صالح اور غیرصالح حکومتیں
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۲۶تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ۲۷
پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب هاقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے- سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے. تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور مفِدہ کو زندہ سے اور زندہ کو مفِدہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے.
صالح اور غیرصالح حکومتیں
یہاں ایک اہم مسئلہ دور پیشں ہوگا اور وہ یہ کہ ممکن ہے مندرہ بالا آیت سے کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ جس شخص کو بھی حکومت ملتی ہے اور جس سے بھی حکومت کھوجاتی ہے سب ارادہ الٰہی کے تحت ہوتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ میں گزرنے والے چنگیز اور ہٹلر جیسے جابر اورستمگر حکمرانوں کی حکومت پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی جائے۔ اتفاق ہے کہ تاریخ کہتی ہے کہ یزید بن معاویہ نے اپنی شرمناک اور ظالمانہ حکومت کے جواز اور توجہیہ کے لیے اسی آیت سے استدلال کیا تھا ۔؎1
یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے اس اعراض کے جواب میں آیت کی مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں ان میں سے ایک ہے کہ یہ آیت خدائی حکومتوں سے مخصوص ہے یا پیغمبراکرمؐ کی حکومت کے قیام اور قریش کی خاطر حکومتوں کے اختتام سے مخصوص ہے۔
لیکن حق یہ ہے کہ آیت ایک کلی اور عمومی مفہوم کی حامل ہے جس کے مطابق تمام اچھی اور بری حکومتیں خدا تعالٰی مشیت اور ارادے کے مطابق ہیں مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا وند عالم نے اس دنیا میں کامیابی اور پیش رفت کے لیے عوامل واسباب کا ایک سلسلہ پیدا کیا ہے ۔ ؎1 اور ان آثار سے فائدہ اٹھانا ہی مشیت خدا ہے ، اس لیے خدا کی مشیت سے مراد وہ آثار ہیں جوان عوامل و اسباب میں پیدا کیے گئے ہیں ۔ اب اگر چنگیز ، یزید اور فرعون جیسے ظالم اور غیر صالح افراد کا میابی کے ان وسائل سے استفادہ کریں اور کمزور ، پسماندہ اور بزدل قومیں اپنے آپ کو ان کے سپرد کردیں اور ان کی شرمناک حکومت کو گوارہ کرلیں تو یہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ کہاوت ہے: ہر قوم اسی حکومت کی لائق ہے جو اس پرقائم ہے۔
اگر قومیں بیدار ہوں اور جابرو قاہر بادشاہوں سے یہ اسباب چھین کر صالح اور اہل ہاتھوں میں دے دیں اور عادلانہ حکومتیں قائم کریں تو یہ بھی ان کے اعمال کا نتیجہ ہے جو الٰہی اسباب و عوامل سے استفادہ کے طریقے سے وابستہ ہے۔
درحقیقت یہ آیت تمام افراد اور تمام انسانی معاشروں کی بیداری کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ وہ ہوشیار رہیں اور اس سے پھے کہ غیرصالح افراد ان عوامل کے ذریعے معاشرے کے حساس منصب سبنھال لیں اور تمام اہم مورچوں پر قبضہ کرلیں ، یہ خود کامیابی کے وسائل سے فائدہ اٹھائیں۔
"تولج الليل في النهار وتولج النهار في اليل":
"ولوج" لغت میں اور دن کو رات میں داخل کرنا ہے ، ایت کہتی ہے . اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ قران مجید میں آٹھ دیگر مقامات پربھی اس بات کا تذکرہ موجودہے :
اس آیت سے مراد وہی تدریجی اور حسی تبدیلی ہے جو سال بھر میں رات دن میں بھر دیتے ہیں ۔ یہ تبدیلی اس کره ارش کے محور کے اپنے مدار سے جہاد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو ۲۳ درجے سے کچھ زیادہ ہے اور اس سے سورج کی کرنوں کے زاویے کبھی بدل جاتے ہیں ۔ اسی لیے بلا وشمالي (خط استواء سے اوپر والے حصے) میں سردیوں کی ابتداء میں دن بڑھنے لگتے ہیں اور راتیں چھوٹی ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔ اس کے برعکس گرمیوں کے آغاز میں راتیں بڑھنے لگتی ہیں اور دن
