Tafseer e Namoona

Topic

											

									   سرکشوں کی سزا

										
																									
								

Ayat No : 55-61

: ص

هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ ۵۵جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمِهَادُ ۵۶هَٰذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ ۵۷وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ ۵۸هَٰذَا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًا بِهِمْ ۚ إِنَّهُمْ صَالُو النَّارِ ۵۹قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَبًا بِكُمْ ۖ أَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ فَبِئْسَ الْقَرَارُ ۶۰قَالُوا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هَٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ ۶۱

Translation

یہ ایک طرف ہے اور سرکشوں کے لئے بدترین بازگشت ہے. جہّنم ہے جس میں یہ وارد ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے. یہ ہے عذاب اس کا مزہ چکھیں گرم پانی ہے اور پیپ. اور اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی ہیں. یہ تمہاری فوج ہے اسے بھی تمہارے ہمرا ہ جہّنم میں ٹھونس دیا جائے گا خدا ان کا بھلا نہ کرے اور یہ سب جہّنم میں جلنے والے ہیں. پھر مرید اپنے پیروں سے کہیں گے تمہارا بھلا نہ ہو تم نے اس عذاب کو ہمارے لئے مہیاّ کیا ہے لہٰذا یہ بدترین ٹھکانا ہے. پھر مزید کہیں گے کہ خدایا جس نے ہم کو آگے بڑھایا ہے اس کے عذاب کو جہّنم میں دوگنا کردے.

