جتنا تمھارے لیے ممکن ہے اتنا قرآن پڑھو
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۲۰
آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائےں گے اور بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاﺅگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے.
تفسیر
جتنا تمھارے لیے ممکن ہے اتنا قرآن پڑھو
یہ آیت جو اس سورہ کی طویل ترین آیت ہے بہت سے ایسے مسائل پر مشتمل ہے جو گزشتہ آیات کے مضامین کی تکمیل کرتے ہیں،
اس بارے میں کہ یہ آیت اس سورہ کی ابتدائی آیات کے احکام کی ناسخ ہے، یا یہ ان کی توضیح و تفسیر ہے، اور اسی طرح یہ کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے یا مدینہ میں مفسرین کے درمیان شدید اختلاف ہے۔
ان سوالات کا جواب آیت کی تفسیر کے بعد واضع ہوجاتا ہے۔
پہلے فرماتا ہے : "تیرا پروردگار جانتا ہے کہ تواور ان لوگوں میں سے ایک گروہ جو تیرے ساتھ ہے،تقریبًا رات کی دوتہائی یا آدھی رات یا اس کی ایک تہائی قیام کرتا ہے۔ خدا اس آگاہ کیوں نہ ہوگا، جبکہ رات اور دن کا اندازہ وہی کرتا ہے"۔(اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَىِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهٝ وَثُلُثَهٝ وَطَـآئِفَةٌ مِّنَ الَّـذِيْنَ مَعَكَ ۚ وَاللّـٰهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ)۔ ؎ 1
یہ اسی حکم کی طرف اشارہ ہے، جو سورہ کے آغاز میں پیغمبر کو دیا گیا ہے صرف ایک چیز جس کا یہاں اضافہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس عبادت شبانہ میں مومنین کا ایک گروہ بھی پیغمبر کے ہمراہ ہوتا تھا (ایک استجابی حکم کے عنوان سے یا احتمالًا ایک وجوبی حکم کی بناء پر، کیونکہ آغازِاسلام کے حالات کا تقاضا ہی یہ تھا کہ وہ تلاوتِ قران کے ذریعہ، جو انواع و اقسام کے اعتقادی، عملی اور اخلاقی درسوں پر مشتلم ہے، اور اسی طرح عباداتِ شبانہ کے ذریعہ اپنی تربیت اور اصلاح کریں، اور اسلام کی تبلیغ اور اس کے دفاع کے لیے خود کو آمادہ اور تیار کریں)
لیکن جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، بہت سے مسلمان ایک تہائی ، آدھی رات اور دوتہائی رات کا حساب رکھنے میں مشکل اور دوسری میں گرفتار ہوجاتے ہیں (اور اس وجہ سے کبھی تو وہ ساری رات بیدار رہتے تھےاور عبادت میں مشغول رہتے تھے، یہاں تک کہ ان کے پاؤں عبادتِ شبانہ میں ورم کرجاتے ہیں۔ )
لہذا خدا نے ان پر اس حکم میں تخفیف کر دی اور فرمایا : "وہ جانتا ہے کہ تم مزکورہ مقدارکا پورے طور اندازہ نہیں لگا سکتے، اس بناء پر اس نے تمھیں بخش دیا،لہذا اب قرآن میں سے جتنی مقدار تمھارے لیے میسر اور آسان ہواتنی تلاوت کرو"۔(ۚ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ "نصفۃ" اور "ثلثہ" کا عطف "ادنٰی" پر ہے نہ کہ "ثلثی اللیل" پر اس بناء پر اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ تقیباً رات کی دوتہائی یا ٹھیک آدھی رات کی مقدار یا ایک تہائی رات، ضمنی طور پر توجہ کرنی چاہیے کہ لفظ "ادنٰی" عام طور پر نزدیک مکان کے لیے بولا جاتا پے، لیکن یہاں قریبی زمانہ کی طرف اشارہ ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"لن تحصوہ" "احصاء" کے مادہ سے شمار کرنے کے معنی میں ہے، یعنی تم پورے طور پر وقت کے ساتھ رات کا وقت دوتہائی، آدھی رات اور ایک تہائی کی مقدار کے لحاظ سے تعین نہیں کرسکتے اور زحمت میں پڑجاتے ہو۔
