تفسیر
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۲۶تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ۲۷
پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب هاقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے- سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے. تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور مفِدہ کو زندہ سے اور زندہ کو مفِدہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے.
تفسیر
گذشتہ آیات میں مشرکین اور اہل کتاب کے بارے میں گفتگو تھی کہ وہ کیسے ملک اور عزت کو اپنے لیے مخصوص جانتے نہیں اور خود کو اسلام سے بے نیاز سمجھتے ہیں ۔ اب ان آیات میں خداوند عالم ان کے اس زعم باطل کو غلط ثابت کرتا ہے اور فرمایا ہے : خدا ہی ہر ملک و سلطنت کا مالک ہے ، خیرونیکی اس کے قبضے میں ہے ، وہ قدرت مطلقہ ہے اور ہرحالت میں اسی کی پناہ حاصل کرنا چاہیئے۔ موجودات کا حقیقی مالک وہی ہے جو ان کا خالق و پروردگار ہے ، جیساکہ سورہ مومن کی آیہ 62 میں ہے :
"ذلكم الله ربكم خالق كل شي" :
یہ خدا جو تمہارا پروردگار ہے، تمام چیزوں کا خالق ہے
وہ وہی ہے جو جسے چاہتا ہے ملک و سلطنت بخش دیتا ہے اور جس سے چاہتاہے لے لیتا ہے ، وہی عزت دیتا ہے اور وہی جسے چاہتا ہے خاک ذات میں بٹھادیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور اس کے زیر فرمان ہے ۔ وہ اپنے افعال میں مجبور نہیں ہے ۔ وہ فاعل مختار ہے نہ کہ فاعل مجبور۔
بناکہے واضح ہے کہ مشیت و ارادہ سے ان آیات میں یہ مراد نہیں کہ وہ بغیر کسی حساب کتاب کے یا بغیر کسی وجہ کے کسی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور کسی سے کوئی چیزلے لیتا ہے جبکہ اس کی مشیت حکمت سے وابستہ ہے جہان خلقت کا پورا نظام اور عالم انسانیت کا سارا پروگرام اس کی مصلحت و حکمت کے تحت چل رہا ۔ اس لیے وہ جو کام بھی کرتاہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہترین اور صحیح ترین ہوتا ہے۔
" بيدك الخيراتك علٰی كل شي قدير":
لفظ "خير" کا فارسی میں متبادل ہے "بہتر" - یہ افضل التفضیل اور ایک چیز کی دوسری پر برتری بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم ہراچھے امر کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ مثلًا سوره بقره آیه 221 میں ہے:
"ولعبد مؤمن خير من مشرك"۔
بت پرست کی نسبت بنده مومن سے شادی کرنا بہتر ہے۔
ظاہر ہے کہ مشرک میں تو کوئی اچھائی اور خوبی نہیں کہ کہا جاسکے کہ وہ اچھا ہے اور مومن اس سے بہتر ہے۔
افضل التفضيل کے مفہوم میں بھی بعض اوقات یہ بات آجاتی ہے مثلًا سورہ یوسف کی آیه ۳۳ میں حضرت یوسف کی زبانی فرمایاگیا ہے:
"رب الجن أحب إلي مما يدعون الیه :
یعنی - پروردگار ! یہ شرمناک عمل زنا جس کی مجھے مصر کی عورتیں دعوت
دے رہی ہیں اس سے قید مجھے زیادہ محبوب ہے۔
واضح ہے زنا کوئی ایسا عمل نہیں کہ جو حضرت یوسفؑ کی نظر میں محبوب ہو کہ اسے قید سے زیادہ محبوب قرار دیا جائے اس بناء پر افضل التفصيل ٓصرف موازنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اگرچہ ایک طرف وہ صفت بالکل موجود نہ ہو اور فقط دوسری طرف پائی جاتی ہو۔
"بيدك الخير" یہ الفاظ دو حوالوں سے یہ بتاتے ہیں کہ تمام خیرات اور اچھائیاں خدا تعالٰی میں منحصر ہیں ۔
1- لفظ خیر کے ساتھ الف اور لام ہے اور سیال اسے الف لام استغراق کہتے ہیں۔
2- یہاں مبداء الٰہی "خير" بعد میں ہے اور "بیدک" جو اس کی خبر ہے وہ پہلے ہے۔
اور یہ دونوں چیزي حصر کی دلیل ہیں.
اس لیے ان الفاظ کا معنی کچھ یوں ہوگا : تمام نیکیاں تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں۔
"بيدك الخير" سے ضمنًا یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالٰی ہرقسم کی خیر اور سعادت کا سرچشمہ ہے . وہ عزت بخشتايا ذلت دیتا ہے تو یہ سب کچھ قانون عدالت کے مطابق ہوتا ہے اور اس میں کچھ بھی"شر" نہیں ہوتا۔
" إنك على كل شئ قدير"
یہ جملہ گذشتہ حصے کی دلیل کے طور پر آیا ہے ۔ یعنی جب خدا قدرت مطلقہ کا مالک ہے تو پھر کوئی اشکال اور شبہ نہیں ہے کہ تمام نیکیاں اور اچھائیاں اس کے ارادے کے ماتحت ہوں گی۔