ان مستکبرین کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دے
وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا ۱۱إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا ۱۲وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا ۱۳يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا ۱۴إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا ۱۵فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا ۱۶فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا ۱۷السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ ۚ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا ۱۸إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ۱۹
اور ہمیں اور ان دولت مند جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیں. ہمارے پاس ان کے لئے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے. اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے. جس دن زمین اور پہاڑ لرزہ میں آجائیں گے اور پہاڑ ریت کا ایک ٹیلہ بن جائیں گے. بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بناکر ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا. تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا. پھر تم بھی کفر اختیار کرو گے تو اس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا. جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہونے والا ہے. یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے.
تفسیر
ان مستکبرین کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دے
گزشتہ آیات میں سے آخری آیت میں دشمنانَ اسلام کی کار شکنیوں، نارواباتوں اور اذیت و آزار کی طرف اشارہ تھا۔ زیرِ بحث آیات میں انھیں خدا کی طرف سے، دنیا و آخرت کے عذابوں کی شدید تہدیدیں اور دھمکیاں دی گئی ہیں اور انھیں اپنے شوم و منحوس پروگراموں میں تجدید نظر کی دعوت دی ہے اور صدر اول کے مسلمانوں کی ان دشمنوں کے سخت ہجوم کے مقابلہ میں دلداری کی ہے اور انھیں پامردی بخشی ہے۔
پہلے فرماتا ہے:"مجھے ان تکذیبکرنے والے،ثروت مند اور صاحبانِ نعمت افراد کے ساتھ ( بدلہ لینے کے لیے) چھوڑ دے اور انھیں تھوڑی سی مہلت دےدے"(وَذَرْنِىْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِى النَّعْمَةِ وَمَهِّلْـهُـمْ قَلِيْلًا)۔
یعنی اس کا مدمقابل تو نہیں ہے، میں ہوں! ان کی سزا و عذاب کا موملہ خود مجھ پر چھوڑ دے، اور تھوڑی سی انھیں مہلت دےدے، تاہم اتمام حجت بھی ہوجاۓ اور وہ اپنی ماہیت کو ظاہر ع آشکار ابھی کردیں، اور اپنی پشت کو بارِ گناہ سے سنگین اور بوجھل کرلیں، تو اس وقت میرا عذاب ان کا گلہ دبالے گا۔
اور ہم جانتے ہیں کہ تھوڑی مدت ہی گزری تھی کہ مسلمان طاقتور ہوگئے اور انھوں نے جنگ "بدر" و "حنین" و "احزاب" وغیرہ میں اپنی سخت اور توڑنے والی ضربیں دشمن کے پیکر پر لگائیں ، نیز زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ سر کشی کرنے والے دنیا سے چلتے بنے اور برزخ میں عذاب الٰہی میں گرفتار ہوۓ اور قیامت کا عذاب بھی ان سے کچھ دور نہیں ہے۔
ضمنی طور پر "اولی النعمۃ" (صاحبانِ نعمت) کی تعبیر مال و دولت اور مادی امکانات و وسائل کی زیادتی سے ہیدا ہونے والے غرور و غفلت کی طرف اشارہ ہے، جو ایسے لوگوں کو اکثر دامن گیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی طول تاریخ میں ــــــــ جیسا کہ قرآن شاہد و گواہ ہے ــــــــــ یہ گروہ ہمیشہ مخالفین کی صف اول میں رہا ہے۔
