٢۔ وہ لوگ جوباطل باتومں میں غوطہ زن ہیں
يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا ۹وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا ۱۰فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ۱۱الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ ۱۲يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ۱۳هَٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ۱۴أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ۱۵اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۱۶
جس دن آسمان باقاعدہ چکر کھانے لگیں گے. اور پہاڑ باقاعدہ حرکت میں آجائیں گے. پھر جھٹلانے والوں کے لئے عذاب اور بربادی ہی ہے. جو محلات میں پڑے کھیل تماشہ کررہے ہیں. جس دن انہیں بھرپور طریقہ سے جہّنم میں ڈھکیل دیا جائے گا. یہی وہ جہّنم کی آگ ہے جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے. آیا یہ جادو ہے یا تمہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے. اب اس میں چلے جاؤ پھر چاہے صبر کرو یا نہ کرو سب برابر ہے یہ تمہارے ان اعمال کی سزادی جارہی ہے جو تم انجام دیا کرتے تھے.
اگرچہ اوپروالی آیات میں ،قرآن کاہدف کلام زمانہ پیغمبر کے مشرکین ہیں، لیکن بلاشک یہ آیات عمومیت رکھتی ہیں ۔اورتمام مکذبین ان میں شامل ہیں، یہاں تک کہ مادی فلاسفہ (سائنس دان ) جومٹھی بھرناقص خیالات وافکار میں غوط زن ہیں ،عالم ہستی کے حقائق کوکھیل بنائے ہوئے ہیں ،اورسوائے اس چیزکے جسے وہ اپنی قاصر عقل سے دریافت کرتے ہیں، کسی چیز کوقبول نہیں کرتے ، وہ اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ تمام چیزوں کو اپنی آزمائش گاہ میں دوربین کے ذ ریعہ دیکھیں ،یہاں تک کہ خداکی پاک ذات کوبھی ورنہ اس کے وجود کو رسمی طورپر قبول نہیں کرتے ۔
یہ بھی فی خوض یلعبون کے مصداق ہیں ، اور باطل خیالات ونظریات کے ایک انبوہ میں ڈو بے ہوئے ہیں ۔
انسانی عقل اپنے تمام ترفروغ کے باوجود نوروحی کے مقابلہ میں ایک شمع کے مانند ہے جوآفتاب عالم تاب کے سامنے روشن ہو۔ یہ شمع اس کواجازت دیتی ہے کہ جہاں مادہ کے تاریک ماحول سے نکل کراور ماوراء طبیعت عالم کی طرف دروازہ کھولے ، اورپھر آفتاب وحی کے نور میں ہرطرف پرواز کرے ، اور بے کراں جہان کو دیکھے اورپہچانے ۔