Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تکبرکیااورراندۂدرگاہ ہوگیا

										
																									
								

Ayat No : 71-83

: ص

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ ۷۱فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ۷۲فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ۷۳إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ۷۴قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ ۷۵قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ۷۶قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ۷۷وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ۷۸قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۷۹قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ۸۰إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ۸۱قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ۸۲إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ۸۳

Translation

انہیں یاد دلائیے جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں. جب اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑنا. تو تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا. علاوہ ابلیس کے کہ وہ اکڑ گیا اور کافروں میں ہوگیا. تو خدا نے کہا اے ابلیس تیرے لئے کیا شے مانع ہوئی کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے تو نے غرور اختیار کیا یا تو واقعا بلند لوگوں میں سے ہے. اس نے کہا کہ میں ان سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے پیدا کیا ہے. ارشاد ہوا کہ یہاں سے نکل جا تو مررَود ہے. اور یقینا تیرے اوپر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے. اس نے کہا پروردگار مجھے روز قیامت تک کی مہلت بھی دیدے. ارشاد ہوا کہ تجھے مہلت دیدی گئی ہے. مگر ایک معّین وقت کے دن تک. اس نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا. علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے.

Tafseer

									  تفسیر 
               تکبرکیااورراندۂدرگاہ ہوگیا 
 یہ آیات جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ملا اعلٰی کے بارے میں اور ابلیس کی گفتگو سے متعلق ہے۔ اور مجموعی طور اس واقعے کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے تو انسانوں کو یاد دلایا جائے کہ ان کا وجود کتنا قیمتی ہے کہ تمام فرشتے ان کے جد امجد آدم کے لیے سجدہ میں گرپڑے۔ اسی بڑی حیثیت کا مالک انسان کسی طرح شیطان اورہواۓ نفس کے چنگل میں اسیر ہو جاتا ہے کس طرح اپنی قدر وقتیت کو نظرانداز کر کے گھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کرنے لگتا ہے؟ 
 اصولی طور پرتربیت کے موثر طریقوں میں سے ایک ، زیر تربیت افراد کو ان کی عظمت کا احساس دلانا ہے یا زدیادہ صحیح لفظوں میں اس طرح سے ان کی بلند حثیت اور ان کے وجود کی قدر قیمت انھیں یاد دلانا کہ انسان خود بخود محسوس کرنے لگے کہ انحطاط اور پستی اس کی شان کے لائق نہیں اور خودبخود ان سے کنارکشی کرلے۔ 
 ثانیًا شیطان کی ہٹ دھرمی اور اس کا تکبراور حسد سب ہٹ دھرم اور مغرورافراد کے لیے ایک تنبیہ اور عبرت ہے کیونکہ یہی اس بات کا سبب بن گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے افتخار کی بلندی سے نیچے گر جائے اور لعنت کی گندگی میں جاگرے 
  ثالثًا ایک ایسے بڑے دشمن کی خبر دی گئی ہے جس نے تمام انسانوں کوگمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے تاکہ سب ہوش میں رہیں اور 
اس کے دام فریب میں نہ پھنسیں۔ 
 یہ امور مجموعی طور پر گزشتہ بحث کا تسلسل ہیں۔ 
 بہرحال زیر بحث پہلی آیت میں فرمایاگیا ہے : اس وقت کو یاد کر جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں گیلی مٹی سے ایک بشر پیدا کروں گا ۔ ( اذ قال ربك للملائكة الي خالق بشرا من طين) ۔
 لیکن اس بنا پر کہ یہ تصور نہ ہو کہ انسانی وجود کا صرف وہی خاکی پہلو ہے۔ بعد والی آیت میں فرایاما گیا ہے : اورجس وقت میں اسے منظم کرلوں اور درست بنالوں اور اپنی روح میں سے (اشرف اورمتاز روح جسے میں نے خلق کیا ہے) اس میں پھینک دوں تو تم سب کے سب اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا (فاذا سويته و نفخت فيه من روحي فقعوا له ساجدين )۔
   ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس طرح سے انسان کی خلقت مکمل ہوگئی اور خدا کی خاص روح اور سیاہ گیلی مٹی آپس میں مل گئے اور ایک عجیب و غریب بالکل نیا وجود کی بلندی و پستی دونوں بے انتہا ہیں پیدا ہوگیا اور ایک انتہائی زیادہ استعداد رکھنے والا جو "خلیفۃ اللہ" ہونے کے لائق ہو عرصہ وجود میں وارد ہوا ۔" اور اس وقت بغیرکسی استثناء کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا"۔ (فسجد الملائكة کمهه اجمعون)۔
  اور اس حالت کوحمدوستائش کے لائق جانا -  ع

