٢۔ وہ صاحب "" قوت "" اور "" متین "" ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ۵۶مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ ۵۷إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ۵۸
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے(. میں ان سے نہ رزق کا طلبگار ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کچھ کھلائیں. بیشک رزق دینے والا, صاحبِ قوت اور زبردست صرف علیھ السّلام اللہ ہے.
متین متن کے مادہ سے اصل میں اسی قوی پٹھے کے معنی میں ہے ، جو پیٹھ کے مہروں کے ستون کے دونوں طرف ہوتاہے، اورانسان کی پشت کومضبوط بناتاہے ، اوراسے بھاری دباؤ کوبرداشت کرنے کے لیے آمادہ کرتاہے، اوراسی مناسبت سے کامل قدرت وقوت کے معنی میں آ یاہے ، اس بناپر ذوالقرہکے لفظ کے بعد اس کابیان تاکید کے عنوان سے ہے ، کیونکہ ذوالقوہ پروردگار کی اصلی قوت کی طرف اشارہ کرتاہے، اور متین اس کے کمال قدرت کی طرف ، اور جس وقت وہ رزاق کے لفظ کے ہمراہ ہوکر وہ بھی ایک مبالغہ کا صیغہ ہے تواس حقیقت کوثابت کرتاہے، کہ خدا بندوں کوروزی دینے کے سلسلے میں انتہائی قدرت وطاقت اورتسلط رکھتاہے،چاہے وہ اس وسیع جہان کے جس کونے میں ہوں، سمندروں کی گہرائیوں میں ہوں، دروں کے درمیان ہوں، پہاڑ وں کی چوٹیوں پرہوں،پتھروں کے اندر ہوں، اور آسمانی کروں کے جس مقام میں ہوں، ان کی ضرورت کے مطابق روزی انہیں پہنچاتاہے اور سب کے سب اسی کے خوان احسان پر جمع ہیں ۔پس اگرانہیں پیداکیاہے توکسی ضرورت وحاجت کی بناپرنہیں ،بلکہ ایک لطف خاص اور فیض پہنچانے کی بناپر۔