Tafseer e Namoona

Topic

											

									    1- اس شیطان کے وجود کا فلسفہ

										
																									
								

Ayat No : 71-83

: ص

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ ۷۱فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ۷۲فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ۷۳إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ۷۴قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ ۷۵قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ۷۶قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ۷۷وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ۷۸قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۷۹قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ۸۰إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ۸۱قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ۸۲إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ۸۳

Translation

انہیں یاد دلائیے جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں. جب اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑنا. تو تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا. علاوہ ابلیس کے کہ وہ اکڑ گیا اور کافروں میں ہوگیا. تو خدا نے کہا اے ابلیس تیرے لئے کیا شے مانع ہوئی کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے تو نے غرور اختیار کیا یا تو واقعا بلند لوگوں میں سے ہے. اس نے کہا کہ میں ان سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے پیدا کیا ہے. ارشاد ہوا کہ یہاں سے نکل جا تو مررَود ہے. اور یقینا تیرے اوپر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے. اس نے کہا پروردگار مجھے روز قیامت تک کی مہلت بھی دیدے. ارشاد ہوا کہ تجھے مہلت دیدی گئی ہے. مگر ایک معّین وقت کے دن تک. اس نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا. علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے.

Tafseer

									  چنداہم نکات 
           1- اس شیطان کے وجود کا فلسفہ : 
 زیربحث آیات کے سلسلے میں بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں ، ان میں سے کچھ یہ ہیں : شیطان کی خلقت کا مسئلہ ، فرشتوں کے آدم کو سجدہ کرنے کی دلیل ، فرشتوں پر آدم کی برتری کی علت، اور یہ کہ شیطان کس قسم کے لوگوں پرتسلط جماتا ہے اور کبروغرور اور خود پرستی کا نتیجہ، سیاہ گیلی مٹی اور روح الٰہی سے مراد اورتکامل انواع کے مقا بلے میں
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1  تفسیر برهان جلد 2 ص 342 
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 آدم کی پیدائش اور اس کی مستقل خلقت کامسئلہ اوراسی قسم کے دوسرے مسائل۔ ان کے بارے میں ہم نے تفسیر نمونہ پہلی جلد میں سورہ بقره کی آیہ 34 کے ذیل میں، گیارہویں جلد میں سورہ حجر کی آیہ 26 کے ذیل میں اور چھٹی جلد سوره اعراف کی آیہ11 کے ذیل میں مفضل بحث کی ہے۔ 
 جس چیز کی ہم یہاں نئے سرے سے یاد دہانی کروانا ضروری سمجھتے ہیں وہ اس سوال کے بارے میں بے جوشیطان کی خلقت کے فلسفہ کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ 
 بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں اگر انسان تکال وارتقاء اور بندگی خدا کے ذریعے سعادت و نیک بختی کے حصول کے لیے پیدا کیاگیا ہے تو پھر شیطان کے وجود کی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ جو تکامل وارتقاء کے برخلاف ایک تباہ کن وجود ہے اور بھی ایک ہوشیار،  کینہ پرور ، مکار ، پرفریب اور اپنے ارادے کا پکا۔ 
 لیکن اگرہم تھوڑا سا بھی غور وفکر کریں تو جان لیں گے کہ اس دشمن کا وجود بھی انسانوں کے تکامل وارتقاء کے لیے ایک کا کمک ہے۔
  ہم دورنہ ہوجائیں ، ہمیشہ سخت دشمنوں کے مقابلے میں جمے اور ڈٹے رہنے والی طاقتیں ہی جاندار ہوتی ہیں اور وہ اپنی ارتقائی منزلوں کو طے کر تی ہیں ۔ 
 تجربه کار اور طاقت ور کمانڈر اور میدان جنگ کے سپاہی دی ہوتے ہیں جو بڑی بڑی جنگوں میں سخت ترین دشمنوں کے ساتھ نبرد آزما رہے ہوں ۔ 
 تجربہ کار اور طاقت ورسیاست دان وہی ہوتے ہیں جو سخت سیاسی بحرانوں میں طاقتور دشمنوں کے ساتھ  پنجہ آزمائی کیے ہوۓ ہوں۔
 کُشتی کے عظیم ہیرو اور بڑے پہلوان وہی ہوتے ہیں جنھوں نے سخت طاقتور حریفوں کے ساتھ زور آزمائی کی ہو۔ 
 اس بناپریہ تعجب کی کون سی بات ہے کہ خدا کے عظیم بندے شیطان کے مقابلے مسلسل اور پے در پے جہاد کرتے رہنے سے روزبروز زیادہ قوی ہوتے چلے جائیں ۔ 
 موجودہ زمانہ کے ماہرن، مزاحمت کرنے والے جراثیوں کے وجود کے فلسفہ کے بارے میں کہتے ہیں : اگر وہ (جراثیم) نہ ہوتے تو انسان کے بدن کے خلیے سست اور کاہل ہوجاتے اور احتمال ہے کہ انسانوں کے بدن کی نشونما 80 سنٹی میٹر سے زیادہ نہ ہوتی ،سب کے سب بونے آدمیوں کی صورت میں ہوتے ، اوراس طرح سے آج کے انسانوں نے مزاحمت کرنے والے جراثیموں کے ساتھ جسمانی مقابلے کی وجہ سے زیادہ طاقت اور نشو ونماحاصل کی ہے۔ 
 یہی (ارتقائی صورت) روح انسانی کی شیطان اور ہوائے نفس سے مقابلہ کرنے میں ہوتی ہے۔ 
 لیکن ا س کا معنی نہیں ہے کہ شیطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بندگان خدا کو گمراہ کرے ۔ شیطان پہلے دن سے دوسرے و موجودات کی طرح پاک و پاکیزہ  خلقت رکھتا تھا ۔ انحراف ، اخطاط، بدبختی اور شیطنت خود اس کے ارادے اور خواہش سے  اسے ملی ۔ اس بنا پر خدا نے شیطان کو پہلے دن سے شیطان پیدا نہیں کیا ۔ اس نے خود چاہا کہ وہ شیطان ہو، لیکن اس کے باوجود اس کی شیطنت نہ صرف یہ کہ حق طلب بندوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ ان کے لیے ترقی کا زینیہ ہے۔ 
      (غور کیجیے گا)
 البتہ یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خدا نے اس کی زندگی کو برقرار رکھنے کی درخواست کو قبول کیوں کیا اور فورًا ہی اسے نابود کیوں نہ کر دیا ؟
 اس کا جواب وہی ہے جو ستور بالامیں بیان کیا گیا ہے اور دوسرے لفظوں میں: 
  "عالم دنیا آزمائش اور امتحان کا میدان ہے (ایسی آزمائش جوانسانوں کی پرورش اورتکامل کا ذریعہ 
  ہے) اور ہم جانتے ہیں کہ آزمائش سخت ترین دشمنوں ، طوفانوں اور بحرانوں سے مقابلہ کیے بغیر
  ممکن نہیں"۔ 
 البتہ اگر شیطان نہ بھی ہوتا تو بھی ہوائے نفس اورنفسانی وسوسے انسان کو آزمائش کی کٹھالی میں ڈالتے ، لیکن شیطان کے ہونے سے آزمائش کا یہ تنور زیادہ گرم ہوگیا، کیونکہ شیطان کی بیرونی عامل ہے اور ہواۓنفس عامل اندرونی ہے۔ 

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