"تقیہ" ایک حفاظتی ڈھال ہے
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ۲۸
خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے.
"تقیہ" ایک حفاظتی ڈھال ہے
یہ صحیح ہے کہ کبھی انسان اعلی ترین مقاصد مثلًا حفظ شرافت ، تقویت حق اور باطل کی کمر توڑنے کے لیے اپنی جان عزیز تک فدا کر نے کو تیار ہوتا ہے لیکن کیا کوئی عقلمند بغیر کسی اہم مقصد کے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو جائز کہہ سکتا ہے اسلام نے صراحت سے اجازت دی ہے کہ جب انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں ہو اور اظہار حق سے کوئی اہم نتیجہ اور فائدہ بھی حاصل نہ ہوتا ہو تو وقتی طور پر اظہار حق نہ کیا جائے اور اپنے فرائض مخفی طور ادا کرلیے جائیں جیساکہ مندرہ بالا آیت میں قران نے یاد دلایا ہے ایک اور تعبیر کے ذریعے سورہ نحل آیه 106 میں ہے:
"الا من أكره وقلبہ مطمئن بالإيمان"۔
مگر جو شخص مجبور ہوجائے (اور اپنے ایمان کے خلاف کسی چیز کا اظہار
کردے) جب کہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔
تاریخ اور حدیث کی اسلامی کتابوں نے عمار ، ان کے والد اور والدہ کی سرگذشت کو فراموش نہیں کیا کہ وہ بت پرستوں کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔ انہوں نے انہیں سخت اذیت میں مبتلا کردیا اور کہتے تھے کہ اسلام سے بیزاری کا اظہار کریں - عمارکے مال باپ نہ مانے اور مشرکین کے ہاتھوں قتل ہوگئے لیکن عمار نے ان کے کہنے کے مطابق اظہار کردیا بعد میں خدائے بزرگوار کے خوف سے روتے ہوئے پیغمبراکرامؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپؐ نے ان سے فرمایا :
"ان عادوا لك فعدلهم"۔
اگر پھر پکڑے جاؤ تو وہ جو کہیں کہہ دینا
یوں آپؐ نے عمار کے اضطراب اور گریہ کو سکون بخشا۔
جس نکتے کی طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے یہ ہے کہ تمام مقامات پر "تقیه" کاحکم ایک جیسا نہیں بلکہ وہ کبھی واجب ہے ، کبھی حرام ہے اور کبھی مباح ہے۔
"تقیه" اس حالت میں واجب ہوتا ہے جب بغیر کسی اہم فائدے کے انسان کی جان خطرے سے دوچار ہو لیکن جهاں "تقيه" باطل کی ترویج ، لوگوں کی گمراہی اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث ہو وہاں حرام اور منوع ہے۔
اسی بنیاد پر اس سلسلے میں کیے گئے تمام اعتراضات کا جواب دیا جائے گا۔
حقیقت میں اعتراض کرنے دیے تحقیق کرتے تو انہیں پہ پتا چلتا کہ یہ شیعوں کا ہی عقیدہ نہیں بلکہ مسئلہ "تقیه" اپنی جگہ پرایک قطعی حکم عقل ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ ؎1
دنیا کے تمام عقلمند جب کبھی اپنے آپ کو اسی دوراہے پر پاتے ہیں جہاں یا تو انہیں اپنے عقیدے کو چھپانا پڑتا ہے یا عقیدے کا اظہار کرکے اپنی جان، مال اور عزت کو خطرے سے دوچار کرنا پڑتا ہے تو اگر عقیدے کا اظہار کرتا جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کی قیمت رکھتا ہو تو وه فداکاری کی راہ کو درست سمجھتے ہیں لیکن اگر اس کا واضح فائدہ نظرنہ آئے تو پھر عقیدے کو چھپانا بہتر سمجھتے ہیں۔