حقیقت میں یہ آیت سورہ سبا کی آیت 34 کے مشابہ ہے، جو کہتی ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا فِىْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْـرٍ اِلَّا قَالَ مُتْـرَفُوْهَآ اِنَّـا بِمَآ اُرْسِلْتُـمْ بِهٖ كَافِرُوْنَ : "ہم نے کسی شہر و دیار میں کوئی انزار کرنے والا نہیں بھیجا، مگر یہ کہ ان کے کے مترفین (جو ناز و نعمت میں مست تھے) نے کہا : تم جس چیز کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم اس سے کافر ہیں، انکار کرتے ہیں"
حالانکہ اس قسم کے افراد کو دوسروں سے پہلے منادیانِ حق کی دعوت پر لبیک کہنا چاہیے ، تاکہ اس طریقہ سے ان سب خدائی نعمتوں کا شکر بجالائیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد اسی تہدید کو جاری رکھتے ہوۓ اور ذیادہ صریح صورت میں کہتا ہے : "ہمارے پاس نمل و زنجیر اورجہنم کی آگ ہے"۔(اِنَّ لَـدَيْنَآ اَنْكَالًا وَّجَحِـيْمًا)۔
"انکال" "نکل" (بروزن فکر) کی جمع ہے اور بوجھل زنجیروں کے معنی ہے اور اصل میں "تکول" کے مادہ سے ، ضعف و ناتوانی کے معنی میں لیا گیا ہے اور چونکہ وہ زنجیر جو ہاتھ پاؤں اور گردن میں ڈالتے ہیں ، انسان کو حرکت کرنے سے روک دیتی ہے ، اور نوتواں بنا دیتی ہے، اس لیے یہ لفظ "زنجیر" کے معنی میں استعمال ہوا ہے، ہاں! بے قید و شرط آزادی اور اس ناو نعمت کے مقابلہ میں جو اس دنیا میں رکھتے تھے، وہاں ان کا حصہ قید اور آگ ہوگی۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے :"اور گلوگیر ہونے والی غذا اور درد ناک عذاب ہے"۔(وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّّعَذَابًا اَلِيْمًا)۔
وہ غذا، ان کی دنیا کی چرب و شیریں غذاؤں سے ــــــــــــ جو آسانی کے ساتھ گلے سے نیچے اتر جاتی تھیں اور مزےدار ہوتی تھیں ـــــــــــبرعکس ہوگی اور اس جہان کے خود غرض، مغروروں اور مستکبرین کی بے حساب آسائش کے مقابل میں درد ناک زندگی ہوگی
اگرچہ سخت اور گلوگیر غذا خود ایک دردناک عذاب ہے لیکن اس کے عذابِ الیم کو الگ ذکر کرتا ہے اور یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے آخرت کے عذابِ الیم کے ابعاد جہات اور مختلف پہلو ، شدت و عظمت کے لحاظ سے خدا کے علاوہ کسی اور شخص معلوم نہیں اسی لیے ایک حدیث میں آیاہے کہ ایک دن ایک مسلمان اس آیت کی تالاوت کر رہا تھا، اور پیغمبر کان دھر کر سن رہے تھے کہ اچانک اس شخص نے چیخ ماری اور بےہوش ہوگیا ہے۔ ؎ 1
ایک اور حدیث میں یہ آیا ہے کہ خود پیغمبر اس آیت کی تلاوت کررہے تھے اور آپ کی ایسی حالت ہوئی ۔ ؎2
یہ غذا گلوگیر کیوں نہ ہو گی؟ جبکہ سورہ غاشیہ کی آیہ 6 میں آیا ہے : لیس لھم طعام الا من ضریع،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 "مجمع البیان" ، جلد 10 ص 380
؎ 2 "روح المعانی" جلد 29 ص 107
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"ان کی غذا جانگداز کانٹوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی"۔
اور سورہ دخان کی آیہ 43، 44 میں آیا ہے : ان شجرت الزقوم طعام الاثیم : "زقوم کا درخت (وہی تلخ ، بدبو دار بد ذائقہ ، کڑوا اور مار ڈالنے والا پودا) گنہ گاروں کی غذا ہے۔"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد اس دن کی تشریح کرتے ہوۓ جس میں یہ عذاب ظاہر ہوں گے ، فرماتا ہے : "اس دن ہوگا جس دن زمین اورپہاڑشدت سےلرزنےلگیں گےاورپہاڑاس طرح ریزہ ریزہ ہوں گےکہ ریت کےتودوں کی طرح نرم ہوجائیں گے۔"(يَوْمَ تَـرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا)۔
"کثیب" تہ بہ تہہ پڑی ہوئی ریت (ٹیلہ) کے معنی میں ہے اور "مھیل" ھیل (بروزن کیل) کے مادہ سے ، ریت اور آٹے جیسی کسی نرم چیز کو دوسری چیز پر ڈالنا، یہاں وہ نرم ریت مراد ہے جسے کبھی قرار نہیں ہوتا۔
اس معنی کے بناء پر قیامت میں اس طرح سے بکھر جائیں گے کہ ایسی نرم ریت کی صورت اختیار کرلیں گے کہ اگر اس پاؤں رکھیں گے تو اس میں دھنس جائیں گے۔
