١۔مجرموں کودوزخ میں کس طرح لے جائیں گے
يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا ۹وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا ۱۰فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ۱۱الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ ۱۲يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ۱۳هَٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ۱۴أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ۱۵اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۱۶
جس دن آسمان باقاعدہ چکر کھانے لگیں گے. اور پہاڑ باقاعدہ حرکت میں آجائیں گے. پھر جھٹلانے والوں کے لئے عذاب اور بربادی ہی ہے. جو محلات میں پڑے کھیل تماشہ کررہے ہیں. جس دن انہیں بھرپور طریقہ سے جہّنم میں ڈھکیل دیا جائے گا. یہی وہ جہّنم کی آگ ہے جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے. آیا یہ جادو ہے یا تمہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے. اب اس میں چلے جاؤ پھر چاہے صبر کرو یا نہ کرو سب برابر ہے یہ تمہارے ان اعمال کی سزادی جارہی ہے جو تم انجام دیا کرتے تھے.
اس میں توشک نہیں کہ انہیں جہنم کی طرف حقارت کے ساتھ ، ذلیل کرتے ہو ئے ،جھڑ کتے ہو ئے ،اورعذاب کرتے ہوئے جائیں گے ،لیکن قرآن کی مختلف آیات میں اس سلسلہ میں گونا گوں تعبیریں نظر آتی ہیں ۔
سورہ دخان کی آ یت ٤٧ میں اس طرح آ یاہے کہ :خُذُوہُ فَاعْتِلُوہُ ِلی سَواء ِ الْجَحیم اس کو پکڑلو ،اورسختی کے ساتھ اسے جہنم میں دھکیل دو۔
متعدد آ یات میں سوق اور ہانکنے کی تعبیرآ ئی ہے مثلاً سورئہ مریم کی آ یت ٨٦ وَ نَسُوقُ الْمُجْرِمینَ ِلی جَہَنَّمَ وِرْداً : ہم مجرموں کو(ان پیاسے اونٹوں کی طرح جنہیں پانی کی جگہ کی طرف لے جایا جاتاہے )جہنم کی طرف ہانکیں گے۔
اس کے برعکس پرہیز گاروں اورمتقیوں کوانہتائی احترام واکرام کے ساتھ بہشت کی طرف لے جائیں گے،اورخدا کے فرشتے ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھیں گے،بہشت کے دروازوں کوان کے لیے کھول دیاجائے گا ،اورخاز نان جنّت انہیں سلام اورخوش آمدید کہیں گے ، اورانہیں بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ کی سکونت کی بشارت دیں گے (زمر۔ ٧٣) ۔
اس طرح سے بہشت اور دوزخ نہ صرف خداکی مہر اور قہر کامرکز ہے ،بلکہ اُن میں سے ہرایک میں داخلہ کے لیے پذیرائی بھی اسی مفہوم کوبیان کرنے والی ہے ۔