Tafseer

									  تفسیر
                     سرکشوں کی سزا   
 گزشتہ آیات میں پرہیزگاروں کیلے سات نعمتوں اوربے بہا عنایات کو شمار کیا گیا تھا اور زیربحث آیات میں قرآن کی موازنے کی روش کے مطابق خدائے سرکشوں اوراطاغیوں کی منحوس سرونوشت اور محتلف  سزاوں کو شمار کیا گیا ہے۔ 
 پہلے ارشاد ہوتا ہے: جو کچھ اب تک بیان کیاگیا ہے وہ تومتقیوں کی جزا ہے اور طغیان گروں کے لیے بدترین جائے بازگشت  ہے۔ (هذاوان للطاغين لشرماب)۔ ؎1 
  "متقین"  "حسن مآب" رکھتے تھے اوریہ "شرماب" بری جائے بازگشت او براانجام۔ 
 اس کے بعداجمال تفصیل کے انداز سے سربستہ جملے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : یہ منحوس جائے بازگشت اور برا ٹھکانا وہې دوزخ ہے جس میں وہ داخل ہوں گے اور اس کی آگ میں جلیں گئے اور کیا ہی برابستر ہے جہنم کی آگ (جهنم يصلونها فبئس المهاده)۔ ؎2 
 گویا یصلونها - (جہنم میں داخل ہوں گے اور اس کی آگ میں جلیں گے) اس چیز کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ وہ صرف جہنم کو دور سے دیکھیں گے یا اس کے کہیں آس پاس ہوں گئے۔ نہیں ! بلکہ وہ اس کے اندر داخل ہوں گے اورکوئی شخص یہ وہم بھی نہ کرے کہ وہ جہنم کی آگ کے عادی ہو جائیں گے اوراس سے مانوس ہوجائیں گے۔ نہیں ، بلکہ وہ ہمیشہ اس میں جلا کریں گے۔ 
 "مهاد" ۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ۔ اس بستر کے معنی میں ہے جو سونے اور آرام کرنے کے لیے بچھایاجاتاہے۔ بچے کے گھوارے کر بھی "مهاد" کہاجاتا ہے۔ 
 بستر چونکہ آرام کرنے کی جگہ ہوتا ہے اس لیے اسے ہر لحاظ سے مناسب حال اور نرم ہونا چاہیے لیکن کیا حال ہوگا ان لوگوں جن کا بستر جہنم کی آگ ہوگی ؟  
   ــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کے بعدان کے لیے دوسرے عذاب بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے: بی حمیم وغساق مشروب ہے جسے انہیں چکھنا ہوگا (هذا فليذوقوه حمیم غساق) ۔ ؎3 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     "هذا" مبتدا ہے اوراس کی غیر محزوف ہے اور تقدیراس طرح ہے۔ هذا الذي ذكرناه للمتقين 
  ؎2     "جهنم" عطف بیان ہے یا "شرماب" سے بدل ہے اور "یصلونها" اس کا حال ہوگا۔ 
  ؎3    یہ جملہ اصل میں "هذا حميم وغساق فليذوقوه"  تھا۔ لیکن تاکید کے لیے فليذوقوه کا جملہ مبتدا و خبر کے درمیان اور بطور فاصلہ آ گیا ہے بعض مفسرین نے احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ "هذا" مبتدائے محزوف کی خبر ہے " حمیم وغساق" بھی اسی طرح ہیں اور تقدیر میں اس طراح ہے . " العذاب هذا فليذوقوه، لهذ احميم وغساق لیکن پہلا احتمال زیادہ بہتر ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 "حمیم" گرم اور جلاڈالنے والے پانی کے معنی میں ہے جو دوزخیوں کے مشروبات میں سے ایک ہے۔ یہ کئی قسم کی شراب طهور کے مقابلے میں ہے جوگزشتہ آیات میں بہشتیوں کے لے بیان ہوئی ہے۔ 
 "غساق"   "غسق " (بروزن "رمق" ) کے مادہ سے ، رات کی تاریکی کی شدت کے معنی میں ہے۔ ابن عباس نے اسے ایک بہت ہی سرد مشروب سے (جو ٹھنڈک کی شدت سے انسان کے اندر کو جلاکر زخمی کر دے گا) تفسیر کی ہے۔ لیکن اس لفظ کے مفهوم کی اصل بنیادیں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جواس معنی  پر دلالت کرے، سوائے اس کے کہ اس کا مقابلہ "حمیم"  سے کیا جائے جو گرم اور جلانے والا پانی ہے۔ ممکن ہے یہی امراس قسم کے استنباط کا سبب بنا ہو۔ 
 راغب نے مفردات میں اس کی ان قطرات اور پیپ سے تفسیر کی ہے جودوزخیوں کی جلد سے (اوران کے بدن کے زخموں سے) باہر آئیں گے۔
 ضروری طور پر اس کا سیاه رنگ ہونا، اس لفظ کے اس پر اطلاق ہونے کا سبب بنا ہے۔ چونکہ اس جلاڈالنے والی آگ کا نتیجہ ایک مٹھی بھر جلے ہوئے بدن سے سیاہ راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا ۔ 
 بہرحال کچھ کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ "غساق "  کی بواتنی بری اور تکلیف دہ ہوگی کہ سب کو پریشان کر دے گی۔ 
 بعض دوسرے مفسرین نے اسے عذاب کی ایک ایسی قسم قراردیا ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہ ایسے گناہوں اورسخت مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں جن سے خدا کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں تھا لہذا ان کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہیئے۔ 
 جیسا کہ پرہیزگار جنتی ایسے نیک اعمال بجالاتے تھے جنھیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اس لیے ان سے ایسی اجزاء کا وعدہ کیا گیا جس سے خدا کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں۔ 
 فلاتعلم نفس ما اخفى لهم من قرة أعين 
  (الم - سجدہ ــــــــــــــ 17) 
 پھران کے دوسری قسم کے دردناک عذابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : اوران کے علاوہ انھی کی ہم شکل دوسری سزائیں بھی ان کے لیے ہیں۔ (واخر من شكله از واج ) ۔ ؎ 1 

