Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- ایمان بالقیامت کا اثرانسانی زندگی پر

										
																									
								

Ayat No : 81-83

: يس

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ۸۱إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۸۲فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۸۳

Translation

تو کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوباہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے. اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے. پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے.

Tafseer

									
 2- ایمان بالقیامت کا اثرانسانی زندگی پر : 
 مرنے کے بعد کے عالم ، انسان کے اعمال کے آثار کی بقا اور اس کے اچھے برے کاموں کی ہمیشگی کا اعتقاد انسانوں کی فکرونظر اور اعصاب اعمال پر بہت ہی گہرا اثر ڈالتا ہے اور نیکیوں کا شوق پیدا کرنے اور برائیوں سے مبارزہ کرنے کے لیے ایک عامل موثر ہوسکتاہے۔ 
 فاسد و منحرف افراد کی اصلاح اور فداکار و مجاہد اور ایثارکرنے والوں کو شوق دلانے میں حیات 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1      جامعہ شناس ساموئیل کینک ص 192  (تھوڑی سی تلخیص کے ساتھ) ۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بعد از موت پر ایمان جو اثرات ڈال سکتا ہے وہ عام عدالتوں اور سزاؤں کے اثرات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ چونکہ قیامت و معاد کی عدالت عام عدالتوں سے بہت ہی مختلف ہے، اس عدالت میں نہ تو تجدید نظر کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی اس کے ارکان پر زر و مال اور زور و قوت اثر ڈال سکتے ہیں ، نہ وہاں جھوٹی باتوں سے کوئی فائدہ ہوگا اور نہ فیصلے کے لیے طویل مدت درکار ہوگی ۔ 
 قرآن مجید کہتا ہے: 
  واتقوا يومًا لاتجزي نفس عن نفس شيئا ولا يقبل منها شفاعة 
  ولا يؤخذ منها عدل ولا هم ينصرون 
  "اس دن سے ڈرو کہ جس میں کسی شخص کو کسی دوسرے کی جگہ بدل نہیں دیاجائے گا ، 
  اور نہ ہی اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ ہی کوئی فدیہ یا تاوان ہوگا اورنہ 
  ہی کوئی شخص اس کی مدد کے لیے آئے گا"۔    (بقره ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 48) 
 اس کے علاوہ قرآن حکیم میں ہے :
  ولوان لكل نفس ظلمته مافي الارض لا فتدت به واسروا الند امۃ 
  لما رأوا العذاب وقضى بينهم بالقسط وهم لا يظلمون 
  "ان میں سے جو ظالم ہیں ، اگر تمام روئے زمین بھی ان کے اختیار میں ہو اور اس دن 
  اپنی نجات کےلیےوہ سب کچھ قربان کرڈالیں(تو بھی ان کی نجات نہیں ہوگی) اور جس 
  وقت وہ عذاب الٰہی کودیکھیں گےتو اپنی پیشمانی کوچھپائیں گے(کہ کہیں زیادہ رسوا نہ ہوں) 
  اور ان کے درمیان عدالت کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ذراسا بھی ظلم نہیں کیا 
  جائے گا"۔   (یونس ۔۔۔۔۔۔۔ 54) 
 اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ بھی بیان ہوا ہے : 
  ليجزى الله كل نفس ما کسبت ان الله سريع الحساب 
  "مقصد یہ ہے کہ خداہرشخص کو جو کچھ اس نے انجام دیا ہے اس کی جزا دے کیونکہ خدا 
  سريع الحساب ہے"۔    (ابراہیم ۔۔۔۔۔51) 
 اس کا حساب اتنا قطعی اور تیزی کے ساتھ ہوگاکہ بعض روایات کے مطابق : 
  ان الله تعالى يحاسب الخلائق كلهافي مقدار لمح البصر 
  خدا چشم زدن میں سب مخلوق کا حساب چکا دے گا۔ ؎1 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1       مجمع البیان ، سورہ بقرہ کی آیہ  202 کے ذیل میں ۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 اسی بناء پر قرآن مجید میں بہت سے گناہوں کا سرچشمہ روز جزاء کو بھول جاناقرار دیا گیا ہے۔ 