قیامت کے دن کے لیے قرآن نے پہاڑوں کی قسمت کے بارے میں مختلف تعبیریں بیان کی ہیں جو سب کی سب ان کی نابودی اور ان کے نرم خاک میں تبدیل ہوجانے کی حکایت کرتی ہیں (پہاڑوں کی نابودوں کے مختلف مراحل کی مزید تشریح اور اس سلسلے میں قرآن کی مختلف تعبیریں سورہ طٰہ کی آیہ 105 کے ذیل میں آئی ہیں)۔
اس کے بعد پیغمبر ؐ کی بعثت اور منہ زور عربوں کی مخالفت کا موسٰی بن فرعون کے مقابلہ میں قیام سے موازنہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: "ہم نے تمھاری طرف ایساہی ایک پیغمبر بھیجا ہے جو تم پر گواہ ہے، جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا"۔(اِنَّـآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا)۔
اس کا ہدف و مقصد تمھاری ہدایت اور تمھارے اعمال پر نظر رکھنا ہے، جیسا کہ موسٰی بن عمران کا ہدف فرعون اور فرعونیوں کی ہدایت اور ان کے اعمال پر نظر رکھتا تھا۔
"لیکن فرعون اس رسول کی مخالفت کے لیے کھڑا ہوگیا تو ہم نے بھی اسے شدید عذاب اور سزا میں گرفتار کردیا"۔(فَـعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنَاهُ اَخْذًا وَّبِيْلًا)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
نہ تو اس کا عظیم لشکر ہی اسے خدا کے عذاب سے بچا سکا اور نہ ہی مملکت کی وسعت اور حکومت کی قدرت اور ان کے دولت مند اس کام کو روک سکے، اور آخر کار وہ سب کے سب نیل کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجوں میں ــــــــــ جن پر وہ فخر کیا کرتے تھے ـــــــ غرق ہوگئے، تا تمجو ان سے بہت ہی پست سطح پر ہوا اور تعداد اور تیاری کے لحاظ سے فرعون اور فرعونیوں سے درجے زیادہ ضعیف ہو ، اپنے بارے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 تفسیر نمونہ جلد7
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا سوچتے ہو ؟ اوراس مختصر سے مال اور افراد پر کس طرح سے مغرور ہوتے ہو؟
"وبیل" "وبل" کے مادہ سے اصل میں شدید اور سنگین بارش کے معنی میں ہے اور اس کے بعد ہر شدید س سنگین چیز پر اس کااطلاق ہوا ہے۔ خصوصًا عذاب کے بارے میں اور زیر بحث آیت میں بھی شدتِ عذاب کی طرف ہی اشارہ ہے، گویا لوگوں کو شدید بارش کی طرح اپنے طوفان اور بارش میں قرار دیتا ہے۔
اس کے بعد پیغمبراسلامؐ کے زمانہ کے کفار کی طرف روۓ سخن کرتے ہوۓ، انھیں اسطرح خبردار کرتا ہے : "اگرتم کافرہوگئے، تواپنےآپ خدا کے شدید عذاب سے کس طرح بچا سکوگے،وہ دن ایساجوبچوں کابوڑھا کردےگا"۔(فَكَـيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُـمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْـدَانَ شِيْبًا)۔ ؎ 271
ہاں! اس دن کا عذاب اتنا زیادہ سنگین ، شدید، ہولناک اور کمرشکن ہے، جو بچوں کو بوڑھا کردے گا، اور اس کی شدت سے کنایہ ہے۔
آخرت کا عذاب تو اتنا آسان ہے، بعض نقل کرتے ہیں کہ اسی دنیا میں بعض اوقات جب انسان حد سے زیادہ شدید سختی اور تنگی سے گزرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلدی اس کے بال سفید ہوگئے ہیں۔
بہرحال اوپر والی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بالفرض اگر تم اس جہاں میں فرعونیوں کی طرح نابود کرنے والے عذاب میں گرفتار نہ بھی ہوئے۔ تب بھی قیامت اور قیامت کے عذاب کا ذکر کیا کرو گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعض والی آیت میں اس وحشتناک دن کے بارے میں مزید حال بیان کرتے ہوۓ کہتا ہے:"اس دن آسمانی کُرے پھٹ جائیںگے اورخدا کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا"۔(اَلسَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِهٖ ۚ كَانَ وَعْدُهٝ مَفْعُوْلًا )۔