  "شکل"( لشین کے فتح کے ساتھ )مثل و مانند کے معنی میں ہے اور "ازواج"  انواع و اقسام کے معنی ہے اور یہ گزشتہ عذابوں کے مانند
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
   ؎1   " ایک محزوف کی صفت ہے ، جو مبتدا ہے اور "ازواج " دوسرا مبتدا ہے ، اور "من شكله" اس کی خبر ہے ، اور 
مجموعی طور پر پہلے مبتدا کا جزء ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا۔ 
              "وعذاب خرازواج من شكـله"
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسری قسم کے عذابوں کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے جو یہاں پر سریستہ طور پر بیان ہوئے ہیں اور شایداس جہان مادہ کے اسیروں کے لیےقابل توصیف و ادراک نہ ہوں۔ 
 یہ حقیقت میں گزشتہ آیات میں ذکر شده " فاكهة كثيرة " کے مقابلے میں ہیں، جو جنت کی مختلف قسم کی نعمتوں اور پھلوں کی طرف اشارہ تھا۔ 
 بہرحال ممکن ہے یہ مشابت شدت اورناراحتی کے اعتبار سے ہو یا تمام جہات کے لحاظ سے ہو۔ 
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کے بعد ان کی آخری سزا بیان کی گئی ہے اور وہ ہے بڑےہم نشین اوریہ بھی ایک طرح کی سرزنش ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: 
 جس وقت گمراہ سردار وارد جہنم ہوں گے اوراپنی آنکھ سے دیکھیں گے کہ ان کے پیروکاروں کو بھی دوزخ کی طرف لایا جارہا ہے توایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ وہ فوج ہے جوتمھارے ساتھ دوزخ میں داخل ہوگی (هذافوج مقتحم معكم)۔ ؎1 
 ان کے لیے خوش آمدید نہیں ہے (لا مرحبًا بهم)۔ 
 وہ سب کے سب آگ میں جلیں گے (انه صالوا النار)۔ 
 بعد کے جملوں اور آیات کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے" هذافوج مقـتــحم معکم " کا جملہ گمراہی کے پیشواؤں کی گفتگو ہے ، جس وقت وہ اپنے پیروکاروں کو جہنم میں داخل ہونے کے لیے تیاردیکھیں گے تو ایک دوسرے سے کہیں گئے کہ یہ بھی تمہارے ساتھ ہوں گے ۔ بعض مفسرین اسے کفروعصیان کے سرداروں سے ملائکہ کا خطاب سمجھتے ہیں لیکن یہی معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے. 
 " مرحبا" وہ لفظ ہے جو مہمان کو خوش آمدید کہتے وقت کہا جاتا ہے اور "لامرحبا"  اس کی ضد ہے۔ یہ لفظ مصدرہے۔ 
 "رحب " (بروزن "محو") کے مادہ سے وسعت مکان کے معنی ہیں - یعنی آیئے ، تشریف لائیے، آپ ایک مناسب اور وسیع مکان میں وارد ہورہے ہیں اور فارسی میں اس کا متبادل خوش آمدید ہی ہے۔ 
 "مقتحم" اقتحام" کے مادہ سے شدید اورسخت خوفناک کام میں داخل ہونے کے معنی میں ہے اور اکثر پہلے سے غوروفکر اور مطالعہ کیے بغیر کاموں میں وارد ہونے پربھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ 
 یہ تعبیراس کام کی نشاندہی کرتی ہے کہ گمراہی کے پیروکار مطالعہ اور غوروفکر کے بغیرصرف ہواو ہوس اور اندھی تقلید کی بنا پر جہنم کی شدید اور خوفناک آگ میں داخل ہوں گے۔ 
 بہرحال یہ آواز پیروکاروں کے کانوں تک پہنچے گی اور وہ سرداران ضلالت کے ناخوش آمدید کہنے سے سخت ناراض ہوں گے۔ ان کی طرف رخ کرکے وہ کہیں گے : بلکہ تمھارے لیے مرحبانہ ہو کیونکہ تمھی نے ہمارے لیے اس دردناک عذاب کی راہ ہموار کی تھی اور ہمارے لیے اسے فراہم کیا تھا کیا ہی برا ٹھکانا ہے جہنم (قالوابل انتم لا مرحبا بكم انتم قدمتوه لنا فبئس القرار) ۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   اس جملہ میں کچھ محزوف ہے اور تقدیرمیں اس طرح ہے ( يقول رو ساء الضلال بعضهم لبعضهن افوج مقتحم معکم) گمراہوں کے سردار 