    کاروچنیں دل آویز نقشی زماء وطینی 
               جس نے اس قسم کا دل اویز نقش پانی اور مٹی سے بنایا ہے 
   ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 لیکن "صرف ایک جس نے سجدہ نہیں کی ابلیسں تھا ، اس نے تکبر کیا اور سرکشی کی اور اسی بنا پر اپنے باعظمت مقام سے نیچے گیرگیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔(الا ابليس استكبر وكان من الكافرين)۔ 
 ہاں!  انسان کے لیے بدترین بلائے جان بھی یہی کبر و غرور ہے جو جہالت کے تاریک پردے اس کی چشم بینا پر ڈال دیتا ہے اور اسے حقائق کے ادراک سے محروم کر دیتا ہے ، اسے سرکشی پرابھارتا ہے اور مومنین کی صف سے نکال دیتا ہے کہ جو خدا کے مطیع بندوں کی صف ہے اور اسے کافروں کی صف میں پہنچا دیتا ہے کہ جو باغیوں اور سرکشوں کے ساتھ ہوا۔ اس موقع پرخدانے ابلیس سے مؤاخزہ کیا اور باز پرس کی۔ فرمایا اے ابلیسں ! اس مخلوق کو سجدہ کرنے سے تمھیں کس نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا تھا۔ (قال يا ابليس ما منعك أن تسجد لما خلقت بیدی )۔  
 یہ بات ظاہر ہے کہ "یدی" (دونوں ہاتھ)  کی تعبیرحسی ہاتھوں کے معنوں میں نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ ہرقسم کے جسم وجسمانیت سے پاک و منزہ ہے، بکہ یہان پر ہاتھ قدرت کے معنی کے لیے کنایہ ہے کیونکہ عام طور پر انسان اپنی طاقت کو ہاتھ سے عمل میں لانا ہے۔ اس لیے روزمرہ کی گفتگو میں یہ لفظ قدرت کے معنی میں فراوانی سے استعمال ہوتا ہے۔  کبھی کہا جا تا ہے کہ فلاں ملک فلاں گروہ کے ہاتھ میں ہے یا فلاں عبادت خان یا عمارت فلاں شخص کے ہاتھ سے بنی ہے ، کبھی کہا جاتا ہے کہ میرا ہاتھ وہاں تک نہیں پہچتا یا تیرا ہاتھ پر ہے تو ان میں کہیں بھی لفظ ہاتھ مخصوص عضو کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ سب کے سب قدرت و تسلط کے مفہوم کے لیے کنایہ ہیں۔ 
 چونکہ انسان اہم کاموں کو دونوں ہاتھوں سے انجام دیتا ہے اور دونوں ہاتھوں کو کام میں لگانا انسان کی کسی چیز کے لیے انتهائی توجہ اور لگاؤ کی نشانی ہے، لہذازیر بحث آیت میں اس تعبیر کا بیان ، انسان کی خلقت میں پروردگار کی خصوصی عنایت اور اس کی قدرت مطلقہ کوعمل میں لانے کے لیے کنایہ ہے۔ 
 اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے: کیا تو نے تکبر کیا، یا تو اس سے بالا ترتھاکہ تجھے سجدے کاحکم دیا جائے ۔(استكبرت ام كنت من العالین )۔ 
 بلا شک و شبہ کوئی بھی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ اس کی قدر ومنزلت اس سے بالاتر ہے کہ وہ خدا کے لیے سجدہ کرے (یاخدا کے حکم سے آدم کے لیے سجدہ کرے) اس بنا پر آخری راه تو باقی رہ جاتی ہے وہی دوسرا احتمال یعنی تکبر ہے۔ 
 بعض مفسرین "عالین" کو یہاں ایسے افراد کے معنی میں سمجھتے ہیں جو ہمیشہ کبروغرور میں رہیں۔ اس بنا پر اس جملے کا معنی یہ ہوگا : کیا تو نے اب اس وقت ہی تکبرکیا ہے یا تو ہمیشہ سے ہی ایسا تھا ؟ 
 لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب نظرآتا ہے۔ 
 البتہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ابلیس نے دوسری شق کو انتخاب کیا اور وہ یہ عقیدہ رکھا تھاکہ وہ اس سے برتر ہے کہ اسے اس قسم کا حکم دیا جائے لہذا انتہائی جسارت کے ساتھ فرمان خدا کی مخالفت کرنے کے لیے ملیں دینے لگا اور کہا : میں اس (آدم ) سے بہتر ہوں، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گیلی مٹی سے (قال انا خير منه خلقتنی من نار وا ما خلقته من طين)۔ 
 وہ حقیقت میں اپنے خیال کے مطابق تین حوالوں سے فرمان خدا کی نفی کرنا چاہتا تھا۔
 پہلا یہ کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور وہ مٹی سے جوایک حقیقت بھی تھی ، جیسا کہ قرآن مجید نے خود کہا ہے ۔ 
  خلق الانسان من صلصال کالفخار وخلق الجان من مارج من نار 
  خدا نے انسان کو خشک شدہ اس (کھنکتی) مٹی سے پیدا کیا جااینٹ یا پیالے کی مانند تھی اورجنوں کو (جن میں
  سے ابلیس میں بھی تھا) آگ کے شعلے سے خلق کیا۔ 
    (الرحمٰن ــــــ 14 ، 15) 

