خدا سے رابطہ
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ۳وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ۴أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۵
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں. وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں.
۲۔ خدا سے رابطہ : پرہیز گاروں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں(ویقیمون الصلواة) ۔ نماز، خدا سے رابطے کی ایک رمز ہے۔
مومنین جو جہان ماورائے طبیعت تک رسائی حاصل کرچکے ہیں نماز ان کا دائمی و ہمیشگی رابطہ مبداء عظیم آفرینش سے برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ وہ صرف خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔وہ فقط جہان ہستی کے خالق کے سامنے جھکتے ہیں لہذا بتوں کے سامنے خضوع کرنا یا جباروں اورستم گروں کے سامنے جھکنا ان کی زندگی میں کیسے حائل ہوسکتا ہے۔
ایسا انسان احساس کرتا ہے کہ میں تمام مخلوقات سے آگے بڑھ کیا ہوں اور مجھے اس مقام تک رسائی حاصل ہوگئی ہے کہ خدا سے گفتگو کروں۔ یہ احساس اس کی تربیت کےلئے بہترین عامل ہے۔
جو شخص روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے اس کی کفر ، اس کا عمل اور اس کی گفتار سب خدائی ہوجاتی ہیں، کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کی خواہش کے برخلاف قدم اٹھائے(لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ درگاہ حق میں اس کاراز و نیاز دل و جان کے ساتھ ہو اور مکمل دلجمعی کے ساتھ اس کی بارگاہ کا رخ کرے (۱)۔
۱۔ اہمیت نماز اور اس کے بے شمار تربیتی آثار کے متعلق اسی تفسیر میں سورہ ہود کی آیة ۱۱۴ کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