ایک دوسرے سے کہیں گے یہ فوج بھی تمھارے ساتھ داخل ہونے والی ہے۔ ا 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 "فيئس القرار" حقیقت میں "جنات عدن" ما کا لفظ مقابل ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے آیاتھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ دوزخ ایک عارضی اور وقتی جگہ نہیں ہے جبکہ دائمی اور ثابت ٹھکانا ہے۔ 
 اس  تعبیر سے پیروکاروں کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہواہے اس میں یہ خوبی تو ہے کہ تم سرداران ضلالت بھی اس امر میں ہمارے ساتھ شرک ہو اور یہ چیز ہماری دلی تسلی کا باعث ہے یا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم پیشواؤں کا جرم ہمارے نزدیک بہت ہی عظیم ہے کیونکہ جہنم کوئی وقتی ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ ہمارا دائمی ٹھکانا ہے۔ 
     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 لیکن اس کے باوجود پیروکار صرف اسی بات پر راضی نہیں ہوں گے چونکه وه گمراہي کے سرداروں کو جو اس جرم کے اصلی عامل تھے 
اپنے سے زیادہ مستحق جانتے ہیں لہذا بارگاه خداوندی کی طرف رخ کرکے" کہیں گے: پروردگارا جس شخص نے ہمارے لیے یہ عذاب فراہم کیا ہے جہنم کی آگ میں اس کے لیے کئی گنا اضافہ فرما۔" (قالوا ربنا من قدم لنا هذا فزده عذابًا ضعفًا في النار). 
 ایک عذاب خود ان کی اپنی گمراہی کی بنا پر اور ایک عذاب ہمیں گمراہ کرنے کی وجہ سے۔ 
 یہ آیت اسی مطلب کے مشابہ ہے جو سوره اعراف کی آیہ 38 میں آیا ہے: 
  بنا هؤلاء اضلونا فاتهم عذابًا ضعفًا من النار 
  پروردگارا ! انھوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے لہذا آگ کا کئی گنا عذاب ان کے لیے قرار د ے 
 اگرچہ سوره اعراف کی اس آیت کا آخری حصہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں کے لیے کئی گنا عذاب ہے (کیونکہ پیروکار بھی تو پیشواؤں کے لیے اجرائی قوت تھے اور گمرائی وفساد کی راہ انھیں کے ذریے ہموار ہوئی کیونکہ اگر عوام الناس ظالموں کے ظلم کی بھٹی گرم  نہ کریں تو ان میں کسی کام کو انجام دینے کی ہمت نہیں ہوتی) لیکن بہرحال اس میں شک نہیں ہے کہ پیشواؤں کا عذاب کئی درجے سے زیادہ سخت ہے اگرچہ دونوں کی عذاب دگنا ہے۔ 
 ہاں یہ ہے انجام ان لوگوں کا جنھوں نے آپس میں دوستی کا عہد و پیمان باندھا اور را وانحراف وضلالت میں ہیعت کی، جس وقت وہ اپنے اعمال کے برے نتائج دیکھیں گے تو ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور ان کا اظہار کریں گے۔ 
 یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان آیات میں پرہیزگاروں کی نعمتوں کا ذکر طغیان گروں کی سزاؤں اور عذابوں سے زیادہ تنوع رکھتا ہے( پہلے حصے میں سات نعمتوں اور دوسرے حصے میں عذابوں کی طرف اشارہ ہوا ہے) اور یہ شاید خدا کی رحمت کے اس کے غضب پر سبقت کرنے اور زیادہ ہونے کی بنا پرہے۔ 
  يا من سبقت رحمته غضبه
  اے وہ کہ جسں کی رحمت اس کے غضب پرسبقت رکھتی ہے۔