قیامت اور "اشراط السعۃ" کی بہت سی آیات (وہ واقعات جو اس جہان کے اختتام اور قیامت کے آغاز میں ، صورت پزیر ہوں گے) عظیم انفجارات ، شدید زلزلوں اور سریع تبدیلیوں کاحال بیان کرتی ہیں جبکہ زیر بحث آیت انکے صرف ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جب آسمان اور آسمانی کُرے، اس عظمت کے باوجود اس دن کے عظیم حوادث کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے تو اس ضعیف و ناتواں انسان سے کیا ہوسکتا ہے۔ ؎ 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 "یومًا" تتقون کا مفعول ہے ، اور اس دن سے بچنے کع معنی ، اس دن کے عذاب سے بچنا ہے، بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ "تتقون" کا ظرف یا "کفرتم" کا مفعول ہے ، لیکن یہ دونوں بعید نظر آتے ہیں۔
؎ 2 "شیب" (بروزن سیب) "اشیب" کی جمع ہے جو "بوڑھے" کے معنی میں ہے اور اصل میں شیب (بروزن عیب) کے مادہ سے لیا گیا ہے اور شیب بالوں کے سفید ہونے کے معنی میں ہے
؎ 3 "منفطر" "انفطار" کے مادہ سے انشققاق اور پھٹ جانے کے معنی میں ہے اور "بہ" کی ضمیر یوم کی طرف لوٹتی ہے، یعنی آسمان اس دن کی وجہ سے پھٹ جاۓ گا (توجہ رہے کہ سماء مزکر کی صورت میں بھی اور مؤنث مجازی کی صورت میں بھی استعمال ہوتا ہے)۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس بحث کے آخر میں تمام گزشتہ تنبیہوں اور اندازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرماتا ہے : "جو کچھ بیان کیا گیا پے، یہ نصیحت اور یاد دلانے کے لیے ہے"۔ (اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِـرَةٌ)۔
تم راستہ کا انتخاب کرنے میں آزاد ہو: " اورجو شخص چاہے کہ اس کی ہدایت ہو اور وہ سعادتِ ابدی کا طالب ہو تو وہ اپنے پروردگار کی طرف راستہ انتخاب کرلیتا ہے"۔(فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا)۔
اگر اس راستہ کو طے کرنا جبرواکراہ کے ذریعہ ہو تو وہ نہ کوئی افتخار کی بات ہے اور نہ ہی فضیلت کی ، فضیلت کی بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے اس راستہ کا انتخاب کرے اور پھر اس طے کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ خدا نے راہ اور جاہ کی نشاندہی کردی ہے اور دیکھنے والی آنکھ اور روشنی بخشنے والا سورج اختیار میں دے دیا ہے اور لوگوں کو یہ صلاحیت بخش دی ہے کہ وہ اس کے فرمان کی اطاعت میں ارادہ و اختیار کے ساتھ عمل کریں۔
اس بارے میں کہ "ان ھٰذا تذکرۃ" (یہ نصیحت اور یاد آوری ہے) کا جملہ کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟ مفسرین نے کئی اھتمال دیئے ہیں : کبھی تو انھوں نے یہ کہا ہے کہ یہ ان مواعظ کی طرف اشارہ ہے جو گزشتہ آیات میں آۓ ہیں اور کبھی یہ کہا گیا کہ یہ پوری سورت کی طرف اشارہ ہے یا قرآن کی طرف اشارہ ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ حکم نامز اور رات کی عبادت کی طرف اشارہ ہو جو اس سورعہ کی پہلی آیات میں آۓ ہیں ، اور اس میں مخاطب پیغمبر تھے ، یہ جملہ چاہتا ہے کہ اسے باقی مسلمانوں کے لیے وسعت دے کر عام کردے، اس بناء پر بعد والے جملے میں بھی "سبیل" (راستہ) سے مراد نمازِ تہجد ہی ہے، جو پروردگار کی طرف اہم راستوں میں سے ہے، جیسا کہ سورہ دہر کی آیہ 26 میں رات کی عبادت کا حکم دینے کے بعد (وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَـهٝ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا)مختصر سے فاصلہ کے بعد فرماتا ہے (اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِـرَةٌ ۖ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا) جو بالکل وہی زیرِ بحث آیت ہے ۔ ؎1
یقینًا یہ ایک مناسب تفسیر ہے لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ آیت کا مفہوم وسیع ہو اور اس سورہ میں جتنے انسان ساز پروگرام میں تمام کو احاطہ کیے ہوئے ہو، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
؎ 1 تفسیر المیزان جلد 20 ص 147