3- معاد کے عقلی دلائل
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ۸۱إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۸۲فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۸۳
تو کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوباہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے. اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے. پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے.
3- معاد کے عقلی دلائل :
قرآن مجید میں معاد کے بارے میں بہت دلیلیں بیان ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں سینکڑوں آیات موجود ہیں ۔ ان سے قطع نظر اس امر پر واضح عقلی دلائل بھی موجود ہیں کہ جن میں سے اختصار کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں:
ا- برهان حکمت : اگر ہم اس جہان کی زندگی کو دوسرے جہان کے بغیر تصور کریں ، تو یہ لغو اور بے معنی ہوکررہ جائے گی ۔ اس کی مثال بالکل اسی کی ہوگی جیسے ہم جنین کی زندگی کو اس دنیا کی زندگی کے بغیر فرض کرلیں۔
اگر قانون خلقت یہ ہوتا کہ تمام جنین پیدائش کے وقت گلاگھٹ کر مرجاتے تو جنینی دور کس قدر بے مفهوم ہو جاتا ؟ اسی طرح اگر اس جہان کی زندگی کو دوسرے جہان کی زندگی سے الگ تصور کرلیاجائے تو اس کا وجود بھی مہمل ہوجائے گا کیونکہ کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ستر سال یا اس سے کم و بیش اس دنیا میں مشکلات میں گھرے رہیں ، ایک مدت تک خام اور بے تجربہ رہیں اور جب ناپختگی دور ہو تو عمر تمام ہوجائے۔ ایک مدت تک تم علم کے حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جس وقت معلومات کے لحاظ سے ہم کسی مقام
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 نہج البلاغہ ، خطبہ 5.
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تک پہنچتے ہیں تو بڑھاپے کی برف ہمارے سروں پر بیٹھ چکی ہوتی ہے۔
آخر ہم یہ زندگی کس لیے بسر کررہے ہیں ؟ کچھ مقدار غذا کھانے ، چند گز کپڑے پیننے باربار سونے اور
بیدار ہونے اور اس تھکا دینے والے طرز عمل کو سالہاسال تک دہرانے اورجاری رکھنے کے لیے ؟
کیا واقعًا سے وسیع آسمان ، یہ پھیلی ہوئی زمین اور یہ تمام آغاز و انجام ، یہ تمام استاد و مربي ، سے تمام عظیم کتب خانے اور یہ تمام باریک بینیاں کہ جو ہماری اور تمام موجودات کی خلقت میں کام میں لائی گئی ہیں، کھانے ، پینے ، پہنے اور مادی زندگی کے لیے ہیں؟
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں پر وہ لوگ کہ جو معاد کو قبول نہیں کرتے ، اس زندگی کی لغویت اور بیہودگی کااعتراف کرتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ خودکشی کرنے اور اس فضول اور بے معنی زندگی سے نجات کو جائز یا باعث افتخار سمجھتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ شخص جو خدا اور اس کی بے پایاں حکمت پر ایمان رکھتا ہے ،اس جان کی زندگی کو دوسرے جہان کی دائمی زندگی کے لیے مقد مہ سمجھے بغیر قابل توجہ شمار کرے۔
قرآن کہتا ہے :
افحسبتم انما خلقناکم عبثا و انكم الینا لاترجعون
"کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم فضول اور بے کار پیدا ہوئے ہو اور تم ہماری طرف
پلٹ کریں اؤگے"۔ (مومنون ــــــ 115)
یعنی اگر خدا کی طرف بازگشت نہ ہوتی تو پھراس جہان کی زندگی عبث اور بیہودہ ہوتی۔
ہاں اس دنیا کی زندگی اسی صورت میں مفہوم رکھتی ہے اور خدا کی حکمت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے جب اس جہان کو دوسرے جہان کے لیے ایک کھیتی (الدنيا مزرعة الأخرة) اور اس وسیع عالم کے لئے ایک گزر گاہ (الدنيا قنطرة) اور تیاری کی ایک کلاس اور دوسرے جہان کے لیے ایک یونیورسٹی اور اُس گھر کے لیے ایک تجارت خانہ سمجھیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السالم نے اپنے پُرمعنی کلمات میں فرمایا ہے:
ان الدنيا دار صدق لمن صد قھا، ودار عافیة لمن فھم عنها،
و دار غني لمن تزو منها ، ودار موعظة لمن اتعظ بها ، مسجد
أحباء الله و مصلی ملائكة الله ، ومهبط وحي الله ومتجر اولیاء الله۔
"یہ دنیا اس شخص کے لیے کہ جو سچائی کے ساتھ اس سے پیش آئے سچائی کی جگہ ہے اور
