Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چھ اور عظیم پیغمبر

										
																									
								

Ayat No : 45-48

: ص

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ۴۵إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ۴۶وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ ۴۷وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِنَ الْأَخْيَارِ ۴۸

Translation

اور پیغمبر علیھ السّلام ہمارے بندے ابراہیم علیھ السّلام, اسحاق علیھ السّلام اور یعقوب علیھ السّلام کا ذکر کیجئے جو صاحبانِ قوت اور صاحبانِ بصیرت تھے. ہم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا. اور وہ ہمارے نزدیک منتخب اور نیک بندوں میں سے تھے. اور اسماعیل علیھ السّلاماور الیسع علیھ السّلام اور ذوالکفل علیھ السّلام کو بھی یاد کیجئے اور یہ سب نیک بندے تھے.

Tafseer

									  تفسیر 
              چھ اور عظیم پیغمبر
 گزشتہ آیات میں حضرت داؤو اورحضرت سلیمان کی زندگی کے بارے میں شرح و بسط کے ساتھ گفتگوتھی نیز حضرت ایوبؑ جیسے عظیم پیغمبر کی زندگی کے اہم نقاط کے مسلسل میں مختصرسا ذکر تھا۔ زیر بحث آیات میں خدا کے عظیم ترین پیغمبروں میں سے چھ دیگرپیغمبروں کانام ذکر کیا جا رہا ہے۔ نیز ان کی وہ عمداصفات جو تمام انسانوں کے لیے نمونہ اور اسوہ بن سکتی ہیں اختصار کے ساتھ بیان کی جاری ہیں۔ 
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان چھ عظیم پیغمبروں کے لیے چھ ایسے مختلف اوصاف ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے ہرایک خاص معنی  ومفهوم رکھتا ہے۔ 
 پہلے تو روۓ سخن پیغمبراسلام کی طرف کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : یاد کر ہمارے بندوں ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کو (واذکر عبادنا ابراهیم و اسحاق ويعقوب)۔ 
 مقام عبودیت و بندگی پہلی صفت ہے جوان کے لیے بیان ہوئی ہے اور واقعًا ہر چیزاسی میں جمع ہے ۔ خدا کی بندگی یعنی اس کے ساتھ مطلق والبستگی ، یعنی اس کے ارادے کے سامنے اپنا کوئی ارادہ  نہ رکھنا اور ہرحالت میں اس کے سامنےسر تسلیم خم کرنا۔ 
 خدا کی بندگی یعنی اس کے غیر سے بے نیازی اور ماسوی اللہ سے بے اعتنائی اور صرف اسی کے لطف و کرم پر نظر رکھنا ، یہی انسان کے ارتقاء کی بلندی اور اس کا برترین شرف افتخار ہے۔ 
 اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے ، وہ طاقت ور باتھوں والے اور بینا آنکھوں کے مالک تھے ۔ (اولى الآیدی والابصار)۔ 
 کتنی عجیب تعبیرہے ہاتھوں اور آنکھوں والے: 
 "ایدی"  "ید" کی جمع ہے اور "ابصار" "بصر" کی جمع ہے اور آنکھ اور بینائی کے معنی میں ہے۔ 
 انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کے لیے دو قوتوں کا محتاج ہے۔ 
