تـنزيل" اور" انزال میں فرق
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ۱إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ۲أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ۳
یہ صاحبِ عزت و حکمت خدا کی نازل کی ہوئی کتاب ہے. ہم نے آپ کی طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے لہٰذا آپ مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں. آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.
تـنزيل" اور" انزال میں فرق
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس سورہ کی پہلی آیت میں "تـنزیل الکتاب" کی تعبیر ہے اور دوسری آیت میں "انزلنا اليك الكتاب" کی تعبیر ہے۔
"تـنزيل" اور "انزال" میں کیا فرق ہے اور ان آیات میں تعبیرکایہ اختلاف کس لیے ہے ؟ اس بارے میں جو کچھ چند لغات کےمتنوں سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ "تـنزیل" تو عام طور پر ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں کوئی چیز بتدتریج اور آہستہ آہستہ نازل ہوا، جب کہ "انزال" ایک عام معنی رکھتا ہے،جس میں نزول تدریجی بھی شامل ہےاور"دفعی"(ایک ہی مرتبہ کانزول)بھی۔ ؎1
بعض ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ "تنزیل" صرف نزول تدریجی ہے اور "انزال" صرف نزول دفعی ہے ۔ ؎2
اس بنا پر مذکور تعبیر کا اختلاف ممکن ہے اس بنا پر ہوکہ قرآن دوقسم کے نزول کا حامل ہے۔ ایک نزول دفعی (یعنی ایک کی مرتبہ) جو شب قدر میں اور ماه مبارک رمضان میں واقع ہوا، اس موقع پر قرآن اکھٹا پیغمبرگرامی اسلامؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوا۔ جیسا کہ قرآن کیا ہے۔
اناانزلناه في ليلة القدر
ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ . (قدر ــــــــــــــــــ ا)
انا انزلناه في ليلة مباركة
ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا۔ (دخان ـــــــــــــ3)
شهر رمضان الذی انزل في القرأن
رمضان وہی مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ (بقره ــــــــــ 185)
ان تمام مواقع پر "انزال" کے مادہ سے استفادہ کیا گیا ہے جو قرآن کے دفعی (ایک ہی مرتبہ کے) نزول کی طرف اشارہ ہے۔
دوسرا نزول جو تدریجًا پیغمبراکرمؐ کی نبوت کے 23 سالہ دور میں صورت پذیر ہوا۔ ہرحادثے ہر واقعے میں اس سے مناسبت رکھنے والی آیات نازل ہوتی رئیں ۔ اس طریقے نے مسلمانوں کو مرحلہ به مرحلہ روحانی، اخلاقی، اعتقای اور اجتماعی کمال کے مدارج طے کرائے۔ جیساکہ سوره بنی اسرائیل کی آیہ 106 اس میں بیان ہوا ہے۔
وقرانا فرقناه لتقرار على الناس على مكث ونزلناہ اتنزیلاً
ہم نے تجھ پر قرآن نازل کیا جو ایک دوسرے سے جدا آیتوں کی صورت میں ہے تاکہ تواسے تدریجًا اور آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے پڑھے (اور یہ دلوں میں جذب ہو جائے) اور ہم نے اس قران کو قطعی طور پر تدریجًا نازل کیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہی آیت میں دونوں تعبیریں دو الگ الگ مقاصد کے لیے استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید
سورہ محمد کی آیہ 20 میں کہتا ہے :
ويقول الذين امنوا لولا نزلت سورة فاذا انزلت سورة محكمة وذكر فيها القتال
رأيت الذين في قلوبهم مرض ينظرون اليك نظر المغشى عليه من الموت
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مفردات راغب مادہ" نزل" والفرق بين الانزال والتنزيل في وصف القران والملائكة ان التنزيل بختص بالموضع الذي بشیر الیه انزالہ مفرقاو مرة بعد اخرٰ والا نزال عام"۔
؎2 تفسیر فخررازی میں بعض سے یہ فرق نقل ہوا ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مومنین کہتے ہیں کہ کوئی سورہ نازل کیوں نہ ہوئی؟ جس وقت محکم سورہ نازل ہو جائے گی اور اس میں جنگ کا ذکر ہوگا . تو، تُو بیماردل منافقوں کو دیکھے گا کہ وہ کس طرح سے تیری طرف دیکھ رہے ہیں جیسے ان کی روح قبض کی جاری ہے۔
گویا مومنین ایک سورہ کے تدریجی نزول کا تقاضا کرتے ہیں تا کہ وہ ا س کے خوگر ہو جائیں لیکن کیونکہ بعض اوقات انکی سورہ کا تدریجی نزول کچھ وسائل کے موقعوں پر مثلًا جہاد میں منافقین کے سواء استفادہ کا سبب بنتا تھا تاکہ مرحلہ بہ مرحلہ اس سے پہلوتہی کرلیں، تو ایسے مواقع پر پوری سورۃ ایک ہی ساتھ نازل ہوجاتی تھی۔
یہ آخری چیز ہے جو ان دونوں تعبیروں کے فرق کے سلسلہ میں کہی جاسکتی ہے اور اس کے مطابق زیربحث آیات میں دونوں قسم کے نزول کی طرف اشارہ ہوا ہے اس لحاظ سے یہ کامل جاحیت رکھتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا تفسیر اور فرق کے استثنائی مواقع بھی موجود ہیں۔ منجملہ ان کے سوره فرقان کی آیہ 32 میں بیان ہوا ۔
وقال الذین کفروا لولانزل عليه القرأن جملة واحدة كذالك لنثبت
به فؤادك و رتلناه ترتیلا
کافروں نے کہا قرآن اکٹھا اور یکجا کیوں نازل نہیں ہوتا ؟یہ اس بنا پر ہے کہ ہم تیرے دل کو محکم کر
دیں ، اس لیے ہم نے اسے نہ تدریجًا تیرے لیے پڑھاہے۔
البتہ ان دونوں قسم کے "نزول" میں سے ہرایک کے کچھ فوائدو آثار ہیں، جن کی طرف متعلقہ جگہ اشارہ کیا گیا ہے ۔ ؎1
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 قرآن کے تدریجی نزول کے بارے میں ہم نے جلد 15 میں تفصیلی بحث کی ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------