Tafseer e Namoona

Topic

											

									  1- معاد کا اعتقاد ایک فطری امر ہے 

										
																									
								

Ayat No : 81-83

: يس

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ۸۱إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۸۲فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۸۳

Translation

تو کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوباہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے. اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے. پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے.

Tafseer

									 1- معاد کا اعتقاد ایک فطری امر ہے : 
 اگر انسان فنا کے لیے پیدا کیا گیا ہوتا تو پھر اسے "فنا" کا عاشق ہونا چاہیے اور موت سے لطف اندوز ہونا چاہیئے ــــ چاہے موت برمحل اور عمر کے آخری حصہ میں ہو۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ موت (بمعنی نیستی) کا خیال انسان کے لیے کسی زمانے میں بھی خوش آئند نہیں رہا- ہم دیکھ کرتے ہیں کہ وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ قوت سے بھاگ رہا ہے ۔
 مومیا کر مُردوں کے جسموں کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا اور اہرام مصر جیسے دائمی مقبرے بنانا اور آب حيات ،اکسیر جوانی اور عمر بڑھانے والی چیزوں کے پیچھے بھاگنا - بقا کے ساتھ انسان کے عشق کی ایک واضح دلیل ہے۔ 
 اگر ہم فنا کے لیے پیدا ہوتے ہیں ، توبقا سے اس لگاؤکا کیا مفہوم ہوسکتا ہے ؟ اس صورت میں 
تو یہ ایک فضول اور بے مصرف لگاؤ ہوگا۔ 
 ہہ مت بھولیے کہ ہم حکیم و دانا خدا کے وجود کوتسلیم کر لینے کے بعد معاد کی بحث کر رہے ہیں ۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس نے جو کچھ ہمارے وجود میں پیدا کیا ہے وہ کسی حساب کے ماتحت ہی ہوگا اور وہ اس عالم بقاء کے ساتھ عشق بھی کسی حساب کے ماتحت ہی ہوگا اور وہ اس عالم کے بعد کی خلقت اورجہان آخر سے ہم آہنگی ہے۔
 دوسرے لفظوں میں اگر دستگاہ خلقت نے ہمارے اندر پیاس پیدا کی ہے، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ خارج میں پانی کا وجود ہے۔ اسی طرح اگر جنسی خواہش اور جنس مخالف سے انسانوں میں لگاؤ موجود ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ خارج میں جنس مخالف کا وجود ہے. ورنہ کسی چیز کی عدم موجودگی کی صورت میں اس کی خواہش کا ہونا حکمت آفرینش سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ 
 دوسری طرف جب ہم تاریخ بشر کا قدیم ترین ایام سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں انسان کے اس راسخ عقیدے کی بہت سی نشانیاں ملتی ہیں۔ 
 وہ آثار کہ جو گزشتہ انسانوں ـــــ یہاں تک کہ تاریخ سے پہلے کے انسانوں ـــ کے آج ہماری دسترس میں ہیں ان سے اس اعتقاد کی شہادت ملتی ہے ، خصوصًامُردوں  کے دفن کرنے کا طریقہ ، قبریں بنانے کی کیفیت ، حتٰی کہ مُردوں کے ساتھ کچھ چیزیں دفن کرنا ، اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے ناآگاه وجدان میں موت کے بعد کی زندگی کا اعتقاد چھپا ہوا تھا۔ 
 ایک مشہور ماہر نفسیات کہتا ہے: 
 دقیق تحقیقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پہلے نوع بشر کے قبائل ایک قسم کے مذہب کے حامل تھے ۔ کیونکہ وہ اپنے مُردوں کو ایک خاص طریقے سے سپردخاک کرتے تھے اور ان کے کام کاج کے آلات ان کے ساتھ رکھ دیا کرتے تھے اور اس طریقے سے دوسری دنیا کے لوگوں کو اپنے عقیدے کا ثبوت مہیا کرتے تھے ۔ ؎1 
 یہ تمام باتیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ قومیں حیات بعد از موت کو قبول کرتی تھیں، اگراس کی تفسیر میں غلط راستے پر چلتی تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ زندگی بعینہ اس زندگی کی طرح ہے۔ 
 بہرحال اس قدیمی بنیادی اعتقاد کو ایک معمولی اور عام خیال یا صرف ایک رواج اور عادت کا نتیجہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ 
 تیسری طرف ایک اندرونی عدالت کا وجود جسے "وجدان" کہتے ہیں ، معاد کے فطری ہونے کا ایک اور گواہ ہے۔ 
 ہر انسان نیک کام انجام دے کر اپنے وجدان کے اندر ایک سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے ، ایسا سکون کہ جسے قلم بیان کرنے سے قاصرہے۔ 
 اس کے برعکس انسان گناہوں خصوصًا بڑے بڑے جرائم کرنے کے بعد پریشانی اور بے سکونی  محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خودکشی پر تیار ہوجاتا ہے یا خود کو سزا اور سولی کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے وجدان کے شکنجے سے رہائی کا سبب سمجھتا ہے۔ 
 اس حالت میں انسان خود سے پوچھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھ جیسا ایک چھوٹا سا وجود تو اس قسم کی عدالت کا حامل ہو لیکن یہ عظیم عالم اس قسم کے وجدان اور عدالت سے خالی ہو۔ 
 اس طرح مختلف طریقوں سے مرنے کے بعد کی زندگی اور مسئلہ معاد کا فطری ہونا ہم پر واضح ہوجاتا ہے : 
 ٭- انسانوں کے بقاء سے عمومی عشق کے حوالے سے۔ 
 ٭- پوری انسانی تاریخ میں اس ایمان کے حوالے سے اور 
 ٭- انسان کی روح کے اندر اس کے ایک چھوٹے سے نمونے کی موجودگی کے حوالے سے