Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- ایوب کی داستان کے اہم درس

										
																									
								

Ayat No : 41-44

: ص

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ۴۱ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ ۴۲وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۴۳وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۴۴

Translation

اور ہمارے بندے ایوب علیھ السّلام کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے بڑی تکلیف اور اذیت پہنچائی ہے. تو ہم نے کہا کہ زمین پر پیروں کو رگڑو دیکھو یہ نہانے اور پینے کے لئے بہترین ٹھنڈا پانی ہے. اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال عطا کردیئے اور اتنے ہی اور بھی دیدئے یہ ہماری رحمت اور صاحبانِ عقل کے لئے عبرت و نصیحت ہے. اور ایوب علیھ السّلام تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مار دو اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو - ہم نے ایوب علیھ السّلامکو صابر پایا ہے - وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہے.

Tafseer

									چنداہم نکات 
             1- ایوب کی داستان کے اہم درس:
 اس کے باوجود کہ اس صابر پیغمبر کی ساری سرگزشت اس سورہ کی صرف چار آیتوں میں آئی ہے لیکن یہی مقدار جو قرآن نےبیان کی ہےبہت سےاہم حقائق 

کےلیےہدایت بخش ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


  ؎1     اس معنی کی نظیر حدوداسلامی اور ان کے اجرا کے باب میں خطا کار بیماروں کے بارے میں بھی آئی ہے (کتاب الحدودہ ۔ ابواب حد الزنا) 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


 الف: خدا کی طرف سے آزمائش کا میدان اتنا وسیع اور کشادہ ہےکہ عظیم  پیغمبرتک بھی شدید ترین اور سخت ترین آزمائشوں سے گزارے جاتے ہیں کیونکہ اس جہان 

کی زندگی کا مزاج اسی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔ اصولی طور پر انسانوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں سخت قسم کی آزمائشوں کے بغیر ظاہر نہیں ہوتیں۔ 
 ب : شدت اورسختی کے بعد فرخ وکشائش ، یہ دوسرا نکتہ ہے جو اس داستان میں چھپا ہواہے۔ جب امواج مشکلات و بالا ہرطرف سے انسان کو دباتی ہیں تو اسے نہ 

صرف مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے رحمت الہی کے دروازے کھلنے کی نشانی اور ایک تمہید سمجھنا چاہیے، جیسا کہ امیرالمومنین علی فرماتے ہیں : 
 عند تناهى الشدة تكون الفرجة ، وعند تضايق حلق البلاء يكون الرخاء 
 جب سختیاں اپنی بلندی کو پہنچ جاتی ہیں تو فرج وکشائشی نزد یک ہوجاتی ہے، اور وقت بلا مصیبت کے لئے زیادہ تنگ ہوجاتے ہیں توراحت و آسودگی آن پہنچتی ہیے۔ 

؎1 
 ج: اس داستان سے زندگی کی سخت مشکلات اور مصائب کے بعض فلسفے اچھی طرح سے واضح ہو جاتے ہیں ، جولوگ توحید کی بحث میں آفات اور بلاؤں کو برہان 

نظم کے برخلاف مادہ نقض سمجھتے ہیں انھیں یہ داستان یہ جواب دیتی ہے، کہ ان سخت حوادث کا وجود بعض اوقات انسانوں کی زندگی میں عظیم انبیاء سے لے کر عام انسانوں تک ایک 

ضرورت ہوتا ہے، امتحان و آزمائش کی ضرورت، چھپی  ہوئی صلاحیتوں کےظاہر ہونے کی ضرورت اورانسان کے وجود کے ارتقاء وتكامل کی ضرورت ۔
 لہذا بعض روایات میں حضرت صادقؑ سے منقول ہواہے :
  ان اشد الناس بلاء الانبياء ثم الذي يلونهم الأمثل فالأمثل 
  سب لوگوں سے زیادہ خدا کے ہیغمبر سخت آفتوں اورمشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے 
  پیچھے قرار پاتے ہیں، اپنی شخصیت و مقام کے لحاظ اور مناسبت سے ۔ ؎2 
 اسی امام بزرگوار سے بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : 
  ان في الجنة منزلة لا يبلغها عبدًا الا بالابتلاء 
  جنت میں ایک مقام ایسا ہے جب تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا مگر ابتلائات اور مشکلات سے گزراکر 
 د:  داستان تمام سچے مومنین کو تمام زندگی میں صبروشکیبائی کا درس دیتی ہے، وہی صبر جس کا انجام ہرمیدان میں کامیابی و کامرانی ہے اورجس کا نتیجہ پروردگار کی 

