Tafseer e Namoona

Topic

											

									  پرہیزگاروں کے لیے وعدہ

										
																									
								

Ayat No : 49-54

: ص

هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ ۴۹جَنَّاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ ۵۰مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ ۵۱وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ ۵۲هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ ۵۳إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِنْ نَفَادٍ ۵۴

Translation

یہ ایک نصیحت ہے اور صاحبانِ تقویٰ کے لئے بہترین بازگشت ہے. ہمیشگی کی جنتیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہوں گے. وہاں تکیہ لگائے چین سے بیٹھے ہوں گے اور طرح طرح کے میوے اور شراب طلب کریں گے. اور ان کے پہلو میں نیچی نظر والی ہمسن بیبیاں ہوں گی. یہ وہ چیزیں ہیں جن کا روز قیامت کے لئے تم سے وعدہ کیا گیا ہے. یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے.

Tafseer

									  تفسیر
                    پرہیزگاروں کے لیے وعدہ 
یہاں سے اس سورہ کی آیات کا دوسراحصه شروع ہورہا ہے۔ اس میں پرہیزگاروں کا سرکش باغیوں کے سابق موازنہ کرتے ہوئے قیامت میں دونوں گروہوں کے انجام کی وضاحت کی گئی ہے اور مجموی حیثیت سے گزشت آیات کے مباحث کی تکمیل ہورہی ہے۔ 
پہلے تو گزشتہ انبیاء کی سرگزشت اور ان کی زندگی کے اصلاحی وتربیتی نکات کے بارے میں کلی طور پر فرمایا گیا ہے : یہ ایک  تذکر اور یاد آوری ہے( وهذا ذكر)۔ ؎1  
 ہاں! ان کی پرشکوہ تاریخ کے نشیب وفراز کو بیان کرنے کا مقصد داستان سرائی نہیں کر ذکرو تذکر تھا۔ جیساکہ اس سورہ کی ابتداء ہی اسی مسئلے سے کی گئی ہے "ص والقران ذی الذكر" 
 اصل مقصد ان مسلمانوں میں جن کے لیے یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، فکر و نظر کو بیدار کرنا، معرفت و آگاہی کی سطح بلند کرنا اور استقامت و پامردی کی قوت و طاقت کا اضافہ کرنا ہے ۔ ؎ 2 
 اس کے بعداس امرکو انفرادی اور انبیاء کی زندگی سے نکال کرکلی شکل دی گئی ہے۔  متقین کی کہ سرنوشت کوعمومی طور محل بحث قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : پرہیزگاروں کے لیے اچھا مقام اور جائے بازگشت ہے۔ (وان للمتقين لحسن ماب)۔ ؎3 
 اس مختصر سے سربستہ جملے کے بعد جوان کے حال کی خوبی اور اچھائی کی اجمالی طور پرتصویرکشی کرتا ہے ،اجمال تفضیل کی قرآنی روش سے استفادہ کرتے ہوئے اس کی تشرح تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان کی بازگشت اس جنت کے جادوانی باغات کیطرف ہے جس کے دروازے ان کے سامنے کھلے ہوئے ہیں (جنات عدن مفتحة لهم الابواب)۔۔ ؎ 4 
 "جنات" بہشت کے باغات کی طرف اشارہ ہے اور "عدن" "بروزن "عدل" استقرار وثبات کے معنی میں ہے اور "معدن" کواس بنا پر "معدن" کہا گیا ہے کیونکہ مختلف دھاتیں اور گراں قیمت مواد وہاں مستقر ہوتا ہے۔ بہرحال یہ تعبیر یہاں جنت کے باغوں کے جاودانی اور ابدی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ 
 " مفتحة لهم الابواب" کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہشتیوں کے لیے دروازے کھولنے تک کی بھی زحمت نہیں ہوگی ، گویا بہشت ان کے انتظار میں ہے اور جس وقت اس کی نگاہ ان پر پڑے گی تو آغوش پھیلا دے گی اورانھیں اندر آنے کی دعوت دے گی۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بہشتیوں کے خصوصی احترام اور ان کے آرام سکون کو اس صورت میں بیان کیاگیا ہے کہ اس کی حالت یہ ہوگی کہ وہ اس میں تختوں پر تکیہ لگائے (بیٹھے) ہوں گے اور انواع واقسام کے فراواں پھل اور مشروبات ان کی رسائی میں ہوں گے جس وقت طلب کریں گے 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   بعض مفسرین نے اس نے اس جملے کی تفسیرمیں کہا ہے کہ اس سے مراد گزشتہ انبیا کا ذکر جمیل ہے
  ؎2   مفسرنن کی ایک جماعت نے " هذا ذ كــر" کو اس بات کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو کچھ گزشتہ انبیاء کے بارے میں بیان ہواہے وہ تو ان کا ذکرخیر اورثناء جمیل تھی اور بعد والی آیات آخرت میں ان کے مقامات کو بیان کر رہی ہیں لیکن یہ معنی بعید نظر آتاہے بلکہ آیات ظاہر کلی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ۔ 
  ؎3   "ماب" معنی نے مقام بازگشت اور" حسن" کی  "ماب" کی طرف اضافت صفت کی موصوف کی طرف اضافت ہے ۔
  ؎4   "جنات عدن "ماب" سے بدل یا عطف بیان ہے۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
فورًا ان کے پاس پہنچ جائیں گے (متکئين فيها يدعون فيها بفاكهة كثيرة وشراب) ۔ ؎ 1 
 کیا یہ سب کچھ جنت کے خدمت گاروں کے ذریعے فورًا ان کے سامنے حاضر ہو جائے گا یا ان کے حاضر ہونے کے لیے ان کا اراده ی کافی ہوگا ، اس کے لیے دونوں احتمال موجود ہیں ۔ 
 "فاكهة " اور "شراب"  ("پھل" اور "مشروبات ")کا ذکر ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ کی بہشتیوں کی زیادہ تر غذا پھل ہوگی ، اگرچہ قرآنی آیات کی صراحت کے مطابق دوسری غذائیں اور کھانے بھی وہاں موجود ہوں گے۔ 
 جیسا کہ اس دنیامیں بھی انسان کے لیے بہترین اور مکمل ترین غذا پھل ہی ہے۔ 
 "كثيرة"  کی تعبیربہشتی پھلوں کی انواع واقسام کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ اس کے مشروبات اور شراب طہور بھی کئی قسم کی ہوگی جس کی طرف قران کی مختلف آیات میں اشارہ ہوا ہے۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 اس کے بعد بہشت کی پاکیزہ بیویوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: بہشتیوں کے پاس ایسی بیویاں ہوں گی کہ جن کی آنکھیں فقط اپنے شوہروں پر جمی ہوں گی وہ سب کی سب جوان اور اپنے شوہروں کی ہم عمرہوں گی (وعندهم قاصرات الطرف اتراب)۔ 
 "طرف"  (بروزن" برف") پلک کے معنی میں ہے اور کبھی نگاہ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جنت کی عورتوں کی " قاصرات الطرف" (جوتنگ کا نگاہ رکھتی ہیں) سے تو صیف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انھوں نے صرف اپنے شوہروں پر نظريں جمائی ہوئی ہیں ۔ صرف انھیں سے عشق و محبت کرتی ہیں اوران کے علاوہ کسی کوبھی تصور میں نہیں لاتیں ۔ یہ بات بیویوں کی خوبی میں سے عظیم ترین خوبی ہے۔ بعض مفسرین نے اسے آنکھوں کے مخمور ہونے کے معنی میں سمجھا ہے جو ایک نہایت جاذب و پرکشش حالت ہے ۔ ان دونوں معانی کو جمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ 
 "اتراب" ہم سن و سال اور ہم عمر ہونے کے معنی میں ہے یہ جنت عورتوں کی اپنے شوہروں کے لیے ایک اور صفت بیان پے کیونکہ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کی موافقت کشش کو بڑھاتی ہےیا یہ خود انھیں عورتوں کی صفت ہے کہ وہ سب کی ہم سن اور جوان ہیں ۔ ؎2