 سوره الم سجدہ کی آیہ 14 میں ہے: 
  فذوقوا بما نسیتم لقاء يومکم هذا 
  "جہنم کی آگ کا مزہ چکھو کیونکہ تم نے آج کے دن کی ملاقات کو فراموش کردیاتھا۔" 
 کچھ تعبیرات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان قیامت کے بارے میں کچھ گمان ہی رکھتا ہو تب بھی بہت سے غلط کاموں کو انجام دینے سے رک جائے گا۔ جیسا کہ کم فروشوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے: 
  الا يظن اولٰئك انهم مبعوثون ليوم عظيم 
  "کیا وہ یہ گمان نہیں کرتے کہ ایک عظیم دن وہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے"۔   (مطففین  ، 4 - 5) 
 گزشتہ زمانے میں بھی اور آج بھی مجاہدین اسلام میدان جہاد میں رجز خوانی کرتے دادا شجاعت دیتے ہیں اور بہت سے لوگ اسلامی ممالک کے دفاع اور محرومین ومستضعفین کی حمایت کے لیے  جو عظیم ایثار و فداکاری دکھاتے ہیں یہ سب دوسرے جادوانی گھر یہ اعتقاد کا نتیجہ ہے۔ علماء کے مطالعات اور مختلف تجربات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس قسم کے وسیع مظاہراس عقیدے کے سوا ممکن نہیں۔ 
 وہ مجاہد کہ جس کی منطق یہ ہو کہ : 
  قل هل تربصون بنا الااحدی الحسنين  
  کہہ دو کہ اے دشمنو! تم ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ سوائے دو سعادتوں میں 
  سے کسی ایک تک پہنچنے کے (یا تم پر کامیابی با افتخارشہادت)"۔   (توبہ ۔۔۔۔۔ 52) 
  یہ مجابد یقینًا شکست ناپذیر ہے۔ 
 موت کا چہرہ اس جہان کے بہت سے لوگوں کے لیے وحشت انگیز ہے، یہاں تک کہ اس کے نام اور ہر اس چیز سے کہ جو اس کی داعی ہے گریز کرتے ہیں ۔ لیکن موت کے بعد زندگی کا عقیدہ رکھنے والوں کے لیے نہ صرف یہ کہ وہ ناپسندہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم جہان کے لیے دریچہ ہے ، قفس کا ٹوٹ جانا ہے ، انسانی روح کا آزاد ہونا ہے ، زندان بدن کے دروازوں کا کھلنا ہے اور آزادی مطلق تک پہنچناہے۔ 
 اصولی طور پر مبداء کے بعد مسئلہ معاد خدا پرستوں اور مادہ پرستوں کے علم کی حد فاضل ہے کیونکہ اس مقام پر دو مختلف نظریے پائے جاتے ہیں ۔ 
 ایک نظریہ تو وہ ہے کہ موت کو جس میں فنا اور نابودی مطلق سمجھاجاتا ہے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اس سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس نظریے سے مطابق سب چیزیں اس کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ 
 دوسرا نظریہ یہ ہے کہ موت ایک خلقت جدید ہے اس سے انسان ایک کشادہ تر اور روشن عالم میں قدم رکھتا ہے۔ اس پر وسیع و عریضں آسمان کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ 
 یہ فطری بات ہے کہ اس مکتب کے طرفدار نہ صرف یہ کہ ہدف و مقصد کی راہ میں موت و شہادت سے خوف نہیں کھاتے بلکہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے مکتب سے ہدایت حاصل کرکے انہی کی طرح کہتے ہیں: 
  * والله لابن ابي طالب انس بالموت من الطفل بثدی امه" 
  "خدا کی قسم ! ابوطالب کے بیٹے کی موت سے محبت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جو ایک 
  شیرخوار بچے کو اپنی ماں کے پستان سے ہوتی ہے۔ ؎1 " 
 ایسے لوگ مقصد کی راہ میں موت کا استقبال کرتے ہیں۔ 
 اسی وجہ سے جب زمانے کے مجرم عبدالرحمن ابن ملجم کی تلوار کی ضرب آپؐ کے سر مبارک پرلگی 
 تو آپ نے فرمایا : 
  "فزت برب الکعبہ" 
  "کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہوگیا اور مجھے راحت و سکون مل گیا"۔  
  مختصر بات یہ ہے کہ معاد و قیامت پر ایمان ، ڈرپوک اور بے مقصد انسان کو شجاع ، بہادراور بامقصد انسان میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کی زندگی رجز خوانیوں ، قربانیوں ، پاکیزگی اور تقوٰی سے معمور ہوجاتی ہے ۔