توانائیوں کی بازگشت
الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ ۸۰
اس نے تمہارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ہو.
تفسیر
توانائیوں کی بازگشت
گزشتہ آیات میں معاد کے سلسلے میں بحث تھی اور اس میں مسئلہ معاد کے امکان اور ہر قسم کا شک و شبہ رفع کرنے کے لیے معنی خیز اور زندہ اشارے وجود تھے۔
زیر بحث آیات قلب قرآن یعنی ہرسورہ یٰسین کی آخری آیات ہیں ۔ ان میں بھی اسی مسئلے کی مزید تشریح و توضیح پیش کی گئی ہے اور تین چار اچھے طریقوں سے اسے بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:" وہ خدا کہ جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی اور تم اسکے ذریعے آگ روشن کرتے ہو"۔وہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنے پربھی
قادر ہے (الذي جعل لكم من الشجر الأخضر نارًا فاذا انتم منه توقدون)۔
کتنی عجیب اور عمدہ تعبیر ہے۔ ہم اس میں جتنا زیادہ غوروفکرکرتے ہیں اتنے ہی زیادہ عمیق اورگہرے معانی کھلتےچلےجاتے ہیں۔
اصولی طور پر قرآن مجید کی بہت سی آیات کئی کئی معنی دیتی ہیں۔ بعض تو ہر زمانے اور ہرجگہ کے لوگوں سے سمجھنے کے لیے سادہ اور عام ہیں اور بعض
دوسری آیات ذرا عمیق ہیں جو خواص کے سمجھنے کے لائق ہیں اور بعض آیات بہت عمیق اور گہری ہیں جو خواص میں سے بھی منتخب افراد کو ، یا دوسرے زمانوں اورمستقبل بعید میں
سمجھ میں آنے والی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یہ معانی آپس میں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی پرمعنی تعبیر میں جمع ہیں ۔
زیر بحث آیت یہی مفہوم بیان کرتی ہے۔
پہلی تفسیر بہت سے گزشتہ مفسرین نے بیان کی ہے اس کا ایک سادہ اور واضح مفہوم ہے کہ جو عام لوگوں کے لیے بھی قابل فہم ہے۔ وہ یہ ہے کہ قدیم زمانوں میں
عربوں کے اندر یہ بات رائج تھی کہ وہ آگ جلانے کے لیے درختوں کی لکڑی استعمال کر تےتھے خصوصًا "مرخ" اور"عفار" کے درختوں کی لکڑی کہ جو حجاز کے بیابانوں میں عام
اگتی تھی۔
"مرخ" (بروزن "چرخ") اور "عفار" (بروزن "تبار") دو قسم کی "آگ لگانے والی" لکڑیاں ہیں۔
کہ پہلی کو نیچے رکھ کر دوسری کو اس کے اوپر مارتے تھے اور اس سے آگ لگانے والے پتھر (چقماق) کی طرح شعلہ پیدا ہوجاتاتھا۔ موجودہ زمانے کی ماچس کے
بجائے لوگ اسی سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
قرآن کہتا ہے : وہ خدا کہ جو ان سبز درختوں سے آگ نکال سکتا ہے ، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے ۔
"پانی" اور "آگ" ... دو متضاد چیزیں ہیں ۔ جو ہستی ان دونوں کو ایک ساتھ اکٹھا رکھنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادرہے کہ "زندگی" کو "موت" کے ساتھ اور "
موت" کو "زندگی" کے ساتھ جمع کردے ۔
کیا کہنا ہے اس عالم ہستی کے خالق کا کہ جس نے آگ کو پانی کے اندر اور پانی کو آگ کے اندر محفوظ کر رکھا ہے مسلمہ طور پر اس کے لیے مردہ انسانوں کے
جسموں پر لباس زندگی پہنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
اگر ہم اس معنی سے ذرا اور آگے قدم بڑھامیں تو اس سے زیادہ وقیق تفسیر تک پہنچ جائیں گے۔ وہ یہ کہ آگ جلانے کی خاصیت درختوں کی لکڑیوں کے ذریعہ "مرخ"
اور "عفار" کی لکڑیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ خاصیت تمام درختوں میں اور تمام اجسام عالم میں موجود ہے (اگرچہ مذکورہ دونوں لکڑیاں اپنے مخصوص مواد اور وضع و
کیفیت کے لحاظ سے اس کام کے لیے زیادہ کار آمد ہیں)۔
خلاصہ یہ کہ تمام درختوں کی لکڑیاں اگر زور کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو ان سے شعلہ نکلے گا ، یہاں تک کہ "سبز درختوں کی لکڑیوں سے بھی"۔
اسی وجہ سے بعض اوقات جنگلوں میں وسیع اور وحشتناک آگ لگ جاتی ہے کہ جس کا عامل کوئی انسان نہیں ہوتا۔ صرف وہ ہوائیں اور طوفان کہ جن کے چلنے سے
درختوں کی شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور ان کے ٹکرانے سے چنگاری نکل کر خشک پتوں پر جاگرتی ہے، اس کے بعد ہوا کے چلنے سے آگ پھیل جاتی ہے اور یہ سب
چیزیں اس کا اصلی عامل ہوتی ہیں۔
یہ وہی بجلی کا شعلہ ہے کہ جو ٹکرانے اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہی آگ ہے کہ جو تمام موجودات عالم کے ذرات میں چھپی ہوئی ہے اور
وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے اور لگنے سے ظاہر ہوتی ہے اور "شجر اخضر" (سبز درخت) سے "نار" (آگ) پیدا کر دیتی ہے ۔
یہ ایک زیادہ وسیع تفسیر ہے کہ جس میں زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماع اضداد نظر آتا ہے اور "فنا" میں "بقا" کی زیادہ واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک تیسری تفسیر بھی ہے کہ جو اس سے بھی گہری عمیق تر ہے اور ہم نے دورحاضر کے علوم کی مدد سے اس تک دسترس حاصل کی ہے اور
اسے ہم نے"توانائیوں کی بازگشت" قرار دیا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ نباتات کا ایک اہم کام ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لینا اور "نباتاتی خلیے" بنانا ہے (یہ سیل کہ جو درختوں کا بنیادی جزو ہیں ان کے بڑے
اجزاء کاربن ، آکسیجن اور ہائیڈروجن ہیں)۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خلیے (CELLS) کس طرح بنتے ہیں؟ درختوں اور نباتات کے اجسام ہوا سے "کاربن ڈائی آکسائیڈ" حاصل کرکے اس کا تجزیہ کرتے ہیں
اس کی "آکسیجن" کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور کاربن کو اپنے وجود میں محفوظ کرلیتے ہیں اور اسے پانی کے ساتھ ترکیب دے کراس درختوں کا جسم بناتے ہیں.
لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ طبیعی علوم کی گواہی کے مطابق جو بھی کیمیائی ترکیب انجام پاتی ہے وہ بات تو توانائی کو جذب کرکے وجود میں آتی ہے یا اسے آزاد کرنے
سے (غور کیجئے)۔ ؎1
اس بناء پر جب وقت درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرنے کے عمل میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ اس قانون کے مطابق ایک انرجی کے وجود کے محتاج ہیں اور یہاں وہ
سورج کی کچھ گرمی اور روشنی سے ایک توانائی کے طور پر استفادہ کرتے ہیں۔
اس طرح سے درختوں کا جسم بنتے وقت سورج کی توانائی کی کچھ مقدار بھی ان کے اندر جمع ہوجاتی ہے اور جس وقت ہم لکڑیوں کو جلاتے ہیں تو وہی سورج کی
ذخیرہ شدہ توانائی آزاد ہوجاتی ہے کیونکہ کاربن ہوا۔ کی "آکسیجن" کے ساتھ مل کر دوبارہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بنا دیتی ہے اور آکسیجن اور ہائیڈروجن (پانی کی کچھ مقدار) آزاد ہوجاتی ہے۔
ان اصطلاحی تعبیروں کو چھوڑتے ہوئے بہت ہی سادہ اور آسان عبارت میں یہ ایک مطبوع نور اور حرارت کہ جو سردیوں میں کسی دیہاتی کی کٹیا یا کسی شہری کی
انگیٹھی کو گرم اور روشن کرتی ہے سورج کا وہی نوروحرارت ہے کہ جو چند سالوں یا دسیوں سالوں میں ان درختوں کی لکڑی میں ذخیرہ ہوئی ہے اور جوکچھ درخت نے اس طویل عمر
میں تدریجًا اور آہستہ آہستہ سورج سے لیا ہے اور بےکم و کاست اسے و اپس دے رہاہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "توانائی" جذب کرنے کے عمل کو ENDOTHERMIC کہتے ہیں اور خارج کرنے کا عمل EXOTHERMIC کہلاتا ہے, (ت ن)
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ جو کہتے ہیں کہ کره زمین کی تمام توانائیاں سورج کی توانائی کی طرف لوٹتی ہیں ، اس کی ایک اس کی صورت یہی ہے۔
یہ وہ منزل ہے کہ جہاں تم توانائیوں کی بازگشت تک پہنچ جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نور وحرارت کہ جو اس فضا میں بکھرجاتی ہے اور درختوں کے پتوں
اور ان کی لکڑیوں پر نوازش کرتی اور ان کی پرورش کرتی ہے وہ کبھی بھی نابود نہیں ہوتی بلکہ اس کا چہرہ بدل جاتا ہے اور ہم انسانوں کی آنکھوں سے دور درختوں کے تنوں ، شاخوں
اور پتوں کے اندر پنہاں ہوگئی ہے اور جس وقت آگ کا ایک شعلہ خشک لکڑی تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی قیامت شروع ہوجاتی ہے اور سورج کی وہ تمام توانائی جو درخت میں پنہاں تھی
اسی لمحے اس کا حشر و نشرظاہر ہوجاتا ہے، بغیر اس کے کہ ایک شمع کی روشنی کے برابر بھی اس میں کچھ کمی ہو۔ (پھر غور کیجئے گا)۔
اس میں شک نہیں کہ یہ معنی آیت کے نزول کے زمانہ میں عامة الناس پر واضح نہیں تھا ، لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ کے
قرآنی آیات کے معانی کے کئی مرحلے ہیں اور مختلف سطحوں میں اختلاف استعداد کے لحاظ سے ظاہر ہوتے ہیں۔
ایک دن لوگ اس آیت سے ایک چیزسمجھتے تھے ، آج ہم اس سے کہیں زیادہ چیزیں سمجھ رہے ہیں اور شاید آئندہ آنے والے اس سے بھی کچھ آگے بڑھ جائیں اورزیادہ
سمجھ سکیں. اس کے باوجود یہ تمام معانی صحیح ہیں اور مکمل طور پر قابل قبول اور آیت کے معنی میں جمع ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