Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تفسیر

										
																									
								

Ayat No : 23-25

: ال عمران

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ ۲۳ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ۲۴فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ۲۵

Translation

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصّہ دے دیا گیا کہ انہیں کتاب هخدا کی طرف فیصلہ کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک فریق مکر جاتا ہے اور وہ بالکل کنارہ کشی کرنے والے ہیں. یہ اس لئے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ انہیں آتش جہّنم صرف چند دن کے لئے چھوئے گی اور ان کو دین کے بارے میں ان کی افتراپردازیوں نے دھوکہ میں رکھا ہے. اس وقت کیا ہوگا جب ہم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.

Tafseer

									ان آیات میں صراحت سے اہل کتاب کی چند خیانتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کیسے حیلہ جوئی اور ہے بنیاد مطالب کے ذریعے حدودالٰہی کے نفاذ سے بغاوت کرتے تھے ، حالانکہ ان کے پاس موجود آسمانی کتاب صراحت سے حکم بیان کرچکی ہوتی تھی کہ اپنی مذہبی کتاب میں موجود حکم کے سامنے سرتسیلم نہ کر دیں "الم تر الى الدين اوتوا نصيبا من الكتب يدعون الى كتب الله ليحكم بينهم "۔
 لیکن انہوں نے صریحًا اس کی مخالفت کی اور مخالفت بھی ایسی جسے اعراض ، سرکشی اور احکام خدا پر نکتہ چینی کہا جانا چاہیئے "ثم يتولی فريق منهم وهم معرضون"۔
 " اوتوا نصيبًا من الكتب" سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جو تورات اور انجیل یہود و انصارٰی کے پاس موجودتھی وہ ساری حقیقی تورات اور انجیل نہ تھی بلکہ یہ تو اس کا صرف ایک حصہ تھا اور ان دونوں آسمانی کتابوں کا بیشترحصہ یا غائب تھا یا پھر تحریف شدہ تھا۔ 
 اس آیت کی قرآن کی دیگر آیات کی تائید کرتی ہیں . نیز تاریخی شواہد بھی اس کے مؤید ہیں۔
 دوسری آیت میں ان کی مخالفت اور روگردانی کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی ایک باطل اور غلط فکر تھی اور وہ یہ کہ وہ ایک بلندہ اور ممتاز خاندان سے ہیں ۔ آج بھی وہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور بہت سی تحریریں ان کی نسل پرستی کی شاہد ہیں۔
 ان کا اعتقاد تھا کہ پروردگار عالم سے ان کا ایک خاص تعلق ہے یہاں تک کہ وہ اپنے تئیں خدا کے بیٹے کہتے تھے۔

 جیسا کہ سوره مائدہ آیہ اٹھارہ میں ان کی زبان سے قرآن نے نقل کیا ہے۔
  "نحن ابنؤ الله وأحباؤه"۔
  ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے خاص دوست ہیں۔ 
 اسی لیے وہ خدائی سزا کے مقابلے میں ایک قسم کی معنویت کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ اس سے محفوظ رہیں گے اور اس امر کو خدا کی طرف سے بھی منسوب کرتے تھے لہذا ان کا اعتقاد تھا کہ ان میں سے گنہگار افراد بھی قیامت میں چند دنوں کے سوا عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے . جیسا کہ محل بحث آیات میں بھی ہے:
  "قالوالن تمسنا النار الا ايامًا مدودات"۔ 
 إن ایام معدود سے مراد یاتو وہ چالیس دن تھے جن میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی عدم موجودگی میں انہوں نے گوساله پرستی شروع کردی تھی ، یہ ایسا گناہ تھا کہ وہ خود بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے تھے یا پھر اس سے مراد ان کی زندگی کے معدود اور گنے چنے دان تھے کہ جن میں انہوں نے بہت زیادہ واضح اور ناقابل انکار گناہوں کا ارتکاب کیا تھا اور وہ خود بھی ان گناہوں کی توجیہ اور پردہ پوشی نہ کرسکتے تھے۔
 خدا کی طرف منسوب یہ جھوٹے اور جعلی امتیازات رفتہ رفتہ ان کے عقائد کا جزبن گئے جس سے وہ مغرور ہوگئے تھے یہاں تک کے احکام خدا کی مخالفت اور قانون شکنی میں بھی بے باک ہو گئے تھے ( وغرهم في دينهم ما كانوا يفترون )۔
 تیسری آیت میں قران ان تمام باطل خیالات پر خط بطلان کھینچتا ہے اور کہتا ہے: ایک روز یقینًاپروردگار کی بارگاه عدل میں دیگر انسانوں کی طرح پیش ہوں گے اور ہرشخص اپنے اعمال کا سامنا کرے گا چونکہ وہ اپنے ہی اعمال کا سامنا کریں گے اور اپنے ہی اعمال کا نتیجہ پائیں گے اس لیے انہیں جب بھی سزاملے گی اس میں ان پر کسی قسم کا ظلم وستم نہیں ہوگا کیونکہ یہ  سب ان کے کئے کا ماحصل ہوگا "و وفيت كل نفس ماكسبت رھم يظلمون"۔
 ماکسبت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قیامت کے دن کی جزا و سزا اور دوسرے جہان کی خوش بختی و بدنیتی مصرف انسانی اعمال سے وابستہ ہے اور اس میں کوئی اور چیز موثر نہیں ہے ۔ اس حقیقت کی طرف بہت سی آیات مجیدہ میں اشارہ ہوا ہے۔