٢صالح المؤ منین سے کون مراد ہے ؟
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۱قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۲وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ۳إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ۴عَسَىٰ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا ۵
پیغمبر آپ اس شے کو کیوں ترک کررہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے. خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم کو کفارہ دے کر ختم کردیجئے اور اللہ آپ کا مولا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے. اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے راز کی بات بتائی اور اس نے دوسری کو باخبر کردیا اور خدا نے نبی پر ظاہر کردیا تو نبی نے بعض باتوں کو اسے بتایا اور بعض سے اعراض کیا پھر جب اسے باخبر کیا تو اس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے تو آپ نے کہا کہ خدائے علیم و خبیرنے. اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کرو گی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبریل اور نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں. وہ اگر تمہیں طلاق بھی دے دے گا تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا مسلمہ, مومنہ, فرمانبردار, توبہ کرنے والی, عبادت گزار, روزہ رکھنے والی, کنواری اور غیر کنواری سب.
اس میں شک نہیں کہ صالح المومنین ایک وسیع معنی رکھتاہے جوتمام صالح باتقوٰی اورکامل الایمان مومنین کوشامل ہے .اگرچہ صالح یہاں مُفرد ہے جمع نہیں ہے ،لیکن چونکہ جنس کامعنی رکھتاہے ، اس لیے اس سے عمومیّت کے معنی کا استفادہ ہوتاہے ( ۱) ۔
لیکن اس بارے میں کہ یہاں اس کا اتم مصداق کون ہے ؟ متعدّد روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں ۔
ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے آ یاہے :
لقدعرف رسو ل اللہ (ص) علیاً (ع) اصحابہ مرتین : امامرة فحیث قال : من کنت مولاہ فعلی مولاہ واما الثا نیة فحیث نزلت ھذہ الاٰ یة : فان اللہ ھومولاہ وجبریل وصالح المؤ منین ... اخذ رسول اللہ (ص) بید علی (ع) فقال : ایھا الناس ھٰذاصالح المؤ منین !
حضرت رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام علی علیہ السلام کا اپنے اصحاب سے دو مرتبہ (صراحت کے ساتھ ) تعارُف کرایا. ایک مرتبہ تواس وقت جبکہ آپ نے (غدیرخم میں ) فرمایا : من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس جس کا میں مولاہوں اُس کاعلی علیہ السلام مولاہے ،دوسری مرتبہ اس وقت جبکہ آ یت ان اللہ ھومولاہ ... نازل ہُوئی ، تب حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم) نے امام علی علیہ السلام کاہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے لوگوں ! یہ صالح المومنین ہے ( ۲) ۔
اس معنی کوبہُت سے علماء اہل سنّت نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیاہے ، ان میں علّامہ ثعلبی علّامہ گنجی ، ابو حیان اندسی اور سبط ابن جوزی وغیرہ شامل ہیں ( ۳) ۔
بہُت سے مفسّرین اور منجملہ ان کے سیوطی نے درالمنثور میں ، قرطبی نے اپنی مشہور تفسیر میں اوراسی طرح ، آلوسی ، نے روح المعانی میں اسی آ یت کی تفسیر میں اس روایت کونقل کیاہے ۔
روح البیان کامو لّف اس روایت کو مجا ہد سے نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اس حدیث کی تا ئید مشہُور حدیث منزلت سے ہوتی ہے کہ جس میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا :انت من بمنزلتہ ھارون من موسیٰ : کیونکہ قرآن میں صالح کاعنوان انبیاء کے لیے آ یاہے . منجملہ ان کے سُورہ ٔ انبیاء کی آ یت ٧٢ میں وکلّا جعلنا صالحین اورسورہ ٔ یُوسف کی آ یت ١٠١ میں الحقنی بالصّا لحین ہے . پہلی آ یت میں صالح کاعنوان انبیاء کی ایک جماعت کے لیے اور دوسری میں حضرت یوسف کے لیے آ یاہے ، اور جب علی علیہ السلام بمنزلۂ ہارون علیہ السلام ہوں توآپ بھی صالح مصداق ہوں گے (غور کیجیے ) ۔
خلاصہ یہ کہ اِس سلسلے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، مفسّر معروف محدّت بحرانی ،تفسیر برہان میں اس سلسلہ کی ایک روایت ذکر نے کے بعد محمد بن عباس (۴) سے نقل کرتاہے کہ اس نے اس بارے میں ٥٢ احادیث شیعہ اوراہل سُنّت کے طرق سے جمع کی ہیں . اس کے بعد وہ خود ان میں سے چند ایک احادیث نقل کرتاہے ( ۵) ۔
۱۔ بعض نے صالح کویہاں جمع سمجھا ہے کہ اس بات کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے کہ ""صالحوا "" کی وائو اضافت کے وقت حذف ہو جاتی ہے ، لہٰذا قرآن کے رسم الحظ میں بھی نہیں ا ئی .لیکن یہ معنی بعید نظر آ تاہے ۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد١٠ ، صفحہ ٣١٦۔
۳۔ مزید وضاحت کے لیے "" احقاق الحق"" جلد٣،صفحہ ٣١١ کی طرف رجوع کریں ۔
۴۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ محمدبن عباس وہی عبداللہ ہے جوابن الحجام کے نام سے مشہور ہے اورکتاب مانزل من ، وان من اہل بیت علیہما السلام کامُؤ لّف ہے .اس کتاب کے متعلّق علماء کی ایک جماعت کاکہناہے کہ اس کامثل کوئی کتاب ابھی تک تالیف نہیں ہوئی ( جامع الر واة جلد ٢،صفحہ ١٣٤) ۔
۵۔ تفسیر برہان ،جلد ٤،صفحہ ٣٥٣ حدیث ٢ کے ذیل میں ۔