بعض نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اس کام پر سال کے سارے دنوں میں مداومت نہیں کرسکتے۔
یہاں تک کہ موجودہ زمانہ میں بھی جب کہ کئی وسائل کے ذریعہ موقع پر نیند سے بیدار ہوسکتے ہیں۔ سارے سال میں ان مقداروں کی وقت کے ساتھ تعین ــــــــــــ خصوصًا رات اور دن میں مسلسل فرق پڑتے رہنے کے ساتھ ــــــــ کئی آسان کام نہیں۔
"تاب علیکم" کے جملہ کو اکثر مفسرین نے "اس تکلیف اور زمہ داری کی تخفیف" کے معنی میں بیان کیا ہے ، نہ کہ "گناہ سے توبہ" کے معنی میں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ جب وجوب کا حکم اٹھ جاۓ تو ہھر کئی گناہ نہیں ہوتا ہے اور نتیجہ میں خدا کی بخشش کے مانند ہوگا۔
اس بارے میں کہ "فاقراءواما تیسر من القراٰن" جو کچھ قرآن میں سے تمھارے لیے میسر، پڑھو" کے جملہ سے کیا مراد ہے؟ بہت زیادہ اختلاف ۔ ایک جماعت نے اس کی نماز تہجد سے تفسیر کی ہے، کیونکہ اس میں حتمی طور پر قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد وہی تلاوت قرآن ہے، چاہے وہ نماز کے اندر نہ ہو، اس کے بعد بعض نے اس کی مقدار پچاس آیات، بعض نے سو آیات اور بعض نے دوسو آیات کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔ لیکن ان میں سے کسی بھی تعداد کے لیے کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جتنی مقدار سے انسان زحمت و تکلیف میں پڑے اتنا قرآن پڑھے۔
یہ بات واضح ہے کہ "تلاوتِ قرآن" سے مراد یہاں وہ تلاوت ہے، جو درس و خود سازی اور ایمان و تقوٰی کی پرورش میں تعلیم عنوان سے ہو۔
اس کے بعد اس تخفیف کے لیے ایک دلیل کے بیان کو پیش کرتے ہوۓ مزید کہتا ہے : "خدا جانتا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ بیمار بھی ہوں گے اور دوسرا گروہ تحصیل معاش اور راہِ خدا میں جہاد کرےگا۔ یہ امور اس چیز سے مانع ہوں گے کہ رات کی عبادت کو اس حساب اور نصاب کو پہلے متعین ہوا ہے، ہمیشہ کے لیے انجام دیتےرہیں"۔(عَلِمَ اَنْ سَيَكُـوْنُ مِنْكُم مَّرْضٰى ۙ وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِى الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّـٰهِ ۙ وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ)۔
اور یہی چیز اس پروگرام میں تخفیف کا ایک سبب ہے لہذا دوبارہ تکرار کرتا ہے : "اب جبکہ ایسا ہے تو جس قدر تمھارے لیے ممکن ہے اور جتنی تم میں طاقت ہے بس اتنا رات کو قرآن تلاوت کرو"۔(فا اقرء واما تیسرمنہ)۔
یہ بات واضح ہے کہ بیماری اور ضروری سفروں اور اللہ کی راہ میں جہاد کا ذکر ، نمایاں عزروں کی تین مثالوں میں سے ہے۔ لیکن انھیں تک منحصر نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ چونکہ خدا جانتا ہے کہ تم دن میں زندگی کے مختلف مشکلات میں گرفتار ہوگئے اور یہ چیز اس سنگین پرگرام کو دائمی رکھنے میں مانع ہے۔ لہذا اس نے تمھارے لیے اس میں تخفیف کردی ہے۔
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا یہ حکم ، اس چیز کو، جو سورہ کے آغاز میں آئی ہے، منسوخ کرتا ہے؟ یا اس کے لیے استثنائی صورت میں ہے؟ آیات کا ظاہر حکم سابق کے نسخ کو بتاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ضروری تھی کہ یہ پروگرام ایک مدت رہے، اور وہ جاری رہا، اور اس حکم کا مقصد ، جو ایک موقت اور فوق العادہ پہلو رکھتا تھا وہ حاصل ہوگیا اور اس مدت کے ختم ہونے کے بعد ، تخفیف کی صورت میں باقی رہ گیا، کیونکہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ معذور افراد کے موجود ہونے کی وجہ سے، اس حکم کی سب کے لیے تخفیف ہوگئی، نہ کہ صرف معذرو لوگوں کے لیے، اس طرح سے یہ استنثناء نہیں ہوسکتی، بلکہ اسے نسخ ہونا چاہیے (غور کیجیے)
یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے کہ : کیا قرآن میں سے ممکن مقدار کی تلاوت، جس کا اس آیت میں دو مرتبہ امر ہوا ہے، واجب ہے ، یا مستحب ہے؟
بعض نے تو یہ کہا ہے کہ یہ یقینی طور پر مستحب ہے اور بعض نے وجوب کا احتمال دیا ہے، کیونکہ قرآن کی تلاوت، توحید کے دلائل ، ارسال رسل اور اس آسمانی کتاب کے اعجاز سے آگاہی اور باقی واجبات دین کی تعلیم حاصل کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ اس بناء پر تلاوتِ قرآن مقدمہ واجب ہے لہذا یہ واجب ہوگیا۔
لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ اس صورت میں ضروری نہیں ہے کہ قرآن کو رات کوہی پڑھے، یا نماز تہجد کے درمیان پڑھے۔ بلکہ ہر مکلف (بالغ و عاقل) پر واجب ہے کہ بمقدار لازم، تعلیم و تربیت اور اصول و فروغ اسلام سے آگاہی کے لیے، اور اسی طرح قرآن کو محفوظ رکھنے اور اسے انے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے، تلاوت کرے، بغیر اس کے کہ کوئی خاص وقت اور زمانہ اس میں پیش نظر ہو۔
لیکن حق بات یہ کہ "فاقرء وا ......." کے جملہ میں ظاہر امروجوب ہے (جیسا کہ اصول فقہ میں بیان ہوا ہے)۔ مگر یہ کہ کہا جاۓ کہ یہ "امر" عدم وجوب پر فقہاء کے اجماع کی بناء پر ایک امر استجابی ہے اور اس کا نتیہج یہ ہوگا کہ آغاز اسلام میں تو حالات و شرائط کی بناء پر یہ تلاوت اور شبانہ عبادت واجب تھی اور بعد میں مقدار کے لحاظ سے بھی اور حکم کے لحاظ سے بھی اس میں تخفیف کردی گئی ہے اور اس نے ایک استجابی حکم کی صورت اختیار کرلی ہے اور وہ بھی اتنا جتنا کہ آسانی سے ہوسکے، لیکن بہرحال پیغمبر اسلام پر نماز تہجد کو وجوب آخر عمر تک ثابت رہا ۔ (تمام آیات قرآن اور روایات کے قرینہ سے)۔
"دوتہائی رات یا آدھی رات یا ایک تہائی رات سے مربوط حکم منسوخ ہوگیا ہے، اور اس کی جگہ
فاقرء واما تیسر من القراٰن" قرار پایا ہے۔ ؎ 1
قابل توجہ بات یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں تین قسم کے عذر بیان کیے گئے ہیں ۔ جن میں سے ایک تو جسمانی پہلو رکھتاہے (بیماری) اور دوسرا مالی پہلو رکھتا ہے (معاش کے لیے مسافرت) اور تیسرا دینی جنبہ رکھتا ہے(راہِ خدا میں جہاد) لہذا بعض نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاش کی تلاش اور اس کت لیے کوشش کرنا، جہاد فی سبیل اللہ کے ہم ردیف ہے۔
اور اس جملہ کو اس بات کی دلیل سمجھا ہے کہ خاص یہ آیت ندینہ میں نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ مکہ میں جہاد کا وجوب نہیں تھ، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوۓ کہ وہ فرماتا ہے : سیکون : (عنقریب ہوگا)۔ ممکن ہے یہ جملہ آئندہ زمانہ میں تشریح جہاد کی خبر ہو یعنی چونکہ کچھ عزر تو تم زمانہ حال میں رکھتے ہو اور کچھ اور عزر آیندہ تمھارے لیے پیدا ہوگا۔اس لیے یہ حکم دائمی صرت میں مہیں آیا اور اس صورت میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 تفسیر نورالثقلین جلد 5 ص 451