بارگاہ میں "مقام محمود "اور "بلند منزلت" کا اصول ہے ۔ 
 ھ: جو آزمائش کسی انسان کو پیش آتی ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں اور ساتھیوں کی بھی آزمائش ہوتی ہے تاکہ ان کی صداقت اور دوستی کا وزن بھی 

جانچ لیا جائے کہ وہ کسی حد تک وفادار ہیں۔ حضرت ایوبؑ ہر وقت اپنامال و ثروت اورصحت و سلامتی 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


  ؎1   نہج البلاغہ کلمات قصار جملہ  351 
  ؎2 ؎2   سفینۃ البحار مادہ "بلا"  جلد 1 ص 105 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


کھو بیٹے، توان کے دوست واحباب بھی تھک کرمنتشر ہوگئے اور دوستوں اور دشمنوں نے مل کر شماتت و ملامت کے لیے زبان کھولی ، اور ہرزمانے سے بہترانھوں نے اپنی اصلیت ظاہر 

کردی اور ہم نے دیکھ لیا کہ ان کی زبان سے ایوبؑ کو جو دکھ پہنچا تھا وہ دوسرے ہر رنج سے زیادہ تھا۔ کیونکہ مشهور ضرب المثل کے مطابق نیزه و تلوار کے زخم تومل جاتے ہیں لیکن 

جوزخم زبان دل پر لگاتی ہے وہ بھرنے والا نہیں ہوتا۔ 
 و :  خدا کے دوست وہ نہیں ہوتے جو صرف نعمتوں کے ان کی طرف رخ کرنے کے وقت اس کی یاد میں رہتے ہوں ،بلکہ واقعی دوست وہ ہوتے ہیں جو فراخی ، تنگی ، 

مصیبت ونعمت ، بیماری و صحت اور فقروغناہر حالت میں اس کی یاد میں رہیں اور مادی زندگی دگرگونیاں ان کے ایمان وافکارمیں دگرگونی پیدا نہ کریں۔ 
 امیرالمومنین علی نے اس غرا و پرشور خطبہ میں جو آپؑ نے اپنے باصفا دوست "ہمام" کے لیے پرہیزگاروں کے اوصاف میں بیان فرمایا تھا، اور ایک سو سے زیادہ 

صفات متقین کی بیان کی تھیں اس کے اہم اوصاف میں سے ایک یہ تھی :- 
 نزلت انفسم منهم في البلاء التي نزلت في الرخاء 
 ان کی روح بل و مصیبت کے وقت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ راحت و آرام کی حالت میں (اور زندگی کی تبدیلیاں انھیں دگرگوں نہیں کرتیں)۔ 
 ز :  یہ ماجرا ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے کہ نہ تو امکانات ووسائل مادی کی ہاتھ سے نکل جانا اور مصائب و مشکلات اورفقروفاقہ کارخ کرنا، انسان 

کے لیے خدا کی بے لطفی کی دلیل ہے ، اور نہ ہی امکانات مادی کا فراہم ہونا ، پروردگار کے قرب سے دوری کی دلیل ہے، بلکہ انسان ان تمام وسائل وامکانات کے ہوتے ہوئے خدا کا 

خاص بنده ہوسکتا ہے، مگرشرط یہ ہے کہ وہ مال و مقام و فرزند کا اسیرنہ ہوجائے، اوران کے ہاتھ سے نکل جانے سے صبر کی زمام ہاتھ سے نہ چھوڑ دے۔