1: عقیدت کے ساتھ عملی آمادگی کی ضرورت
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۲۰
آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائےں گے اور بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاﺅگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے.
چند نکات
عقیدت کے ساتھ علمی آمادگی کی ضرورت
اہم اجتماعی کاموں کو انجام دینے کے لیے ـــــــ خاص طور پر زندگی کے تمام حالات میں ایک وسیع و عریض انقلاب پیدا کرنے کے لیے ـــــــــ ہر چیز سے پہلے ایک انسانی پختہ اور مصمم طاقت کی ضرورت ہے، جو اس کام کے لیے ، راسخ اعتقاد، ممکل آگاہی، ضروری علمی و فکری تعلیمات اور اخلاقی تربیت کے ساتھ بنی ہو۔
اور یہ ایسا دقیق کام تھا جسے پیغمبراسلامؐ نے، مکہ میں بعثت کے ابتدائی سالوں میں، بلکہ اپنی عمر کے سارے عرصہ میں انجام دیا اور اسی بناء پر اور اسی محکم بنیاد کی وجہ سے، اسلام کے پودے نے سرعت کے ساتھ نشوونما پائی، کونپلیں پھوٹیں اور شاخ و برگ نکالے۔
جو کچھ اس سورہ میں آیا ہے ، وہ اس حساب شدہ اور جچے تلے پروگرام کا ایک زندہ اور بہت منہ بولتا نمونہ ہے، دوتہائی رات یا کم ازکم ایک تہائی رات کے عبادت نے ـــــــــــ جو تلاوت اور قرآن مجید کی آیات میں غورو خوض کے ساتھ توام تھی ـــــــــــ مسلمانوں کی روح میں عجیب و غریب تاثیر پیدا کردی اور انھیں "قول ثقیل" اور "سجل طویل" کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کردیا۔ یہ رات کی حرکات اور "شبانہ ناشئات" جو قرآنی تعبیر کے مطابق "اشد و طئًا " اور "اقوم قیلًا" تھیں، آخر کار انھوں نے اپنا کام دکھایا اور محروم عوام اور مستضعف طبقات کا ایک چھوٹا سا گروہ اس طرح کا بن گیا کہ انھوں نے جہان کے ایک عظیم حصہ پر حکومت کرنے کی لیاقت پیدا کرلی۔
اور آج بھی اگر ہم مسلمان چاہیں کہ اپنی دیرینہ عظمت و قدرت کو دوبارہ حاصل کرلیں تو وہ راستہ یہی راستہ ہے اور وہ پروگرام یہی پروگرام ہے ہمیں ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم ایسے افراد کے ساتھ، جو فکر و نظر اور ایمان کے لحاظ سے ضعیف و ناتواں ہیں ، ایسے افراد جنھوں نے ضروری علمی اور اخلاقی تربیت حاصل نہیں کی۔ "یہودیوں" کے تسلط اور غلبہ کو اسلامی ممالک کے اندر سے باہر نکال پھینکیں گے اور جھوٹی جنا پتکار سپر طاقتوں کے ہاتھ کو اسلامی ممالک تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے، لیکن "آنجا کہ کس است یک حرف بس است"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