 دوسرایہ کہ جو آگ سے پر کیا گیا ہے وہ اس سے برتروافضل ہے جسے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ، کیونکہ آگ مٹی سے افضل و برتر ہے۔ 
 تیسرایہ کہ اشرف وافضل موجود کو ہرگزیہ حکم نہیں دیناچاہیے ک وہ غیراشرف کے سامنے سجدہ کرے۔ 
 ابلیسں کا سارا اشتباه اورغلطی ان دو آخری پہلوؤں میں تھی۔ 
 کیونکہ اول تو آدم  صرف مٹی سے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کی غظمت اس روح الٰہی کی وجہ سے تھی جوان میں پھونکی گئی تھی ، ورنہ مٹی کہاں اور یہ سارے افتخار، استعداد اور تکامل کہاں؟ 
 دوسرے مٹی نہ صرف یہ کہ آگ سے کمتر نہیں ہے بلکہ اس سے کئی درجے برتر ہے، کیونکہ ساری زندگی اور منابع حیاتی مٹی سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تمام تر نباتات ، پھول پھل اور تمام زنده موجودات مٹی سے ہی وجود پاتے ہیں۔ تمام گراں بہا معدنیات مٹی کے اندر چھپی ہوئی ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ مٹی انواع و اقسام کی برکات کا منبع ہے۔ جبکہ آگ اپنی پوری اہمیت کے باوجود جو اسے زندگی میں حاصل ہے ہر گز اس کے مر تبے نہیں پہنچ سکتی، اور وہ صرف مٹی کے منابع سے استفادہ کرنے کا ایک آلہ ہے اور وہ بھی خطرناک آلہ اور پھرآگ پیداکرنے والے موادبھی زیادہ تر زمین کی برکت سے وجود میں آتے ہیں (ایندھن کوئلہ ، تیل اور پٹرول وغیرہ)۔ 
 تیسرمسئلہ اطاعت حکم الٰہی کا ہے۔ سب کے سب اسی کی مخلوق اور بندے ہیں ، لہذا انھیں اس کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیے۔ 
 بہرحال اگر ہم ابلیسں کے استدلال کا تجزیہ و تحلیل کریں تو وہ ایک عجیب و غریب کفراس کی بنیاد ہے۔ وہ اپنی اس گفتگو سے چاہتا تھاکہ خدا کی حکمت کی بھی نفی کرے اور اس کے امر کو بھی ،(نعوذ باللہ) کے مآخد و بے مدرک شمار کرے اور اس کا یی اعتراض اس کی انتہائی جہالت کی دلیل ہے، کیونکہ اگر وہ یہ کہتاکہ میری ہوائے نفس مانع ہوئی ہے یا کبروغرور نے مجھے اجازت نہیں دی اوراسی طرح کا کوئی اور عذر تو اس نے صرف ایک گناہ کا اظہار کیا ہوتا ، لیکن اب جبکہ اس نے اپنے عصیان کی توجہیہ کے لیے پروردگار کی حکمت اوراس کے علم کی نفی کی ، تو یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس نے کفر کے پست ترین مرحلے کی طرف سقوطا کیا۔ 
 علاوہ ازیں مخلوق اپنے خالق کے مقابلے میں اپنی طرف سے کوئی استقلال نہیں رکھتی، جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے اور شیطان کا لب ولہجہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے لیے پروردگار کی حاکمیت کے مقابلے میں حاکمیت و استقلال کا قائل تھا، اور یہ کفر کا ایک اورسرچشمہ ہے۔ 
 بہرحال شیطان کی گمراہی کا عامل خودپرستی ، غرور ،جہل اور حسد کا مرکب تھا۔ 
 یہ سب کی سب شیطانی صفات اکٹھی ہو گئیں اور اسے جو سال ہا سال سے ملائکہ کا اہم نشیں بلکہ ان کا معلم تھا، اس بلندی اور افتخارسے نیچے لائیں اور یہ بری صفات جہاں کہیں بھی پیدا ہو جائیں ــــــــ کس قدر خطرناک ہیں؟ 
 نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں علیؑ  کے ارشاد کے مطابق۔ 
 اس نے ہزارہا سال تک پروردگار کی عبادت کی تھی لیکن گھڑی بھر کا تکبر اس سب کو ہم کو جہنم کی طرف کھینچ کرلے گیا اور سب کچھ برباد کردیا۔؎1  
 ہاں! ایک اہم اور عظیم عمارت کو تعمیرتو سال ہا سال میں کیا جاتا ہے لیکن اسے ایک طاقت در بم کے ساتھ ایک ہی لمحہ میں تباہ کیا جاسکتا۔
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  
 یہی موقع تھا جبکہ اس پلید وجود کو ملااعلٰی اور عالم بالا کے فرشتوں کی صفوں سے نکال دیا جانا چاہیے تھا۔ لہذا خدا نے اسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آسمان بریں سے فرشتوں کی صفوں سے نکل جا ، کیونکہ تو میرا رانده درگاہ ہے ( قال فاخرج منها فانك رجیم)۔ 
 " فاخرج منها" میں ضمیر ممکن ہے صفوف ملا ئکہ یا عوالم بالا یا بہشت یاخدا کی رحمت کی طرف اشارہ ہو۔ 
 ہاں اس نامحرم کویہاں سے چلے جانا چاہیے، کیونکہ یہ اس جگہ کے لائق نہیں ہے۔ برتو پاکیزہ اور مقرب لوگوں کی جگہ ہے یہ آلوده سرکش اور تاریک دلوں کی جگہ نہیں ہے۔ 
 "رجیم"  "وجم" کے مادہ سے سنگسار کرنے کے معنی میں ہے اور چونکہ اس کا لازمہ طرد دینا (نکالنا، بھگتا اور دھتکارنا) ہے لہذا کبھی یہ لفظ اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کے بعد مزید فرمایاگیا ہے ، یقینًا میری لعنت قیامت کے دن تک تجھ پڑتی رہے گی اور تو ہمیشپ میری رحمت سے دور رہے گا (وان عليك لعنتي الى يوم الدين )۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــ
 اہم بات یہ ہے کہ جس وقت انسان اپنے اعمال بد کا برانتیجہ دیکھے تو بیدار ہوجائے اور اس کی تلافی کی فکر کرے۔  لیکن اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز خطرناک نہیں ہے کہ وہ اس طرح سے غرور اور ہٹ دھری کے گھوڑے پر سوار رہے اور ہلاکت کے گڑھے کی طرف چلتا ہی چلا جائے۔ یہی وہ مقام ہے جبکہ اس کا فاصلہ لمحہ بہ لو صراط ستقیم سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہی وہ بدبختی تھی جس نے ابلیس کا دامن پکڑلیا۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 امیرالومنین علی علیه استلام فرماتے ہیں ۔ 
 فاعتبروا بما كان من فعل الله بابليس اذا حبط عمله الطويل وجهده الجهيد و كان 
 قدعبدالله ستة الاف سعة..عن کبر ساعة واحدة فمن ذا بعدا بلیس یسلم 
 على الله بمثل معصيته 
 خدا کے بندو! عبرت حاصل کرو اس سے جوخدانے ابلیسں کے بارے میں انجام دیا کہ اس کے طولاني اعمال اور فراواں کششوں کوــــــ جبکہ اس نے چھ ہزار سال تک عبادت کی تھی ــــــایک گھڑی بھر کے تکبرسے برباد کر دیا تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کوئی خشص وہی ابلیسں والا کام انجام دے اور خدا کے غضب سے امان میں رہے 