اُس شخص کے لیے کہ جو اس سے کچھ فہم حاصل کرے عافیت کا گھر ہے اور اس شخص کے
لیے کہ جو اس سے زاد راہ حاصل کرے بے نیازی کا گھر ہے اور ا س شخص کے لیے کہ جو
اس سے پند ونصحیت حاصل کرے وعظ و نصیحت کا گھر ہے۔ یہ خدا کے دوستوں کی مسجد ہے ،
پروردگار کے فرشتوں کی جائے نماز ہے ، وحی الٰہی کے نزول کا مقام ہے اور اولیاءحق کا
تجارت خانہ ہے۔ ؎1
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس جہان کی کیفیت کا مطالعه خوب اچھی طرح سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس عالم کے بعد ایک اور عالم بھی ہے :
ولقد علمتم النشأة الاولٰى فلولاتذكرون
"تم اس دنیا میں نشأة اولٰی اور خود اپنی پیدائش کو دیکھ چکے ہو تو پھر تم متوجہ کیوں نہیں
ہوتے کہ اس کے بعد ایک اور جہان بھی ہے؟" (واقعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 62)۔
(ب) برهان عدالت : نظام ہستی اور قوانین خلقت میں غور سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس کی تمام چیزیں حساب شده اور جچی تلی ہیں ۔
ہمارے بدن کی ساخت میں اس قسم کا عادلانہ نظام حکم فرما ہے کہ جب بھی کوئی معمولی سی تبدیلی یا غیر موزوں نیت اس میں ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہماری یاموت کا سبب بن جاتی ہے ۔ ہمارے دل کی حرکت ہمارے خون کی گردش ، ہماری آنکھ کے پردے ، ہمارے بدن کے سیل اسی دقیق نظام میں شامل ہیں کہ جو سارے جہان پر حکومت کررہا ہے:
وبالعدل قامت السماوات والأرض
"تمام آسمان اور زمین عدالت ہی کی وجہ سے قائم ہیں "۔ ؎2
تو کیا انسان اس وسیع عالم میں ایک نامطلوب چیز ہو سکتا ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ خدا نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ وہ اسے آزمائے اور وه اس کے سائے میں ارتقائی منزلوں کو طے کرے لیکن اگر انسان آزادی سے غلط فائدہ اٹھائے تو پھر کیا ہوگا ؟ اگر ظالم اور ستمگرلوگ ، گمراہ اور گمراہ کرنے والے اس خدائی انعام سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے گمراہی کا راستہ اختیار کیے رہیں تو پھر عدال الٰہی کا تقاضا کیا ہوگا؟َ
یہ ٹھیک ہے کہ بدکاروں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں بھی سزامل جاتی ہے اور وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں یا کم از کم اس کا ایک حصہ بھگت لیتے ہیں لیکن مسلم طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ تمام کے تمام مجرم اپنی ساری کی ساری سزا بھگت لیتے ہوں اور سب کے سب پاک اور نیک لوگ اپنے اعمال کا
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، کلمہ 131-
؎2 تفسیرصافی ، سورہ رحمٰن کی آیہ 7 کے ذیل میں ۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بدلہ پورے کا پورا اسی جہان میں پالیتے ہیں ۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ یہ دونوں گروه پروردگار کی عدالت کے پلڑے میں برابر ہوجائیں؟ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق:
افنجعل المسلمين المجرمين مالكم کیف تحكمون
"کیا ان لوگوں کو کہ جو قانون خدا کے پیش نظر حق و عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے
ہیں ہم مجرمین کی طرح قرار دے دیں گے؟ کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے یہ کس طرح کا فیصلہ کرتے
ہو؟" (قلم ۔۔۔۔۔۔۔ 36 ، 36)
دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے:
ام نجعل المتقین کالفجار
"کیا یہ ممکن ہے کہ تم پرہیزگاروں کو فاجروں کے مانند قرار دے دیں ؟" (ص ۔۔۔۔۔ 28)
بہرحال فرمان حق کی اطاعت میں انسانوں کے درمیان تفاوت ہونا کو ئی شک کی بات نہیں ہے کیونکہ اس جہان کی مکافات اور عدالت وجدان اور گناہوں کے نتائج کا کافی نہ ہونا ، عدالت کے قیام کے لیے تها کافی نظر نہیں آتا ۔ اس بناء پر یہ بات قبول کرنی پڑے گی کہ اجرالٰہی کے اجراء کے لیے کوئی عدل عام کی عدالت ہوکہ جہاں پر سوئی کی نوک کے برابر نیک اور بدکاموں کا حساب ہو۔ ورنہ حقیقی عدالت کیا قائم نہ ہوگی ۔
لہذا یہ بات قبول کرلینی چاہیئے کہ عدل الٰہی کو قبول کرنا وجود معاد و قیامت کے قبول کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے:
ونضع الموازين القسط ليوم القيامة