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 المیزان بحوالہ ارشاد از شیخ مفید
۔------------------------------------------------------------------------
چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور سردیوں کی ابتدا ءتک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جب کہ بلاد جنوبی (خط استوا کے نیچے والے حصے) میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
اس لیے خدا تعالٰی ہمیشہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا رہتا ہے یعنی ایک میں کمی کرتا ہے اور دوسرے میں اضافہ کر دیتا ہے ممکن ہے کہا جائے کہ خط استوا ، کے اوپر اور اس طرح قطب شمالی اور قطب جنوبی کے اصلی نقطے میں رات دن تمام سال برابر رہتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی اور تغیر رونما نہیں ہوتا ۔ خط استوا پر سال بھررات دن بارہ بارہ گھنٹے کے اور قطب شمالی اور جنوبی میں سال میں ایک رات چھ ماہ کی اور ایک دن چھ ماہ کا ہوتا ہے ، اس لیے یہ آیت عمومی پہلو نہیں رکھتی۔
اس کے جواب میں کہنا چاہیے کہ حقیقت میں خط استواء ایک فرضی خط کے سوا کچھ نہیں اور لوگ ہمیشہ سے خط استوا کے اس طرف یا اس طرف زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں اس طرح نقطۂ قطب بھی فرضی نقطے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور شمالی و جنوبی قطب میں رہنے والے لوگوں کی زندگی ، (اگر و ہاں کوئی رہتا ہو تو یقینًا قطب کے حقیقی نقطے سے وسیع ترجگہ میں ہوگی اس بناء پر دونوں صورتوں میں رات اور دن کو اختلاف موجود ہے۔
ممکن ہے اس آیت کا مندرجہ بالا مفہوم کے علادہ ایک اور معنی بھی ہو اور وہ یہ کرہ ارض میں فضا کے طبقات کی وجہ سے اس میں اچانک رات اور دن پیدا نہیں ہوتے کہ بلکہ فجر اور شفق سے شروع ہوکردن آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا ہے اور رات کا آغاز مشرق کی سرخی سے ہوتا ہے اور تد ریجًا تمام جگہوں پر تاریکی چھا جاتی ہے۔ رات اور دن میں تدریجی تبدیلی جس حوالے سے بھی ہو انسان اورکرہ ارض کے دیگر موجودات کےلیے فائدہ مند ہے ، سبزوں ، فصلوں اور بہت سے جانداروں کی پرورش سورج کی تدریجی روشنی اور حرارت کی مرہون منت ہے۔ آغاز بہارسے جوں جوں دھوپ کی شدت اور حمایت میں اضافہ ہوتا ہے بیانات اور حیونات اپنے تکامل کے نئے نئے مرحلے طے کرتے ہیں اور انہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت شب و روز کے تدریجی سفر سے پوری ہوتی ہے اور یہاں وہ اپنے ارتقاء کے آخری نقطے تک پہنچ جاتے ہیں۔
اگر رات اور دن ایسے ہوتے تو بہت سے نباتات او حیوانات نشوونا اور رشد و تکامل سے محروم رہ جاتے اور چار موسموںکا تصور بھی نہ ہوتا کیونکہ وہ بھی اختلاف لیل ونہار۔ اور سورج کی کرنوں کے بدلتے ہوئے زاویوں کے مرہون منت ہیں- یوں انسان فطری طور پر موسموں کے اختٓلاف کے فوائد سے بے بہرہ رہ جاتا۔
اسی طرح اگر آیت کے دوسرے مفہوم کو پیش نظر رکھیں کہ رات اور دن تدریجی طور پر تبدیل ہوتے ہیں ناگہانی طور پر نہیں اور شفق ، طلوع صبح صادق اور طلوع آفتاب رات اور دن کے درمیان امور پذیر ہوتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ رات اور دن کا یہ تدریجی عمل زمین میں رہنے والوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے کیونکہ اس طرح وہ آہستہ آہستہ تاریکی یا روشنی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور یہی صورت ان کی جسمانی اور اجتماعی کیفیت میں سازگار ہے جب کہ دوسری صورت بہت سی پریشانیوں کا سبب بن سکتی تھی۔
