شان نزول
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ ۲۳ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ۲۴فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ۲۵
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصّہ دے دیا گیا کہ انہیں کتاب هخدا کی طرف فیصلہ کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک فریق مکر جاتا ہے اور وہ بالکل کنارہ کشی کرنے والے ہیں. یہ اس لئے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ انہیں آتش جہّنم صرف چند دن کے لئے چھوئے گی اور ان کو دین کے بارے میں ان کی افتراپردازیوں نے دھوکہ میں رکھا ہے. اس وقت کیا ہوگا جب ہم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.
شان نزول
تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے منقول :
رسول اللہؐ کے زمانے میں خیبر کے یہودیوں میں سے ایک عورت اور
ایک مرد زنائے محصنہ کے مرتکب ہوئے ۔ باوجود یکہ تورات میں ایسے اشخاص
کو سنگسار کرنے کا حکم تھا، چونکہ یہ مرد عورت اشراف میں سے تھے اس لیے
ان پر یہ حکم جاری کرنے میں توقف برتا گیا اور تجویز ہوا کہ پیغمبراسلامؐ سے
رجوع کیا جائے اور ان سے فیصلہ حاصل کیا جائے ۔ انہیں توقع تھی کہ آپؐ کی
طرف سے کم سزا معین ہوگی لیکن رسول اللہ نے بھی ان کے لیے وہی سزا
معین فرمائی ۔ اس فیصلے پر بعض یہودیوں اور ان کے وڈیروں میں سے بعض
نے اعتراض کیا اور اس بات کا انکار کر دیا کہ یہودی مذہب کے مطابق فیصلہ
درست ہے۔
پیغمبراکرمؐ نے فرمایا : یہ موجودہ تورات ہی تمہارے اور میرے درمیان فیصلہ کردے گی۔
انہوں نے قبول کرلیا ۔ ابن صوریا ان کا ایک عالم تھا . اسے فدک سے
مدنیہ بلایا گیا تھا ۔ پیغمبراکرامؐ نے اسے پہچان لیا اور فرمایا : تو ابن صوریا ہے؟
اس نے عرض کیا : جی ہاں ۔
آپؐ نے فرمایا : کیا تم یہودیوں میں اعلم علماء ہو ؟
اس نے کہا : وہ یہی سمجھتے ہیں۔
پیغمبراکرم نے حکم دیا کہ اس کے سامنے تورات کا وہ حصہ رکھا جائے جس میں
سنگسار کرنے کا حکم ہے۔
وہ چونکہ پہلے سے باخبر تھا اس لیے جب تورات کی اس کاآیت پہنچا
تو اس پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے بعد کے جملے پڑھ دیے۔
عبدالله بن سلام جو پہلے سعودی علماء میں سے تھا اور مسلمان ہوگیا تھا ، وہاں
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 شادی شدہ افراد کے زنا کو "زنائے محصنہ" کہتے ہیں (مترجم)
۔---------------------------------------------------------------------------
موجود تھا۔ وہ ابن صوریا کی اس پردہ پیشی پرمتوجہ ہوکر فورا اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ اس جملے
سے ہٹا دیا اور متن تورات میں سے اسے پڑھا اور کہا کہ تورات کہتی ہے : یہودیوں کے
لیے ضروری ہے جب کوئی عورت اور مردہ زنائے محصنہ کے مرتکب ہوں اور ان کے جرم کا
کافی ثبوت موجود ہو تو انہیں سنگسار کر دیا جائے۔
اس کے بعد پیغمبراکرمؐ نے حکم دیا کہ ان کے دین کے مطابق مذکورہ سزا ان دو
مجرموں پر جاری کی جائے۔
اس پر یہودیوں کی ایک جماعت سیخ پا ہوگئی ، زیر نظرآیت اسی کیفیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ؎1
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس وقت موجودہ تورات میں سفر اور لادیان کی بیسویں فصل کے دسویں جملے میں ہے : اور جو شخص کسی غیر کی عورت سے زناکرے (مثلاً) اپنے ہمسائے کی بیوی سے زناکرے تو چاہیئے کہ زانی اور زانیہ کو قتل کر دیا جائے۔
اس عبارت میں اگرچہ سنگسار کا حکم صراحت سے نہیں ہے لیکن انہیں قتل کر دینے کی اصل سزا کا حکم ہے. ممکن ہے پیغمبر اسلامؐ کے زمانے کے نسخوں میں دو عبارت موجودہو۔