"ہم قیامت کے دن عدل کے ترازوقائم کریں گے"۔ (انبیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔ 47)
اس کے علاوہ یہ بھی فرماتاہے :
وقضی بینهم بالقسط وهم لا يظلمون
"قیامت کے دن ان کے درمیان عدالت کے مطابق فیصلہ ہوگا اور ان پر کوئی ظلم
نہیں ہوگا"۔ (یونس ۔۔۔۔۔۔۔۔ 54)
(ج) برهان هدف : مادہ پرستوں کے نظریے کے برخلاف الٰہی نظریۂ کائنات کے مطابق انسان کی خلقت میں ایک ہدف اور مقصد کارفرما ہے کہ جسے فلسفی تعبیر میں "تکامل وارتقاء" کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی زبان میں کبھی " قرب خداوندی" اورکبھی "عبادت و بندگی" کہتے ہیں :
وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون
"میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا ہے مگر اس مقصد کے لیے کہ وہ میری عبادت
کریں" (اور عبادت و بندگی کے سائے میں کامل ہوں اور میرے حریم قرب کی طرف راه پائیں - ( ذاریات۔۔۔۔۔ 56)
اگر موت ہرچیز کا اختتام ہو تو کیا یہ عظیم مقصد پورا ہو گا؟ بلاشک وشبہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
ضروری ہے کہ اس جہان کے بعد ایک اور جہان ہو اور انسان کا سفر کمال اس میں جاری رہے اور وہ اس (جہان کی) کھیتی کی فصل وہاں کاٹے اور یہاں تک کہ ۔۔۔۔ جیسے ہم کہہ چکے ہیں دوسرے جہان میں بھی یہ سیرتکامل جاری رہنی چاہیئے تاکہ اصلی اور آخری برف پورا ہوجائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مقصد خلقت کی تکمیل معاد کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں ہے اور اگر ہم اس زندگی کو موت کے بعد والے جہان سے منقطع کرلیں تو ہرچیز معمہ کی شکل اختیار کرلے اور کئی طرح کے "کیوں" کا ہمارےپاس کوئی جواب نہ رہے ۔
(د)- برهان نفي اختلاف :
بے شک ہمیں ان اختلافات سے ۔۔۔۔ کہ جو اس جہان کے مختلف مکاتب و مذاہب کے درمیان موجود ہیں دکھ ہوتا ہے ، اور تم سب یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ایک دن سے تمام اختلافات ختم ہو جائیں جبکہ تمام قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ اخلافات اس دنیا کے مزاج میں پوری طرح اترچکے ہیں ۔ یہاں تک کچھ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی جو ایک عالمی حکومت قائم کرنے والے ہیں ۔ ان کے قیام کے بعد بھی اگرچہ بہت سے اختلافات ختم ہوجائیں گے ، لیکن پھربھی کچھ مکاتب کا اختلاف کلی طور پر ختم نہیں ہوگا اور قرآن کے ارشاد کے مطابق یہود و نصاریٰ دامن قیامت تک اپنے اختلاف پر باقی رہیں گے :
فاغرينا بينهم العداوة والبغضاء الٰى يوم
القيامة (مائده ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 14)۔
لیکن وہ خدا کہ جو ہر چیز کو وحدت کی طرف لے جاتاہے آخر میں اختلافات کو ختم کرائے گا اور چونکہ عالم مادہ کے گہرے پردوں کی موجودگی میں یہ بات اس دنیا میں کلی طور پر امکان پذیر نہیں ہے لہذا ہم جانتے ہیں کہ دوسرے جہان میں ۔۔۔۔۔۔ کہ جو عالم بروز و ظہور ہے ۔۔۔۔۔۔ آخر کار یہ مسئلہ عملی شکل اختیار کرلے گا اور حقائق اس طرح سے روشن ہوجائیں گے کہ مکتب و عقیدہ کا اختلاف بالکل ختم ہوجائے گا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس مسئلے کا ذکر ہوا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے :
فالله يحكم بينھم يوم القيامة فيما كانوا فيه يختلفون
"خدا ان چیزوں کے بارے میں قیامت کے دن ۔۔۔۔ کہ جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے
ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا"۔ (البقرة ۔۔۔۔۔۔۔۔ 113)
دوسری جگہ فرماتا ہے:
واقسموا بالله جهد ايمانهم لا يبعث الله من يموت بلٰی وعدًا
عليه حقًا ولٰكن اكثر الناس لا يعلمون ليبين لهم الذي يختلفون
فیہ و ليعلم الذين كفروا انھم کانوا اذہین
"انہوں نے زور دار قسم کھا کر کہا کہ خدا ان لوگوں کو کہ جو مرجائیں گے کبھی زندہ نہیں کرے
گا لیکن ایسا نہیں ہے ۔ یہ خدا کا حتمی وعدہ ہے (کہ ان سب کو زندہ کرے گا) لیکن اکثر
لوگ نہیں جانتے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جس چیز میں وہ اختلاف رکھتے تھے سے آن کے لیے واضح کر دے گا کہ جو لوگ منکر ہو گئے تھے وہ یہ جان لیں کہ وہ جھوٹ بولتے تھے"۔ (نحل ۔۔۔۔۔ 38 ، 39)