 1-     ادراک اور پہچان کی قوت   2-   کام اورعمل کی قوت ۔ دوسرے لفظوں میں "علم" اور "قدرت" سے مدد لینا چاہیے تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ 
 خدا نے ان پیغمبروں کی توصیف کی ہے کہ کاموں کو انجام دینے کے لیے ان کے پاس درک اور پہچان کی کافی طاقت اور قوی بصارت موجود تھی۔ 
وہ کم خبر افراد نہیں تھے ، ان کی سطح معرفت اونچی تھی۔ دین خدا ، اسرار آفرینش اور رموز زندگی کے بارے میں ان کی آگاہی بہت تھی۔ 
 ارادہ اور قوت عمل کے لحاظ سے بہت اورضعیف و ناتواں افراد نہیں تھے ، بلکہ با اراده، قوی اور آہنی و قاطع ارادے کے مالک تھے۔ 
 یہ تمام راہ حق  کے راہ روؤں کے لیے ایک نمونہ ہے کہ وہ مقام عبودیت اور خدا کی بندگی کے بعد، ان دوتیز دھار ہتھیاروں مسلح تھے۔
 ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے اچھی طرح واضح ہوگیا ہے کہ یہاں ہاتھ اور آنکھ سے مراد دوخصوص اعضاء نہیں ہیں ، کیونکہ بہت سے ایسے افراد ہیں جویہ دونوں اعضاء تورکھتے ہیں لیکن نہ تو کافي ادراک و شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی قوت ارادہ اورنہ عمل کرنے پر قدرت ، بلکه یہ دوصفات علم اور طاقت کے لیے کنایہ ہیں ۔ 
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ان کی چوتھی صفت کے بارے میں فرمایا گیا ہے ، ہم نے انہیں خاص قسم کے خلوص کے ساتھ خالص کیا ہے ( اتا اخلصناهم بخالصة) - 
 اوروہ فی دار آخرت کی یاد آوری ( ذکری الدار)۔ ؎1 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
  ؎1   "ذکري الدار" ممکن ہے مبدائے محذوف کی خبرہو اررتقدیرمیں" هی ذکری الدار" تھا یہ بھی ممکن ہے کہ "خالصة"سے" بدل" ہو۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
 ہاں وہ ہمیشہ دوسرے جہان کی یاد میں رہتے تھے ۔ ان کی نگاہ اس دنیا کی چند روزہ زندگی اور اس کی لذات تک محدود نہیں تھی وہ ا س زود گزر زندگی کے علاوہ بے پایاں نعمتوں سے معمور ایک جاودانی کھر کو دیکھتے تھے اور ہمشہ یہ اس کے لیے سعی وکوشش کرتے رہتے تھے۔ 
 اس بنا پر "الدار" (گھر) کو مطلق طور پر ذکر ہوا ہے سے مراد آخرت کا گھر ہے۔ گویا اس کے علاوہ کوئی اور گھروجودہی نہیں  رکھتا اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اس کی طرف جانے والی ایک گزر گاہ ہے۔ 
 بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہاں "دار"ان سے مراد "دار" دنیا ہے اور ذکری "الدار" کی تعبیراس نیک نامی کی  طرف اشارہ ہے جو ان پیغمبروں کے لیے اس دنیامیں باقی ره گئی۔ لیکن یہ احتمال ــــــــ خصوصًا "الدار" کے مطلق ہونے کی طرف توجہ کرتے ہوئے ـــــــــــ بہت ھی  بعیدنظر آتا ہے اور لفظ " ذکری"  کے ساتھ بھی چنداں ہم آہنگ نہیں ہے۔ 
 
