٢توبہ رحمتِ خدا کا ایک دروازہ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۶يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۷يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۸
ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تندوتیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں. اور اے کفر اختیار کرنے والو آج کوئی عذر پیش نہ کرو کہ آج تمہیں تمہارے اعمال کی سزا دی جائے گی. ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو عنقریب تمہارا پروردگار تمہاری برائیوں کو مٹا دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اس دن خدا اپنے نبی اور صاحبانِ ایمان کو رسوا نہیں ہونے دے گا ان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہوگا اور وہ کہیں گے کہ خدایا ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کردے اور ہمیں بخش دے کہ تو یقینا ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے.
اکثر ایساہوتاہے کہ انسان سے ، خصوصاً تربیّت اورسیر وسلوک الی اللہ کی ابتداء میں ، بہت سی لغزشیں ہوجاتی ہیں ، اب اگراس کے سامنے توبہ اور بازگشت کے دروازے بندکردیئے جائیں تووہ مایوس ہوجائے گا اورہمیشہ کے لیے سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا اس لیے اسلام کے مکتب ِ تر بیّتی میں توبہ کو ایک تر بیّتی اصل کے عنوان کے طورپر حد سے زیادہ اہمیّت کے ساتھ پیش کیاگیاہے اوروہ تمام گنہگا روں کودعوت دیتاہے کہ اپنی اصلاح اور گزشتہ کوتا ہیوں کی تلافی کے لیے اس در وازے سے وارد ہوں ۔
امام علی علیہ السلام بن الحسین بارگاہِ خدا وندای میں تا ئبین کی مناجات میں اِس طرح سے عرض کرتے ہیں :
الھٰیانت الذی فتحت لعبادک باباً الیٰ عفوک سمیتہ التوبة ، فقلت توبو الی اللہ توبة نصوحاً ،فما عذر من اغفل دخول الباب بعد فتحہ ۔
اے میرے اللہ توہی توہے کہ جس نے اپنی عفوو بخشش کی طرف اپنے بندوں کے سامنے ایک دروازہ کھولاہے کہ جس کانام تونے توبہ رکھاہے .تونے فرمایاہے کہ خداکی طرف لوٹو ، اور توبہ کرلو ، خالص توبہ ، اب ان لوگوں کاعذر کیاہے جوان دروازہ کے کُھلنے کے بعداس دروازے سے داخل ہونے سے غافل ہوجائیں (۱) ۔
ایک حدیث میں امام باقرعلیہ السلام سے آ یاہے :
ان اللہ تعالیٰ اشد فرحاً بتوبة عبدہ من رجل اضل راحلتہ وز ادہ فی لیلة ظلماء ، فوجدھا۔
خدا وندتعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتاہے جتنا کہ وہ شخص خوش ہوتاہے جس نے ایک رات میں اپنی سواری اور زادِگُم کردیاہو ، اورپھر اسے پا لیاہو ( ۲) ۔
عظمت اوربزر گوار ی رکھنے والی یہ سب تعبیریں زندگی کے اس اہم امر کی حیاتی تشویق کے لیے ہیں ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیئے کہ توبہ صرف لقلقہ ٔ لسّانی اور زبان سے استغفراللہ کہنے کانا م نہیں ہے بلکہ اس کی کچھ شرائط اور ارکان ہیں کہ جن کی طرف اوپروالی آ یات میں توبۂ نصُوح کی تفسیر میں اشارہ ہُو ا ہے .جب توبہ ان شرائط کے ساتھ انجام پاتی ہے توہو اس طرح اثر کرتی ہے .کہ وہ انسان کی رُوح اورجان سے گناہ اور آثاراِگناہ کو کلّی طورپر محو کردیتی ہے ، اسی لیے ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے آ یاہے :
التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، والمقیم علی الذنب وھو مستغر منہ کا لمستھز ء ا ۔
جوشخص گناہ سے توبہ کرلے وہ اس شخص کی مانند ہے جِس نے بالکل کوئی گناہ نہیں کیا، جو شخص اپنے گناہ پر بر قرار رہے اوراستغفار بھی کرتا رہے ، تووہ اس شخص کی مانند ہے جومذاق اُٹاتا اورتمسخر کرتاہو (3) ۔
ہم توبہ کے بارے میں دُوسرے تفصیلی مباحث ( تیسری جلدمیں)سورة نساء کی آ یت ١٧ کے ذیل میں اور (جلد ١٩ میں ) سورة زمر کی آ یت ٥٣ کے ذیل میں پیش کرچکے ہیں ۔
۱۔پندرہ مناجاتوں میں سے پہلی مناجات ، بحارالانوار ،جلد٩٤ ،صفحہ ١٤٢۔
۲۔اُصول کافی ، جلد ٢ باب التوبہ ،حدیث ٨۔
3۔اُصول کافی ، جلد ٢ باب التوبہ ،حدیث ١٠۔