  (نہج البلاغہ خطبہ 192 - خطبه قاصعه)
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 یہ وہ مقام تھا جہاں "حسد" کینہ میں بدل گیا ، ایساکینہ جوسخت اور جڑیں پیدا کرلینے والا تھا۔ جیساکہ قرآن کہتا ہے : 
 اس نے کہا : میرے پروردگار! مجھے قیامت کے دن تک جب انسان قبروں سے اٹھائے جائیں گئے مہلت دے (قال سالب فأنظرني الٰى يوم يبعثون ) - 
 کیاایسی مہلت جس میں اپنی ماضی پر اشک حسرت وندامت بہاؤں ؟ کیا ایسی مہلت جس میں میں اپنے قبیع اور برے گناہوں کی تلافی کروں ؟ نہیں ! نہیں ! مجھے تو ایسی مہلت درکار ہے جس میں میں آدم کی اولاد سے انتقام لوں اور سب کو گمراہی کی طرف کھینچ کرلےجاؤں۔ اگرچہ ان میں ہر ایک کی  گمراہی ، گناہ کا ایک نیا بھاری بوجھ میرے دوش پر رکھ دے گی اور مجھے کفرو عصیان کے منجمدار میں زیادہ سے زیادہ نیچے لے جائے گی۔ بائے افسوس ! وہ کون سی مصیبت ہے جو ہٹ دھرمی ، کبروغرور اورحسد کے ہاتھوں لوگوں کےسروں پر وارد نہیں ہوتی؟ 
 حقیقت میں وہ چاہتا تھا کہ آخری حد تک ممکن وقت تک آدم کی اولادکوگمراہ کرتا رہے اور چونکہ قیامت کا دن زمہ داری کے ختم ہونے کا دن ہے اور اس کے بعد وسوسہ اور اغوا کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی چاہتا تھاکہ اس درخواست کے زریعے موت کو اپنے آپ سے دور کر دے اور قیامت تک زندہ رہے ، اگر چپ ساری دنیا کے لوگ دنیا سے چل بسیں۔ 
     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 یہاں مشیت الٰہی نے ان دلائل ووجوہ کی بنا پر ۔ جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے ۔ اقتضاء کیا کہ ابلیس کی یہ خواہش پوری ہو جائے۔ لیکن معطلق طور پر نہیں بلکہ مشروط صورت میں جبسا کے بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے، فرمایا ، تھے مہلت دی گئی (قال فانك عن المنظرين)۔ 
     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
 لیکن قیامت کے دن اور مخلوق کے مبعوث ہونے اور قبروں سے اٹھنے کے دان نہیں بلکہ "ایک معین دن اور زمانے تک کے لیے۔ (الٰى يوم الوقت المعلوم)۔ 
 اس بارے میں کہ ”يوم الوقت المعلوم"  کون سا دن ہے مفسرين نے مختلف تفسریں کی ہیں۔ 
 بعض تو اسے اس جہان کا اختتام سمجھتے ہیں ، کیونکہ اس دن تمام زند موجودات مر جائیں گئے اور صرف خدا کی ذات پاک باقی رہ جائے گی ۔ جیسا کہ سورہ قصص کی آیہ 88 میں بیان ہوا ہے۔ 
  كل شيء هالك الا وجهه 
  اور اسی طرح سے ابلیس کی خواہش کا ایک حصہ منظور کر لیا گیا۔ 
 بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے لیکن یہ احتمال نہ تو زیر بحث آیات کے ظاہری مفہوم کے سادہ کہ ہم آنگ ہے کیونکہ ان کا لب ولہجہ بتاتا ہے کہ اس کی تمام خواہش کے سا تھ موافقت نہیں ہونی اور نہ ہی قرآن کی دوسری آیات کے ساتھ جو اس جہان کے اختتام پر تمام زندوں کی موت کی خبردیتی ہیں۔  