 بعض نے بی احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد دار آخرت میں نیک نامی اور ذکر جمیل ہے ، جب کہ یہ بھی بیعد نظر آتا ہے۔ 
 
 بہرحال دوسرے لوگوں کے لیے بھی ممکن ہے کبھی کبھی آخرت کے گھر کو یاد کرلیں۔ خصوصًاجب ان کے دوستوں میں سے کوئی  دنیا سے چلا جاتا ہے یا جب کسی عزیز کے جنازے کے ساتھ یا اس کی یاد منانے کے لیے وہ حاضر ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ یادخالص نہیں بوتی کہ دنیا کی یاد کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے لیکن مردان خدا خالص ، عمیق، دائمی اورمسلسل توجہ دوسرے جہان کی طرف رکھتے ہیں۔ ان گویا وہ ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاضر ہے اور آیت میں "خالصة" کی تعبیراسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــ
 ان کی پانچویں اور چھٹی صفت بعد والی آیت میں آئی ہے، فرمایا گیا ہے: وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ اور نیک افراد میں سے ہیں (وانهمر عندنا لمن المصطفين الأخيار)۔ ؎1 
 ان کا ایمان اور عمل صالح اس بات کا سبب بنا کہ خدا انھیں اپنے بندوں میں سے چن لے اورمنصب نبوت ورسالت کے ساتھ مفتخر ومعزز بنائے اور ان کی نیکوکاری اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ بطور مطلق " اخیار"  (نیکو کار) کہلانے کے حق دار ہو گئے۔ 
 ان کے افکار نیک، ان کے اخلاق نیک ، ان کے اعمال اور ساری کی ساری زندگی نیک ہے اور" آنچہ خوباں ہم دارند آنہاتنہادارند"۔
 اسی بنا بعض مفسرین نے اس تعبیر سے کہ خدا بغیرکسی شرط کے انھیں " اخیار" کے لفظ سے پکار رہا ہے ، انبیاء کے لیے مقام عصمت کا مفہوم لیا ہے۔ ؎1 
 "عندنا"  "ہمارےنزدیک) کی تعبیر بہت معنی خیز ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا برگزیدہ اور نیک ہونا
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
 ؎ 1   "مصطفين"  (فاکی زیر کے ساتھ) "مصطفٰی" کی جمع ہے اور اصل میں "مصطفيين " تھاپہلی "یا" حزف ہو گئی تو " مصطفين" ہو گیا۔
  ؎2   تفسیر فخرازی ، جلد 26 ص 217 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
لوگوں کے نزدیک نہیں ہے ، جو بعض اوقات اپنی ذاتی جانچ کے لیے چشم پوشی کو جائز سمجھ لیتے ہیں، بلکہ ان کا ان دوصفات مصتف ہونا ہمارے نزدیک ثابت شدہ ہے، جو دیکھ بھال کر اور ان کے ظاہروباطن کو جانچ کرانجام پایا ہے۔ 
 مذکورہ تین پیغبروں کے اہم مقام کی طرف اشارہ کرنے کے بعد دیگر تین انبیاء کی باری آتی ہے، فرمایا گیا ہے، اور یاد کر اسماعیل، ایسع اور ذاالکفل کو ، جو سب کے سب اخیار اور نیک لوگوں میں سے تھے۔ (واذکر اسماعيل و اليسع وذا الكفل كل من الاخيار). 
 ان میں سے ہر ایک صبرواستقامت اور فرمان خدا کی اطاعت میں یک اسوہ اور نمونہ تھا خصوصًا اسماعیل جو اپنی جان کواس کی راہ میں خداکرنے پر تیار ہوگئے اور اسی بناپر ان کا نام ذبیح اللہ ہوگیا ۔ اپنے باپ کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر میں اور اس عظیم مرکز کو رونق بخشنے اور بہت سی دوسری ذ مہ داریوں میں بہت زیاده ہاتھ بٹاتے تھے ۔ ان کی زندگی کی طرف توجہ کرنا پیغمبراسلامؑ اورتمام مسلمانوں کے لیے تقویت بخش ہے۔ ایسے عظیم مردان خدا کی زندگی کا مطالعہ انسانوں کی زندگی میں راہنمائی کرتا ہے اوران میں تقوٰی.،فداکاری اور ایثار و قربانی کی روح زندہ کرتا ہے ، اورسخت مشکلات میں انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔ 
 "كل من الاخیار" کی تعبیر، اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہی توصیف (الاخیار ) بعینہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اورحضرت یعقوبؑ کے بارے میں آخری صفت کے طور پر آئی ہے۔ ممکن ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ تین پیغمبر بھی گزشتہ تین پیغمبروں کی تمام صفات کے حامل ہیں۔ کیونکہ خیرمطچلق کا ایک وسیع معنی ہے جس میں نبوت بھی آخرت کے گھر کی طرف توجہ اور مقام عبودیت وعلم و قدرت میں شامل ہوجاتی ہے۔ 
