شان نزول
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ ۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ۷۸قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ۷۹
تو کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے اور وہ یکبارگی ہمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا ہے. اور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے.
شان نزول
اکثر تفاسیر میں نقل ہوا ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص جس کا نام ابی بن خلف یا امیہ بن خلف یا عاص بن وائل تھا بوسیدہ ہڈی کا ایک ٹکڑا تلاش کرکے لایا اور کہا کہ میں اس محکم دلیل کے ساتھ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے جھگڑا کروں گا اور معاد کے بارے میں اس کی بات کو باطل کر دوں گا، وہ اُسے لے کر پیغمبراسلامؐ کے پاس آیا (اور شاید اس میں سے کچھ حصہ پیس کر ذرہ ذرہ کیا اور زمین پرپھینک دیا اور کہا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو ازسر نو کون زندہ کر سکتا سستا (اور کونسی عقل اسے مارن سکتی ہے) اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیات اور ان سے بعد کی چارآتیں نازل ہوئیں جو مجموعی طور پر سات آیتیں بنتی ہیں ۔ ان آیات میں اسے اور اس کے ہم فکر لوگوں کو ایک منطقی اور : دندان شکن جواب دیا گیا ہے۔