دین کو شرک سے پاک کرو
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ۱إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ۲أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ۳
یہ صاحبِ عزت و حکمت خدا کی نازل کی ہوئی کتاب ہے. ہم نے آپ کی طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے لہٰذا آپ مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں. آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.
تفسیر
دین کو شرک سے پاک کرو
یہ سورہ قرآن مجید کے نزول سے متعلق دوآیات سے شروع ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک آیت میں تو نزول قرآن کے مبدا ء یعنی خدا کی پاک ذات کے متعلق بیان ہے اور دوسری آیت میں قرآن کے مطالب و مقاصد کے بارے میں گفتگو ہے۔
پہلے فرمایا گیا ہے : یہ کتاب ، خداوند عزیزوحکیم کی طرف سے نازل ہوئی ہے (تنزيل الكتاب من الله العزيزالحکیم)۔
ہر کتاب کو اس کے نازل کرنے والے یا لکھنے والے سے پہچاننا چاہیے اور جب مہیں معلوم ہوجائے کہ اس عظیم آسمانی کتاب سرچشمہ ایک قادر و حاکیم خدا کاعلم ہے جس کی ہے پایاں قدرت کے مقابلے میں کوئی چیز مشکل نہیں ہے اور کوئی امر اس کے لامتناہی علم مخفی نہیں رہتا تو ہمیں اس کے مضامین کی عظمت کا علم ہوجاتا ہے اور مزید کسی وضاحت کے بغیر ہی ہمیں یقین آ جاتا ہے کہ اس کے مطالب حق ہیں اور یہ سراسر حکمت ، نور اور ہدایت ہے۔
ضمنی طور پر قرآن کی سورتوں کے آغازمیں اس قسم کی تعبیریں مؤمنین کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ اس عظیم کتاب
میں جو کچھ بھٍی بیان کیا گیا ہے وہ خداکا کلام ہے ، پیغمبر کا کلام نہیں ہے اگرچہ پیغمبر اکرمؐ کا کلام بھی بلند مرتبہ اور حکیمانہ ہے۔
اس کے بعداس آسمانی کتاب کے مطالب ومقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے ، ہم نے اس کتاب کوخق کے سا تھ تجھ پر نازل کیا بے (انا انزلنااليك الكتاب بالحق)۔
اس میں حق کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور توحق کے سوا اور کوئی مطلب اس میں مشاہدہ نہیں کرے گا۔ اسی وجہ سے حق طلب لوگ
اس کی پیروی کرتے ہیں اور وادی حقیقت کے پیاسے اس کے مطالب کی جستجومیں لگے ہوئے ہیں۔
نیز اس کے نازل کرنے کا مقصد چونکہ انسانوں کو خالص دین پہنچانا ہے اس لیے آیت کے آخری مزیر فرمایا گیا ہے، اب جبکہ یہ بات ہے تو پھر خدا کی پرستش کر، اس حال میں کہ اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرلے" ( فاعبد الله مخلصًا لہ الدین )۔
ممکن ہے یہاں "دین" سے مراد خدا کی عبادت ہو کیونکہ اس سے پہلے "فاعبد الله" کے ذریرے عبادت کاحکم دیاگیا ہے
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 " تنزيل الكتاب " ایک مبتدائے محذوف کی خبر ہے اور تقدیرمیں اس طرح ہے :" هذا نتزيل الكتاب "
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ "تنزيل الكتاب " مبتداء ہے اور "من الله " اس کی خبر ہے۔ لیکن پہلا احتمال زیادہ صحیح نظرآتا ہے ۔ ضمنًا "تنزیل" میں مصدرہے جواسم مفعول کے معنی میں ہے اور صفت کی موصوف کی طرف اضافت بے یعنی " هذا کتاب. منزل من الله .. - - - - - "
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اس بنا پر اس کا لاحقہ جو "مخلصًاله الدين" ہے صحت عبادت کی شرط یعنی اخلاص اور ہرقسم کے شرک وریا اورغیرخداسے خالی ہونے کو بیان کرتا ہے۔