 ان تینوں پیغبروں میں سے حضرت اسماعیلؑ سب سے زیادہ مشہور اور زیادہ جانے پہچانے ہیں لیکن "ایسع" جن کا نام صرف دو مرتبہ قرآن میں آیا ہے  (یہاں اور سورہ انعام کی آیہ 86 میں) کے بارے میں قرآن کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وه بھی خدا کے بزرگ پیغمبروں میں سے تھے اور ان بزرگوں میں سے تھے جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے: 
  وکلا فضلنا على العالمين 
  ہم نے ان میں سے ہر ایک کو عاملین پر برتری و فضیلت بخشی۔ (انعام ــــــــــــــــ  86) 
 بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے مشہور پیغمبر یوشع بن نون ہیں جن پر " الف ولام، داخل ہواہے اوراس کی "شين" "سین" سے بدل گئی ہے اورکسی غیر عربی کے نام پر (جبکہ یہ عبرانی ہے) الف لام کا داخل ہوا کوئی نئی چیز نہیں ہے، جس طرح سے کر عرب "اسکندر" کو "الاسکندر" کے نام سے پہچانتے ہیں۔ 
 جبکہ بعض دوسرے اسے ایک عربی لفظ سمجھتے ہیں جو "یسع"  (ماده "وسعت" فعل مضارع) سے لیا گیا ہے اور اسمی پہلو اختیار کرنے کے بعد الف ولام جو مشخصات اسم میں سے ہے اس پرآگیا ہے۔ 
 سورہ انعام کی آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اولاد ابراہیم میں سے تھے لیکن یہ واضع نہیں کرتی کہ آیا وہ بنی اسرائیل میں سے تھے یا نہیں؟ 
  تورات کی کتاب "بادشاہان" میں ان کا نام "الیشع" بن "شافات" لکھا ہوا ہے اورعبرانی زبان میں الیشع کامعنی "ناجی" اور "شافات" کا معنی " قاضی" ہے۔ 
 بعض اسے اور "خضر" کو ایک ہی سمجھتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور جو بعض اسے" ذاالکفل" بی سمجھتے ہیں توزیربحث آیت کے صریع برخلاف ہے کیونکہ آیت نے ذاالکفل" الیسع" پرعطف کیا ہے۔ بہرحال وہ ایک بلند مقام اور پر استقامت پیغمبر ہیں اور ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کے لیے ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ 
 باقی رہے "ذاالکفل" تومشہوریہی ہے کہ وہ پیغمبروں میں سے تھے اور ان کے نام کا اورسورہ انبیا کی آیہ 85 میں پیغنبروں کے ناموں کےساتھ اسمائیلؑ اور ادریسؑ  کے بعد ذکرمعنی پر گواہ ہے۔ 
بعض کا نظریہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے اور انھیں ایوبؑ کا فرزند سمجھتے ہیں جس کا اصلی نام "بشر" یا "بشیر" یا "شرف" تھا۔ بعض انھیں "حزقیل"، سمجھتے ہیں کہ ذاالکفل ان کے لقب کے طور مشہور ہوگیا ہے۔ ؎1 
 انھیں ذوالکفل کا نام کیوں دیاگیا ؟ اس بارے میں اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ "کفل" نصیب اور حصہ کے معنی میں بھی کیا ہے اور کفالت و عہده داری کے معنی میں بھی ،علماء نے مختلف احتمال ذکر کیے ہیں۔ 
 کبھی تویہ کہا ہے کہ چونکہ خدانے اپنے ٹواب ورحمت کا وافر حصہ انھیں مرحمت فرمایا ہے۔ لہذا "ذاالکفل" یعنی (صاحب بہروانی) کے نام سے موسوم ہوئے۔ 
 کبھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ انھوں نے یہ عہد کیا ہوا تھا کہ راتوں کو عبادت کے لیے اٹھیں گے اور دن میں روزہ رکھا کریں گے اور قضادت اور فیصلہ کرتے وقت ہرگزغصے میں نہ آئیں گے اور وہ اپنے اس عہد وپیمان پر قائم رہے لہذا انھیں یہ لقب دیا گیا ۔ 
 کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ انھوں نے بنی اسٹیل کے انبیاء کے ایک گروہ کی کفالت کی تھی اور وقت کے ظالم بادشاہ سے انکی جان بچائی تھی اس لیے انھیں یہ نام  دیا گیا ہے۔ 
 بہرحال ان کی زندگی کے حالات کی اتنی ہی مقدار تو آج ہماری دسترس میں ہے ، خدا کی اطاعت و بندگی اور ظالموں کے مقابلے میں ان کی استقامت پامردی کی دلیل ہے اور ہمارے آج اور کے لیے ایک سبق ہے۔ اگرچہ ان کی زندگی کی تفصیلات کے میں زمانے کی دوری کے سبب دقیق طور پر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎ 1   اعلام القرآن، تفسیرقرطبی، تفسیرروح البیان اور تفسیرالمیزان میں سے ہر ایک نے مذکورہ بالا مطالب کے ایک حصے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