"وتخرج الحي من الميت و تخرج الميت من الحي"۔
یہ تعبیری قرآن کی کئی ایک آیات میں موجود ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: خدا زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔
زندہ کو مردہ سے نکالنے سے مراد ہے جان موجودات سے حیات کو پورا کرنا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب زمین زندگی کو قبول کرنے کے قابل ہوئی تو زنده موجودات بے زبان مادہ سے معرض وجود میں آئے۔ علاوہ ازیں ہمارے بدن میں اور تمام عالم کے زندہ و موجودات میں بے جان مواد خلیوں ( CELLS) کا موجود میں زنده موجود میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
زنده موجودات سے مردہ وجود کی پیدائش کا عمل بھی ہماری آنکھوں کے سامنے جاری و ساری رہتا ہے۔
یہ آیت و حقیقت موت و حیات کے دائمی قانون تبادل کی طرف اشارہ ہے جو بہت عام اور بہت پیچیدہ ہے اس کے باوجود نہایت جاذب نظر اور عجیب ترین قانون ہے جو ہم پر حکمران ہے۔
اس آیت کی ایک اور تفسیر بھی ہے جو گذشتہ تفسیر کی نفی نہیں کرتی اور وہ ہے معنوی و روحانی زندگی اور موت کا مسئلہ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات اس کےبرعکس بے ایمان جو حقیقی زنده ہیں بے ایمان افراد جو دراصل مردہ ہیں سے معرض وجود میں آتے ہیں اور بعض اوقات اس کے برعکس بے ایمان افراد اہل ایمان سے پیدا ہوجاتے ہیں ۔ قرآن نے معنوی زندگی اور موت کو متعدد آیات میں ایمان اور کفر سے تعبیر کیا ہے۔
اس تفسیر کے مطابق قرآن قانون توارث کی بنیادوں کو منہدم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب کہ دانشور اسے طبیعت کے قطعی قوانین میں سے سمجھتے ہیں . انسان طبیعت کے بے جان موجودات کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہ موجودات مختلف عوامل کے زیراثر مجبور ہیں جب کہ انسان ارادے کی آزادی کا حامل ہے اور یہ بذات خود اللہ کی ایک قدرت نمائی ہے کہ وہ کافر کی اس اولاد سے آثار کفرمحو کر دیتا ہے جو واقی مومن بننا چاہے اور مومن کی اس اولاد سے آثارآیمان دھوڈالتا ہے جو کافر بننا پسند کرے۔ ارادے کا یہ استقلال جو ہر طرح کے مساعد و نامساعد حالات میں توارث پر غالب آجاتا ہے ، اسی کی طرف سے ہے.
یہی مفہوم پیغمبراسلامؐ کی ایک روایت میں ہم تک پہنچا ہے. تفسير درمنشور میں سلمان فارسی سے منقول ہے :
رسول اللہ نے "تخرج الحي من الميت "..... کی
تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالی مومن کو کافر کی صلب سے اور کافر کو مومن کی صلب سے نکالتا ہے۔
"وترزق من تشاء بغير حساب"
اصطلاح کے مطابق یہ جملہ" خاص" کے بعد "عام" کے قبیل میں سے ہے ۔ گذشتہ جملوں پر خدا کی طرف سے بندوں کو رزق دینے کے چند نمونے بیان ہوئے تھے اور اس جملے میں مسئلہ عمومی صورت میں بیان کیاگیا ہے جس میں ہر طرح کے رزق اور تمام عطیات کا ذکر آگیا ہے یعنی نہ صرف یہ کہ عزت ، حکومت ، موت اور زندگی خدا کے قبضہ قدرت میں ہے بلکہ ہر روزی ، نعمت اور عنایت اسی کی طرف سے ہے۔
"بغير حساب" اس طرف اشارہ ہے کہ عنایات خداوند کے دربار اس قدر وسیع اور گہرے ہیں کہ وہ جتنی بھی مقدار جسے بھی بخش دے ان میں کچھ فرق نہیں آتا اور وہ حساب رکھنے کا محتاج نہیں کیونکہ حساب تو وہ رکھتے ہیں جن کا سرمایہ محدود ہو اور اس کے کم یا ختم ہو جانے کا خوف ہو لیکن وہ خدا جو عالم وجود و کمالات کا ہے کنارسمندر ہے اسے کم ہونے کا خوف ہے نہ اس سے کوئی حساب لینے والا ہے اور نہ ہی اسے حساب کی ضرورت ہے۔
جو کچھ کہاگیا ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جملہ ان آیات کی نفی نہیں کرتا جن میں تقدیر الٰہی ، حساب کتاب ،لوگوں کی لیاقت و اہلیت اور خلقت کی حکمت تدبیر کا تذکرہ ہے۔