہ جتلاؤ اور زیادتی کا مطالبہ نہ کرو"۔(ولا تمنن تستکثر)۔؎ 1
اس بارے میں کہ احسان جتلانے اور زیادتی طلب کرنے سے نہی کن موارد میں ہے۔ یہاں پرآیت کا مفہوم پھر کلی اور وسیع ہے، اور خالق اور مخلوق اور مخلوق پر ہر قسم کے احسان جتلانے کو شامل ہے، نہ تو پروردگار پر احسان جتلاؤ کہ تم اس کے لیے جہاد اور سعی و کاشش کرتے ہو ، کیونکہ ہی تو اس نے تم پر احسان کیا ہے کہ یہ بلند مقام تمھیں عطا کیا ہے۔
اسی طرح اپنی عبادت ، اطاعت اور نیک اعمال کو زیادہ شمار نہ کرو، بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو "کمی" اور "تقصیر" میں سمجھو اور عبادت کو اپنے لیے ایک قسم کی بہت بڑی توفیق شمار کرو۔
دوسرے لفظوں میں تمھیں اپنے قیام شب و انزار، توحید کی نشر و اشاعت، پروردگار کی عظمت کا بیان کرنے، کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرو، خدا کا ممنون رہنا چاہیے، اس کے عشق و محبت میں اس طرح غرق رہنا چاہیے، کہ تم ان اہم کاموں کو بہت ہی ناچیز سمجھو۔
اور اگر تم مخلوق کی بھی کوئی خدمت کرتے ہو، چاہیے وہ معنوی جہات میں ہو ، جیسے تبلیغ و ہدایت، اور چاہے مادی جہات میں ہو مثلاً انفاق و بخشش، ان میں سے کسی چیز کو بھی احسان جتانے یا تلافی کی توقع سے اور وہ تلافی بھی زیادتی کے ساتھ توام نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ احسان جتلانا نیک اعمال کو باطل اور بے اثر کردیتا ہے۔ (یاایھا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذٰی) (بقرہ ــــــــــ 264)۔
"لا تمنن" "منت" کے مادہ سے، ایسے موارد میں ایسی گفتگو کے معنی میں ہے جو اس نعمت کی اہمیت کو بیان کرے کو انسان نے کسی دوسرے کو دی ہے اور یہاں سے اس کا رابطہ "استکثار" (زئادہ طلب کرنے) کے مسئلہ کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے، کیونکہ اگر انسان اپنی خدمت کو ناچیز اور حقیر سمجھے، تو پھر وہ کسی اجر کی توقع نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ زیادہ کا مطالبہ کرے، اس طرح سے احسان جتلانا ہمیشہ "استکثار" کا سرچشمہ بنتا ہے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو نعمت کی قدر و قیمت کا کلی طور پر ختم کردیا ہے۔
اور یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ آیت کا معنہ یہ ہے کہ : لا تعط رتلتمس اکثر منھا : تو کسی کو کوئی ایسی چیز نہ دے جس سے بیشتر کی توقع رکھتا ہو۔ ؎2 حقیقت میں یہ آیہ شریفہ کے کلی مفہوم کی ایک شاخ کابیان ہے۔
جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے اس آیہ کی تفسیر میں فرمایا :
لا تستکثر ما عملت من خیرللہ
جو نیک کام تم اللہ کے لیے انجام دیتے ہو اسے ہرگز زیادہ نہ سمجھنا۔ ؎ 3 یہ بھی اس مفہوم کلی کی ایک شاخ ہی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 توجہ رکھیے کہ "تستکثر" یہاں حال ہے نہ ہی نہی کو جواب (کیونکہ مرفوع صورت میں آیا ہے) اس بناء پر ایت کا مفہوم اس طرح ہوگا : "احسان نہ جتلاؤ وزحا لیکم تن زیادتی طلب کرتے ہو یا اپنے عمل کو بڑا اور زیادہ سمجھتے ہو۔
؎ 2، 3 نورالثقلین جلد 5 ص 404 ، "تفسیر برہان" جلد 4 ص 400
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعد والی ایت میں اس سلسلہ کے اخری حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہتا ہے : "اور اپنے پروردگار کے لیے صبر و شکیبائی اختیار کر"۔ (ولربک فاصبر) ۔
ہمیں یہاں پر پھر "صبر واستقامت اور شکیبائی کے ایک وسیع مفہوم کا سامنا ہے ، کو ہر چیز کو شامل ہے۔
یعنی اس عظیم رسالت کی ادئیگی کی راہ میں صبر شکیبائی کر، مشرکین اور جاہل و نادان دشمنوں کی تکلیف کے مقابلہ میں صابررہ ، فرمانِ خدا کی اطاعت کی عبودیت میں استقامت دکھا اور نفس سے جہاد اور دشمن کے ساتھ میدان جنگ کے جہاد میں صابرو شکیبارہ۔