اس حالت میں "دین" کے مفہوم کی وسعت اور اس میں کسی شرط کانہ ہونا زیادہ وسیع معنی پر دلالت کرتاہے، جس میں عبادت بھی شامل ہے اور دوسرے اعمال بھی اور اعتقادات بھی ۔ دوسرے لفظوں میں "دین" انسان کی روحانی اور مادی حیات کے مجموعے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لہذاخدا کے خالص بندوں کو چاہیے ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام حالات کو اس کے لیے خالص بنائیں اور اس کے غیر کو خانہ دل، صحن جان اور میدان عمل اور دائر گفتار سے دور کر دیں ۔ اس کے لیے غورو فکرکریں۔ اسی کے لیے دوست بنائیں ۔ اسی کی بات کریں ۔ اسی کے لیے عمل کریں اور ہمیشہ اس کی رضا کی راہ میں قدم اٹھائیں ۔ کیونکہ "اخلاص دین یہی ہے۔
اسی بنا پرآیت کے مفہوم کو "لااله الا الله" ، کی شہادت میں یا خاص" عبادت و اطاعت" میں محدود کرنانہ تو ضروری ہے اورنہ ہی اس پر کوئی واضح دلیل موجود ہے ۔
بعد والی آیت میں دوبارہ مسئلہ اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : آگاہ ہوکہ دین خالص اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ (الاللہ الدين الخالص )
اس عبارت میں دو معانی کی گنجائش ہے
پہلایہ کہ : جسے خدا قبول کرتا ہے وہ صرف دین خالص ہے اور صرف اس کے فرمان کے سا منے بلاکسی شرط کے سر تسلیم خم کرناہے اور قسم کا شرک وریا اور قوانین خداوندی کوان کے غیر کے ساتھ ملانا مردود ومسترد ہے۔
دوسرا یہ کہ : خالص دین و آئین صرف خدا سے ہی لینا چاہیے کیونکہ جو کچھ انسانوں کے افکار کا ساخته و پرداختہ ہے وہ نارسا اور خطاو اشتباہ کی آمیزش رکھتا ہے۔
لیکن سابق آیت کے مفہوم کو پیش نظر رکھیں تو پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ، کیونکہ وہاں اخلاص کا باعث بندے ہیں۔ اس بنا پر زیر بحث آیت میں بھی خلوص کی انھیں کی طرف نسبت ہونی چاہیے۔
اس بات کا دوسرا شاہد وہ حدیث ہے جو پیغمبر گرامیؐ سے نقل ہوئی ہے ۔ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
یارسول الله و انا نعطي اموالنا التماس الذكر فهل لتا من اجل : فقال
رسول الله (ص) ،قال يارسول الله! أنا نعطى التماس الأجروالذكر،
فهل لنا اجر، فقال رسول الله (ص) أن الله تعالٰی لامن اخلص له ،
ثم تلا رسول الله (ص) هذه الاية الالله الدين الخالص ،
یارسول اللہ ! ہم اپنے اموال دوسروں کو بخشتے ہیں تاکہ ہم اپنا نام ونمود لوگوں کے درمیان پیدا کریں،
تو کیا ہمارے لیے کوئی اجرہے؟ فرمایا:نہیں۔
پھر ا س نے عرض کیا : ہم بعض اوقات خدا سے اجر کے حصول کے لیے بھی اور نام ونمود کے لیے بھی
بخشش کرتے ہیں توکیا اس صورت میں ہمارے لیے کوئی اجر و پاداش ہے۔
پیغمبراکرمؐ نے فرمایا : خدا کسی بھی چیز کو قبول نہیں کرتا سوائے اس کے جو اس کے لیے خالص ہو۔ پھرآپؐ نے
اس آیت کی تلاوت کی۔
لاله الدين الخالص ۔ ؎1
بہرحال یہ آیت حقیقت میں گزشتہ آیت کی دلیل بیان کر رہی ہے ۔ ہاں قرآن کہتا ہے : کہ خدا کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرواور یہاں اضافہ کرتا ہے : جان لے کہ خدا تو صرف اس خالص عمل کو قبول کرتا ہے۔
آیات قرآن اور احادیث اسلامی میں مسئلہ اخلاص پر بہت کچھ فرمایا گیا ہے۔ زیر بحث جملے کی ابتداء" ألا" کے ساتھ جو عام طور پر توجہ مبذول کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ، اسی موضوع کی اہمیت کی ایک اورنشانی ہے۔
اس کے مشرکین جو اخلاص کی راہ چھوڑ کر شرک کی بے راہ وی میں سرگرداں تھے کمزور او فضول منطق کو باطل کرتے ہوئے اس طرح فرمایا گیا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے خدا کے سوا دوسروں کو اپنے اولیاء بنالیا ہے اوران کی دلیل یہ ہے کہ ہم ان کی پرستش نہیں کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ہمیں خدا سے نزدیک کردیں، خدا قیامت کے دن جس چیزمیں وہ اختلاف کرتے ہیں ، ان کے درمیان فیصلہ کردےگا اور وہاں ان کے اعمال و افکار کی خرابی اور تباہی سب پر ظاہر ہو جائے گی ۔
(وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ اِنَّ اللّـٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَـهُـمْ فِىْ مَا هُـمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ)۔ ؎2
یہ آیت حقیقت میں مشرکین کے لیے ایک قاطع اور دو ٹوک تہدید ہے قیامت کے دن اختلافات کے برطرف بونے اور حقائق کے ظابرواشکار ہونے کا دن ہے کہ خدا ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی سزا د ے گا ۔ علاوہ ازیں وہ میدان محشر میں سب کے سامنے ذلیل و رسوا بھی ہوں گے۔
یہاں بت پرستوں کو منظق وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ:
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ بت پرستی کا ایک سرچشمہ یہ ہے کہ ایک گروہ اپنے گمان میں خدا کی پاک ذات کو اس سے بزرگ وبالا سمجھتا تھاکہ ہماری عقل وفکر اس تک پہنچ سکےاور اس بنیاد پر وہ اس سے منزہ سمجھتا تھا کہ ہم براہ راست اس کی عبادت کریں ۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ ہم ایسے افراد کی طرف رخ کریں جن کے ذمے خدا کی طرف سے اس عالم کی ربوبیت اور تدبیر کر دی گئی ہے اور انھیں خدا اور اپنے درمیان واسطہ بنائیں۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 روح المعاني ، جلد 23 ص 212 (زیربحث آیات کے ذیل ہیں)۔
؎2 یہ بات واضح ہے کہ زیربحث آیت میں" مانعبد هم " سے پہلے ایک جملہ مقدر ہے۔ "يقولون مانعبد هم............."
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
انھیں "ارباب" اورخداؤں کے طور پر قبول کرلیں اور ان کی پرستش کریں تاکہ وہ ہمیں خدا کے قریب کردیں اور وہ ملائکہ جن اور کلی طور پر کائنات کے مقدس موجودات ہیں۔
پھراس بنا پرمقدسین تک بھی دسترس ممکن نہیں تھی لہذا ان کی مورتیاں اور تصویریں بنالیاکرتے تھے اور ان کی پرستش کیا کرتے تھے، اوریہی بت تھے اورچونکہ وہ ان مورتیوں اورمقدسین کی ذوات کے درمیان ایک قسم کی وحدت کے قائل تھے لہذا وه بتوں کوبھی" ارباب" اورخدا خیال کرتے تھے۔
اس طرح سے ان کی نزدیک وہ موجودات ممکن ہی خداتھے جو خداوندعالم کی طرف سے پیدا کیے گئے تھے اور ان کے گمان میں وہ بارگاہ خق کے مقرب اور پروردگار کے حکم سے امور عالم کو چلانے والے تھے اور وہ خدا کو رب الارباب (خدائوں کا خدا) جانتے تھے جو عالم ہستی کا خالق اور آفریدگار ہے۔ ورنہ بت پرستوں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو عقیدہ رکھتے ہوں کہ ہہ پتھر اور لکڑی کے بت ان کے خیالی خدا یعنی فرشتے اور جن وغیرہ تک بھی اس جہان کے خالق و آفریدگارہوں۔ ؎1
البتہ بت پرستی کے اور بھی بہت سے سرچشمے ہیں منجملہ ان کے یہ ہے کہ انبیاء اور صالح لوگوں کا احترام بعض اوقات اس بات کا سبب بنتا تھا کہ ان کی تصویروں اورمورتیوں کا بھی احترام کریں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان تصویروں نے ایک مستقل صورت اختیارکرلی اوراحترام بھی پرستش میں تبدیل ہو گیا۔ اسی بنا پر اسلام مجمہ سازی کوسختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔
یہ چیز بھی تواریخ میں آئی ہے کہ زمانہ جابلیت کے عرب چونکہ کعبہ اور سرزمین مکہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، اس لیے بعض اوقات وہاں سے پتھر کے کہ کچھ ٹکڑے اپنے ساتھ مختلف علاقوں میں لے جاتے تھے ۔ پہلے تو صرف احترام کرتے اور پھرآہستہ آہستہ ان کی پرستش کر نے لگ جاتے۔
