Tafseer e Namoona

Topic

											

									   دوسوال اور ان کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 23-25

: ال عمران

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ ۲۳ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ۲۴فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ۲۵

Translation

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصّہ دے دیا گیا کہ انہیں کتاب هخدا کی طرف فیصلہ کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک فریق مکر جاتا ہے اور وہ بالکل کنارہ کشی کرنے والے ہیں. یہ اس لئے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ انہیں آتش جہّنم صرف چند دن کے لئے چھوئے گی اور ان کو دین کے بارے میں ان کی افتراپردازیوں نے دھوکہ میں رکھا ہے. اس وقت کیا ہوگا جب ہم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.

Tafseer

									   دوسوال اور ان کا جواب
 کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کوئی جھوٹ بولے یا خدا پر افترا باندھے اور پھر خود ہی اس کے زیر اثر آجائے اوراس کے نتیجے میں مغرور ہوجائے جیسا ہ زیر نظر آیات میں فرمایا گیا ہے؟ کیا یہ باور کیا جا سکتاہے ؟
 اس سوال کا جواب کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ وجدان کو دھوکا اور فریب دینے کا مسئلہ آجکل نفسیات کےمسلمہ مسائل میں سے ہے بعض اوقات قوت فکر و نظر و جدان کو غافل کردیتی ہے اور حقیقت کے چہرے کو بگاڑ دیتی ہے ۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ بڑے بڑے گناہوں مثلًا قتل . چوری یا طرح طرح کی بری عادات میں ملوث افراد اپنے اعمال کی قباحت کو اچھی طرح جاننے کے باوجود وجدان کی جھوٹی تسکین کے لیے کوشش کرتے ہیں ۔ وہ لوگوں پر کئے گئے ظلم کا انہیں مستحق قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنی ضررساں عادتوں کی توجہیہ کرتے ہیں ۔ زندگی کی ناہمواریوں اور معاشرے کی طاقت فرسا مشکلات کا نام لے کر اپنے لیے منشیات کے استعمال کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 علاوہ ازیں یہ جھوٹے امتیازات اہل کتاب کی گذشتہ نسلوں نے گھڑے تھے اور بعد کی نسلیں جو اس سے آگاہ نہیں تھیں انہوں نے اسے بلاتحقیق صحیح عقیدت کے طور پر اپنالیا ۔
 2-   یہ بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ محدود عذاب اور سزا کا عقیدہ تو مسلمانوں میں بھی موجود ہے کیونکہ یہ سارا عقیدہ ہے کہ حقیقی مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب الٰہی میں مبتلا نہیں رہیں گے اور آخر کار ان کا ایمان ان کی نجات کا سبب بنے گا۔
 توجہ رہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ ایک گنہ گار اور طرح طرح کے جرائم میں آلودہ مسلمان صرف چند دن عذاب الٰہی میں مبتلا رہے گا بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ سالہا سال تک گرفتار سزا رہے گا اور اس کی سزا کی اصل مدت خدا تعالی ہی بہترجانتا ہے ممکن ہے اسکے انسان کی وجہ سے اس کی سزا دائمی اور ابدی نہ ہو اور اگر واقعًا مسلمانوں میں کچھ ایسے افراد ہوں جو یہ سمجھتے ہوں کر وہ اسلام ، پیغمبراکرمؐ اور ائمہ اطہارؑ پرایمان کے نام پر ہر طرح کا گناہ کرنے کے مجاز ہیں اور اس پر انہیں چند روز کے علاوہ سزا نہیں ہوگی تو وہ بہت بڑے اشتباہ کا شکار ہیں اور روح اسلام اور تعلیمات اسلامی سے دور رہیں۔
 ہم اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے امتیاز کے قائل نہیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر امت کے افراد جو اپنے اپنے زمانے کے پیغمبر پر ایمان رکھتے تھے مگر کسی گناہ کے مرتکب ہو گئے ہوں تو وہ بھی اس قانون کے تحت آتے ہیں چاہے وہ کسی قوم یا قبیلے سے ہوں جب کہ یہودی صرف بنی اسرائیل کے لیے اس امتیاز کے حامل ہیں اور دیگر اقوام عالم کے لیے وہ ایسے کسی قانون کو نہیں مانتے۔ 
 قران ان کے اس جھوٹے امتیاز کا جواب دیتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت 18 میں کہتاہے.
  "بل أنتم بشر ممن خلق"۔ 
  تم بھی دیگر انسانوں کی طرح ہو ۔