مسلمہ طور پر صبر واستقامت تمام گزشتہ پروگراموں کے اجراء کی بنیاد اور ضامن ہئ۔ اصولی طور پر تبلیغ و ہدایت کی راہ میں اہم ترین سرمایہ یہی صبرواستقامت ہے۔ لہذا قران مجید میں باہا اس پر تکیہ ہوا اور اسی وجہ سے امیرالمومنین علیؑ کے ارشادات گرامی میں آیا ہے۔
الصبر من الایمان کالراس من الجسد
"صبرواستقامت کی ایمان کے مقابلہ میں وہی حثیت ہے جو سر کی بدن کے مقبلہ میں"۔ ؎1
اور اسی بناء پر انبیاء اور مردان خدا کا ایک اہم ترین پر پروگرام یہی صبرواستقامت کا پروگرام تھا۔ جتنے زیادہ سخت اور سنگین حادث ان پر پڑتے جاتے تھے اتنا ہی ان کا صبرو استقامت بڑھتا جاتا تھا۔
ایک حدیث میں پیغمبراسلامؐ سے آیا ہے کہ آپ نے صابرین کے اجرا کے سلسلہ میں فرمایا:
قال اللہ تعالٰی : اذا وجھت الٰی عبد من عبیدی مصیبۃ فی بدنہ
او مالہ او ولدہ،ثم استقبل ذالک بصیر جمیل استحییت منہ یوم
القیامۃ ان انصب لہ میزانًا اوالشرلہ دیوانًا
"خداوند تعالٰی فرماتا ہے: جس وقت میں اپنے بندوں میں سے کسی بندے کی طرف اس کے بدن یا مال یا اولاد کے
لیے مصیبت لاتا ہوں اور وہ صبر جمیل کے ساتھ اس کا سامنا کرتا ہے تو مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس کے لیے
قیامت کے دن اعمال تولنے کے لیے میزان نصب کروں یا میں اس کے نامہ عمل کو کھولوں"۔ ؎2
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ااس حکم کے بعد جو قیام و انزار کے سلسلہ میں گزشتہ آیات میں آیا ہے، زیر بحث آیات میں انزار کو ایک بہت ہی تاکیدی اور رابہیان کے ساتھ شروع کرتا ہے اور فرماتا ہے: "جب صور پھونکا جاۓ گا"۔ (فاذا انقر فی النا قور)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"تو وہ ایک دن بہت ہی سخت دن ہوگا"(فذالک یومئذ یوم عسیر)۔ ؎ 2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 نہج البلاغہ ، کلمات قصاء 82
؎ 2 تفسیر "روح المعنی" جلد 29 ص 120
؎ 3 اس جملہ کی ترکیب میں کئی احتمال دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے وہ چیز ہے۔ جو کتاب "البیان فی غریب اعراب القرآن" میں آئی ہے، جہاں وہ کہتا ہے کہ "ذالک" مبتداء ہے اور "یومئذ" بدل ہے اور "یوم عسیر" اس کی خبر ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"وہ بہت ہی پُر مشقت دن ہوگا، جو کافروں کے لیے آسان نہیں ہوگا"(علی الکافرین غیر یسیر)۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ "ناقور" اصل میں مادہ "نقر" سے اس طرح دبانے کے معنی میں ہے، جس سوراخ ہوجاۓ اور "منقار" بھی، جو پرندوں کی چونچ ہے، جس سے پرندے دبا کر سوراخ کرتے ہیں اسی معنی سے لی گئی ہے، اسی بناء پر بگل کو، جس کی آواز گویا انسان کے کان میں سوراخ کرتی ہے اور دماغ میں اتر جاتی ہے "ناقور" کہا جاتا ہے۔
قرآن کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی انتہا اور قیامت کی ابتداء میں دو مرتبہ صور پھونکا جاۓ گا یعنی دوحد سے زیادہ وحشت انگیز اور ہلا دینے والی دینے والی صدائیں ــــــــ جن میں سے پہلی موت کی صدا اور دوسری بیداری اور حیات کی صدا ہوگی ــــــــ پوری دنیا کو گھیرلیں گی۔ جنھیں "نفخہ صورِاول" اور "نفخہ صور دوم" سے تعبیر کیا جاتا ہے اور زیر بحث ایت "نفخہ دوم" کی طرف اشارہ ہے۔ جس سے قیامت برپا ہوجائے گی اور وہ کافروں پر سخت اور سنگین دن ہوگا۔
ہم "صور" اور "نفخہ صور" کے بارے میں تفصیلی بحث سورہ زمر کی آیہ 86 جلد 11 میں کرچکے ہیں۔
بہرحال اوپر والی آیات اس واقعیت کو بیان کرتی ہیں کہ قیامت کے نفخہ میں کافرون کی مشکلات یکے بعد دیگرے نمایاں ہو گے وہ بہت ہی دردناک دن ہوگا اور ایسا مصیبت بارا اور طاقت فرسا ہوگا کہ وہ طاقت ور ترین انسان کے بھی گھٹنے ٹکوادے گا۔