غیب پر ایمان
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ۳وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ۴أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۵
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں. وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں.
۱۔ غیب پر ایمان : سب سے پہلے قرآن کہتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں (الذین یومنون بالغیب) ۔ غیب و شہود ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ عالم شہود عالم محسوسات ہے اور عالم غیب ماورائے حس ہے۔ کیونکہ غیب کے معنی اصل میں پوشیدہ و پنہاں چیز کے ہیں۔ کیونکہ محسوسات سے ماوراء کی دنیا ہماری حس سے پوشیدہ ہے لہذا اسے غیب کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :
عالم الغیب والشھادة، ھو الرحمن الرحیم
وہ خدا جو غیب و شہود سے واقف ہے وہی مہربان (اور ) رحیم ہے۔
غیب پر ایمان رکھنا در اصل وہ پہلا نقطہ ہے جو مومنین کو دوسروں سے جدا کرتاہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو آسمانی ادیان کے پیروکاروں کو خدا، وحی اور قیامت کے منکروں کے مقابلے میں کھڑا کرتاہے۔ اسی بناء پر پرہیزگاروں کی پہلی خصوصیت کے طور پر ایمان بالغیب کا ذکر کیا گیاہے۔
مومنین سرحد مادہ کو توڑ کر، اس محدود چاردیواری سے نکال لئے گئے ہیں اور وہ اس وسعت فکر و نظر کے باعث ایک بہت بڑے فوق العادہ جہان سے مربوط ہوگئے ہیں جبکہ ان کے مخالف مصر ہیں کہ انسان کو مادہ کی چار دیواری میں جانوروں کی طرح محدود رکھیں اور اس الٹی چال کو وہ تمدن کی پیش رفت اور ترقی کا نام دیتے ہیں۔
ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے ادراک و فکر کا مقابلہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیںگے کہ غیب پر ایمان رکھنے والے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہان ہستی اس دنیا سے کہیں وسیع تر ہے جسے ہمارے حواس درک کرتے ہیں۔ اس جہان کے پیدا کرنے والے کا علم اور قدرت بے انتہا ہے اور اس کی عظمت و ادراک کی کوئی حد نہیں۔ وہ ازلی و ابدی ہے ۔ اس نے عالم ایک بہت بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنایا ہے۔
روح انسانی اور باقی حیوانات میں بہت بڑا فرق ہے ۔ موت کے معنی نابود ہونا اور فنا ہونا نہیں بلکہ یہ انسان کی تکمیل کا ایک مرحلہ و منزل ہے۔ یہ ایک وسیع تر جہان دیکھنے کے لئے ایک دریچہ ہے جب کہ ایک مادی شخص اعتقاد رکھتا ہے کہ جہان ہستی اسی میں محدود ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ جتنا علوم طبیعی نے ہمارے لئے ثابت کیا ہے وہی کچھ کائنات ہے۔ قوانین طبیعت جبری قوانین کا ایک سلسلہ ہے جو بغیر کسی پروگرام یا منصوبے کے ظاہر ہوگیا۔ اس عالم کے پیدا کرنے والی قوت و طاقت ایک چھوٹے سے بچے جتنی عقل و شعور بھی نہیں رکھتی۔ انسان بھی اس طبیعت کا ایک جزء ہے اور موت کے بعد اس کی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔اس کا بدن منتشر ہوجائے گا اور اس کے اجزاء دوبارہ طبیعی مواد سے مل جائیںگے۔ انسان کے لئے بقاء نہیں ہے۔ اس کے اور عام حیوانات کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں(۱)۔
کیا انسانوں کا ان دو متضاد طرز فکر ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ آیا معاشرے میں ان کا طرز زندگی اور طریق کار ایک جیسا ہوسکتا ہے۔
پہلا شخص(مومن) حق و عدالت، خیرخواہی اور دوسروں کی مدد سے چشم پوشی نہیں کرسکتا لیکن دوسرے (مادی) شخص کے پاس ان امور کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں مگر جتنا اس کی آج یا کل کی مادی زندگی کا تقاضا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مومنین کے درمیان سچا بھائی چارہ، پاکیزہ افہام و تفہیم اور تعاون ہوتا ہے جب کہ جہاں پرمادی فکر کے حامل شخص کی حکمرانی ہے وہاں استعمار، استشمار، خونریزی، غارت گری اور تاراجی ہے۔
واضح ہوا کہ قرآن نے تقوی کا پہلا نقطہ ایمان بالغیب کو قرار دیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے جو بیان کی گئی ہے۔
کیا ایمان بالغیب سے مراد صرف ذات پاک پروردگار پر ایمان لانا ہے یا غیب یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے یعنی وحی، قیامت، فرشتے اور عالم حس سے ماوراء سب کچھ اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے لیکن ہم نے ابھی کہا ہے کہ جہاں ماورائے جس پر ایمان رکھنا مومنین اور کافرین میں نقطہ اختلاف اور علیہدگی کا سبب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیب یہاںایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت کی تعبیر بھی مطلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید موجود نہیں جو اسے کسی خاص معنی میں محدود کردے۔
اب اگر ہم اہلبیت (ع) کی بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں غیب سے مراد امام غائب حضرت مہدی سلام اللہ علیہ لئے گئے ہیں ( 2)۔
تو یہ بات ہماری گذشتہ گفتگو سے اختلاف نہیں رکھتی۔ امام مہدی علیہ السلام ہمارے عقیدے کی بناء پر زندہ و سلامت ہیں اور نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ آیات کی تفسیر کے سلسلے کی روایات جن کے بہت سے نمونے آپ ملاحظہ کریں گے زیادہ تر مخصوص مصادیق کے لئے بیان ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ان مصادیق میں محدود کردیا گیا ہے بلکہ مذکورہ روایات حقیقت میں ایمان بالغیب کی وسعت اور اس کے امام غائب تک کے شمول کو بیان کرتی ہے یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ ایمان بالغیب ممکن ہے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نئے مصداق بھی پیدا کرے۔
۱۔ اقتباس از قرآن و آخرین پیامبر۔
2۔ نور الثقلین جلد اول ص