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آیت کے مکی ہونے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتا۔
اس بعد اس آیت کے آخر میں چار اور احکام کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود سازی کا جو پروگرام پیش کیا گیا ےھا، اس کی اس چیز کے ذریعہ تکمیل کرتا ہے فرماتا ہے : "نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو،اور مستحب انفاق کرنے سے خدا کو قرضِ حسنہ دو، اور (یہ جان لو) کہ جو کارہاۓ خیر تم اپنے لیے آگے بھیجتے ہو، تم اس کا خدا ہاں بہترین صورت میں عظیم ترین اجر پاؤگے"۔
(وَاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ وَاَقْرِضُوا اللّـٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْـرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّـٰهِ هُوَ خَيْـرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا )۔
"اوراستغفار کرو خدا سے بخشش طلب کرو کہ خدا غفورورحیم ہے "۔
(وَاسْتَغْفِرُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ )۔
یہ چاروں حکم (نماز، زکوٰت، مستحب انفاق اور استغفار) تلاوت کے حکم اور قران میں تدبر کے ضمیمہ کے ساتھ ــــــ جو ماقبل کے جملوں میں بیان ہوا تھا ـــــــ مجموعی طور پر خود سازی کا ایک مکمل پروگرام پیش کرتے ہیں، جو ہر عصر اورزمانہ میں خصوصًا آغازِ اسلام میں ناقابل انکار تاثیر رکھتا تھا اور رکھتا ہے۔
یہاں "نماز" سے مراد پنجگانہ نمازیں ہیں اور "زکوٰۃ" سے مراد زکوٰۃ واجب ہے اور "قرضِ حسنہ" دینے سے مراد وہی مستحب انفاق اور خرچ ہیں، اور یہ انتہائی بزرگوارانہ تعبیر ہے جس کا اس سلسلہ میں تصور کیا جاسکتا ہے، کیونکہ تمام ملکیتوں کا مالک اس شخص سے قرض مانگ رہا ہے، جس کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے، تاکہ اس طریقہ سے انفاق و ایثار اور اس عملِ خیر کے ذریعہ کسبِ فضیلت کا شوق بڑھے اور اس طریقہ سے اس کی تربیت ہو اور وہ تکامل وار تقاء حاصل کرے۔
ان احکام کے اخر میں استغفار کا ذکر ممکن ہے کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان اطاعتوں کی انجام دہی کی وجہ سے خود کو انسان کامل سمجھ بیٹھو ، اور اصطلاح کے مطابق خود کو طلب گار تصور کرنے لگو، بلکہ تمھیں ہمیشہ اپنے آپ کو مقصر شمار کرنا چاہیے اور بارگاہِ خدا میں عزرو معزرت کرتے رہنا چاہیے، ورنہ جو کچھ اس کی خداوندی کے لائق اور سزاوار ہے وہ کوئی شخص بھی بجا نہیں لاسکتا۔
بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ ان حکام پر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ تصور نہ کرلیا جاۓ کہ اگر شبانہ قیام اور تلاوتِ قرآن میں تحفیف کر دی گئی تو باقی پروگراموں اوردینی احکام میں بھی اثر انداز ہوگی، بلکہ وہ اسی طرح اپنی حالت پر باقی ہیں ۔ ؎ 1
ضمنی طور پر زکوٰۃ واجب کے ذکر کو یہاں اس آیت کے مدنی ہونے کی ایک اور دلیل قرار دیتے ہیں ، کیونکہ زکوٰۃ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا تھا نہ کہ مکہ میں۔ لیکن بعض نے کہا ہے، اصل حکمِ زکوٰۃ مکہ میں ہی نازل ہوا تھا لیکبن اس کا نصا﷽ اور اس کی مقدار بیان نہیں ہوۓ تھے، وہ چیز جو مدینہ میں تشریع ہوئی وہ زکوٰۃ کے نصاب اور مقدر کا مسئلہ تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 تفسیر المیزان ، جلد 20 ص 156
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