1- اس سبز درخت ہی کیوں؟
الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ ۸۰
اس نے تمہارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ہو.
چند نکات
1- اس سبز درخت ہی کیوں؟
بعض اوقات ذہن میں آتا ہے کہ قرآن نے یہاں "شجر اخضر" (سبزدرخت) کی تعبیر کیوں بیان کی ہے حالانکہ سبز اور گیلی لکڑی سے آگ جلانا بہت ہی مشکل ہے کیا
ہی اچھا ہوتا کہ اس کے بجائے "الشجرالیابس" (خشک درخت) کی تعبیر استعمال ہوتی کہ جو زیادہ برمحل تھی۔
لیکن قابل توجہ بات یہی ہے کہ یہ سبز درخت ہی ہیں کہ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتے ہیں اور سورج کی روشنی ذخیرہ کرنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ خشک
درخت اگرسینکڑوں سالوں تک سورج کی حرارت اور روشنی کے سامنے رکھے رہیں تو ان کی حرارت کی توانائی کے ذخیرے میں ذره بھر اضافہ نہ ہوگا ۔ وہ اسی وقت تک اس کام
پرقادرہیں جب تاب کہ وہ سبزاورزندہ ہیں ۔
اس بناء پر صرف "شجراخضر" (سبزدرخت) ہی ہے کہ جو اپنی سبزومرطوب لکڑی میں حرارت اور روشنی کو پراسرارطریقے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
لیکن جس وقت وہ خشک ہوجائے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرنے اور سورج کی توانائی کو ذخیرہ کرنے کا عمل ختم ہوجاتاہے ۔ اس اصول کی بناء پریہ تعبیرتوانائیوں
کی بازگشت کی خوبصورت تصویرکشی بھی کرتی ہے اور قرآن مجید کے ایک جادوانی علمی معجزے کو بھی پیش کرتی ہے۔
اس کے علاوہ اگر ہم مذکورہ بالا دیگر تفسیروں کی طرف بھی رجوع کریں تو "شجراخضر" کی تعبیر بھی مناسب و زیبا ہے کیونکہ سبز درختوں کی لکڑیاں جس وقت ایک
دوسرے کے ساتھ زور سے ٹکراتی ہیں تو چنگاری پیدا ہوتی ہے ایسی چنگاری کہ جو آگ جلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ہم قدرت خدا کی عظمت جان سکتے ہیں کہ
جس نے آگ کو پانی کے اندر اور پانی کو آگ کے اندر محفوظ کردیا ہے۔