بہرحال یہ چیز اس بات جو "عمروبن لحی " کی داستان میں منقول ہے کوئی تضاد نہیں رکھتی کہ اس نے شام کے سفر کے موقع پر بت پرستی کے کچھ مناظر کا مشاہدہ کیا اور پہلی مرتبہ ایک بت اپنے ساتھ حجاز میں لے آیا اور بتوں کی پرستش اس وقت سے معمول بنی چونکہ جوکچھ ہم نے بیان کیا ہے ان میں سے ہر ایک بت پرستی کی کس ایک بنیاد کو بیان کرتا ہے اور شامیوں کے بتوں کی پرستش کرنے کا سبب بھی یہی امور ان جیسے امور ہیں۔
لیکن ہرصورت میں یہ سب بے بنیاد اوہام و خیالات تھے جو ناتوان دماغوں سے ٹپکتے تھے اور لوگوں کو خدا شناسی کے اصلی راستے سے منحرف کر دیتے تھے۔
قرآن مجید خصوصیت کے ساتھ اس نکتے پر تاکید کرتا ہے کہ انسان بغیری کسی واسطے کے خدا کے ساتھ تعلق پیدا کر سکتا ہے، اس سے گفتگو کر سکتا ہے ، رازو نیاز کرسکتا ہے، اپنی حاجت طلب کر سکتا ہے ، عفووبخشش کی درخواست کر سکتا ہے اور توبہ وانابت کرسکتا ہے، یہ سب چیزیں اسی لیے ہیں اسی کے اختیار و قدرت میں ہیں۔
سوره "حمد" اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے کیونکہ بند ے روزانہ نماز میں اس سورہ کے پڑھنے سے، دائمی طور پربراہ راست ا پنے پروردگار کے ساتھ رابط
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیر المیزان ، جلد 17 ص 274 (کچھ فرق کے ساتھ)۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
رکھتے ہیں اس کو پکارتے ہیں اور بغیر کسی وا سطے کے اس سے دعا کرتے ہیں اور اپنی حاجات طلب کرتے ہیں ۔
اسلامی احکام میں توبہ و استغفار کا طریقہ اور اسی طرح خدائے بزرگ سے ہرقسم کی درخواستیں، جن سے ہماری ماثورہ دعائیں بھری پڑی ہیں ، یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلام ان مسائل میں کسی واسطے کا قائل نہیں اور یہی حقیقت توحید ہے۔
یہاں تک کہ مسئلہ شفاعت اور اولیاء اللہ سے توسل بھی اذان پروردگاراوراس کی اجازت کے ساتھ مقید ہے او وہ بھی اسی مسئلہ توحید پرایک تاکید ہے۔
اسی طرح سے رابطہ قائم وبرقرار رہتایا ہے کیونکہ وہ ہم سے بھی، خود ہم سے بھی زیادہ قریب ہے، جیاکہ قرآن کہتا ہے:
ونحن أقرب اليه من حبل الوريد
ہم انسان کی شہ رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔ (ق ــــــــــــــ 16)
ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے
واعلموا ان الله یحول بین المرء و قلبه
جان لو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان رہتا ہے (انفال ــــــــــ24)
ان حالات میں نہ وہ ہم سے دور ہے اور نہ ہم اس سے دور ہیں کہ واسطے کی ضرورت پڑے۔ وہ دوسرے ہر شخص کی نسبت ہم سے زیادہ نزدیک ہے وہ ہر جگہ موجود و حاضر ہے اور ہمارے دل کے اندر اس کی جگہ ہے۔
اسی بنا پر واسطوں کی پرستش چاہے وہ فرشتے اور جن ہوں یا ان کے مانند دوسری مخلوق اور چاہے پتھر اور لکڑیوں کے بتوں کی پرستش ہو ، ایک بے بنیاد اور جھوٹا عمل ہے۔ علاوہ ازیں پروردگارکی نعمتوں کا کفران بھی ہے۔، کیونکہ نعمت کا بخشنے والا پرستش کا حقدار ہے ن کہ بے جان سرا پانیازواختیاج موجودات .
اس لیے آیت کے آخر میں قرآن کہتا ہے : خدا ایسے شخص کو جو جھوٹا اور کفران کرنے والا کبھی ہدایت نہیں کرتا (ان الله لا يهدي من هو كاذب کفار).
نہ اس جہان میں صراط مستقیم کی طرف ہدایت اورنہ دوسرے جہان میں جنت کی طرف ہدایت ، کیونکہ اس نے خود ہدایت کے سب دروازوں کے بند ہونے کی بنیاد فراہم کر دی ہے ، کیونکہ خدا اپنی ہدایت کا فیض اسی زمینوں پر بھیجتا ہے جو اسے قبول کرنے کےلائق اوراس کے لیے آمادہ ہوں ، نہ کہ ان دلوں میں جانتے ہوئے شعوری طور پر قسم کی اہلیت کو تباہ کردیں۔