 آخری زیر بحث آیت میں بہشت کی ان تمام ساتوں کی ساتویں مذکور نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :یہ وہ چیز ہے جس کاتم سے روز حساب کے میلے وعدہ کیا جارہا ہے۔ (لهذاماتوعدون ليوم الحساب ). ناقابل شکن اور 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     دونوں جگہ " فیها" کی ضمیر "جنات عدن" کی طرف لوٹتی ہے اور "فاكهة"  کی توصیف "کٹیرة"  کے ساتھ اس وصف سے "شراب" کی 
توصیف کی بھی دلیل ہے اور "متكئين"  "لھم"  کی ضمیر کے لیے حال ہے۔ یعنی وه بہشت جادواں میں جس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اوروہ مسندوں پرتکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور مختلف پھلوں اور انواع واقسام کے مشروبات لانے کا حکم دے رہے ہوں گے۔ 
  ؎2   " اتراب" سے "ترب " ( بروزن  "شعر") کی۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
نشاط انگیزواعده ، خداوند عظیم کی طرف سے وعدہ ۔ 
 ان نعمات کے جادوانی اور ابدی ہونے کی تاکید کے طور پرمزید ارشاد ہوتا ہے۔:یہ ہمارا رزق اورہماری دی ہوئی روزی ہے یہ ایک ایسی عطا ہے جا کبھی ختم نہیں ہوگی اوراس کے لیے فنا کا تصور ہی نہیں ہے (ان هذالرزقنا ماله من نفاد) ؎1 
 اس بنا پر زوال نابودی کا غم۔ جوایک منحوس سائے کی طرح اس جہان کی نعمتوں پر پڑا ہے۔ وہاں موت موجود نہیں اور وہ خداکے پر بارخزانوں کی برکت سے ہمیشہ مدد لیتا رہتا ہے اوراس کے لیے محدودیت نہیں ہے۔ یہاں تک کسی قسم کی کمی اس میں ظاہرنہیں ہوگی کیونکہ خدا کا ارادہ یہی ہے ۔ 
ـ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1  "نفاء" فنا اور نابودی کے معنی میں ہے اور "لرزقنا" کی لام تاکید کے لیے ہے۔