Tafseer e Namoona

Topic

											

									   غیروں سے رشتہ

										
																									
								

Ayat No : 28

: ال عمران

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ۲۸

Translation

خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے.

Tafseer

									         غیروں سے رشتہ
 " اولیاء" "ولی" کی جمع ہے . یہاں اس کا معنی ہے حامی، مددگار ہم پیمان ، یار اور یادر۔
 یہ آیت فی الواقع مسلمانوں کو ایک اہم سیاسی ، اجتماعی اور معاشرتی درس دیتی ہے کہ وہ غیروں سے دوست ، حامی و مددگار یا کسی اور حوالے سے کوئی ربط نہ رکھیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں ، دلکش تقریروں ، بظاہر گہری او مخلصانہ محبت سے دھوکا نہ کھائیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اہل ایمان اور با مقصد زندگی گزارنے والوں نے اس طرح سے بہت دکھ اٹھائے ہیں ۔
 استعمار اور سامراج کی تاریخ کو غور سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس نے ہمیشہ مظلوموں کی نظر میں دوستی غم گساری اور انسان دوستی کے لباس میں اثر ونفوز پیدا کیا ہے ۔ یہاں تک کہ لفظ  "استعمار" جس کا معنی ہے  "آبادی کی کوشش کرنا" اسی مفہوم کی نشاندہی کیا ہے کہ استعمارگر ہمیشہ استعمار شدہ معاشرے کی خبروں میں اپنے پنجے مضبوط کرنے کے بعد وہاں کے عوام پر بے دری سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان کا سب کچھ لوٹ لے جاتے ہیں۔
 اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر آیت میں شدید تہدید اور دھمکی آئی ہے اور وہ یہ کہ جو شخص اپنے تئیں غیروں کے سپرد کردے گا وہ خدا سے ہر قسم کا رابط منقطع کرے گا۔
 " من دون المؤمنين" اس طرف اشارہ ہے کہ معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں ہر شخص مجبور ہے کہ اس کے کچھ دوست احباب ہوں لیکن اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دوستی اور سرپرستی کے لیے ایمان والوں کا ہی انتخاب کریں اور ان کی جگہ کافروں سے رشتے استوار نہ کریں۔
 " فليس من الله في شي ءٍ"
 اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ جو افراد دشمنان خدا سے دوستی اور ہم کاری کرتے ہیں وہ کسی چیز میں خدا سے مربوط نہیں ہیں یعنی وہ فرمان الٰہی ، خدا پرستوں اور فرمان خدا کے پیرو کاروں سے بیگانے ہیں اور ان سے ہر لحاظ سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
 "إلا أن تتقتوا منهم تقتة"۔
 اس جملے کے ذریعے مندرجہ بالا حکم میں استثناء کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تقیہ کے موقع پر درج نہیں کہ مسلمان اپنی جان کی حفاظت کے لیے یا ایسے اور امور میں بے ایمان افراد سے دوستی کا اظهار کریں اور آخر میں دو مزید جملوں سے مندرجہ بالا حکم کی تاکید کی گئی ہے:-
 "ویحذركم الله نفسه"۔
 یعنی خدا تمہیں اپنی سزا اورغضب سے ڈراتا ہے۔
 " والى الله المصير" 
 یعنی - تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے اور اگر تم نے دشمنوں
 سے دوستی کرلی تو اپنے اعمال کا نتیجہ بہت جلد دیکھ  لوگے۔