 یہ احتمال بھی ہے یہ آیت ایسے زمانے کی طرف اشارہ ہوجسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ 
 لیکن پہلی تفسیر سب سےزیادہ مناسب ہےلہذا ایک روایت میں جو تفسیربرہان میں امام صادقؑ سےنقل ہوئی ہے،آیا ہے کہ ابلیس نفخہ اول اوردوم کےدرمیانی عرصےمیں مرجائےگا۔؎1 
 وہ منزل تھی جہاں ابلیسں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی بات کوظاہرکردیااورجاودانی کا تقضاکرنے کے لیے اپنے اصل مقصد کی نشاندہی کر دی اورکہا : تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمرہ کروں گا (قال فبعزتك لأغوينهم اجمعين)۔ 
 " عزت" کی قسم، قدرت پر بھروسہ اور توانائی کے اظہار کے لیے ہے اور پے در پےتاکیدیں (قسم، نون تاکید ثقیلہ اور اجمعین لفظ) اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ اپنے عزم وارادہ میں انتہائی ثبات و استقامت رکھتا تھا اور رکھتا ہے اور آخری سانس تک وہ اپنی بات پر اڑا ہوا ہے۔ 
 لیکن وہ اس حقیقت سے آگاہ تھاکہ خدا کے خاص بندوں کا ایک گروہ ا س کے اثرونفوز سے بابررہے گا اور اس کے وسوسے میں نہیں آئے گا ، لہذا مجبورًا انھیں اپنی اوپر والی گفتگو نے مستثنٰی کرتے ہوئے کہتا ہے:" مگر ان میں سے جو تیرے مخلص بندے ہوں گے  (الاعبادك منهم المخلصين)۔ 
 وہی لوگ جو تیری معرفت و بندگی کی راہ میں اخلاص اورصدق وصفاسے قدم بڑھائیں گے ، جنھیں تو نے بھی قبول کرلیا ہے اور انھیں خالص کیا ہے اور انھیں اپنی حفاظت میں لے لیا ہے ، صرف یہی گروہ ہے جن تک میں کوئی دسترس نہیں رکھتا۔ ورنہ باقی سب کو اپنے فریب کے جال میں پھنسالوں گا۔ 
 اتفاق کی بات ہے کہ ابلیس کا یہ اندازہ اور گمان درست نکلا اور ہر کوئی کسی نہ کسی طرح سے اس کے جال میں پھنس گیا۔ اور "مخلصین" کے علاوہ کوئی اس سے نہ بچا۔ جیساکہ قرآن سوره سبا کی آیہ 20 میں کہتا ہے: 
  ولقد صدق عليهم ابليس ظنه فاتبعوه الافريقًا من المؤمنين 
  ان کے بارے میں ابلیس کا گمان سچ نکلا اور مومنین کے ایک گروہ کے سوا سبھی نے اس کی پیروی کی۔ 

     ــــــــــــــــــــــــــــــ