Tafseer e Namoona

Topic

											

									   "تقیه" مقابلے کی دوسری صورت

										
																									
								

Ayat No : 28

: ال عمران

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ۲۸

Translation

خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے.

Tafseer

									          "تقیه" مقابلے کی دوسری صورت
 مذہبی ، اجتماعی اور سیاسی مقابلوں کی تاریخ میں ایسے واقعات درپیش آتے ہیں کہ جب ایک حقیقت کا دفاع کرنیوالے کھلم کھلا مقابلہ کریں تو وہ خود ، ان کا نظریہ ، مکتب اور مذہب نابودی کا شکار ہوجائے یا کم ازکم خطرے میں پڑجائے۔
 اس کی مثال بنی امیہ کی غاصب حکومت کے زمانے میں شیعیان علیؑ کی حالت ہے ۔ ایسے موقع پر صحیح اور عاقلانه راه یہ ہے کہ اپنی توانائیاں ضائع نہ کی جائیں اور اپنے مقدس مقاصد و اہداف کے لیے غیر واضح اور مخفی طور پر مقابلہ جاری رکھا جائے ۔
 "تقيه"  درحقیقت ایسے مکاتب فکر اور ان کے پیروکاروں کے لیے ایسے لمحات میں مقابلے کی ایک تبدیل شده شکل کا نام ہے ۔ یہ طریقہ انہیں تباہی سے بچا سکتا ہے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع دیتا ہے۔
 جو لوگ بے سوچے سمجھے "تقیه" پر قلم بطلان پھیردیتے ہیں نجانے ایسے مواقع کے لیے ان کے پاس کیا طریق کار ہے ۔ کیا نابود اور ختم ہوجانا اچھا ہے یا مقابلے کو صحیح اور منطقی سورت میں باقی رکھنا ۔ دوسری راہ کو "تقیه" کہتے ہیں اور پہلی صورت کو کوئی شخص میں تجویز نہیں کرسکتا۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    اقتباس از کتاب آئین ما ص 364