Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خلقت اول معاد پر ایک دليل قاطع هے

										
																									
								

Ayat No : 77-79

: يس

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ ۷۷وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ۷۸قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ۷۹

Translation

تو کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے اور وہ یکبارگی ہمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا ہے. اور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے.

Tafseer

									  تفسیر
           خلقت اول معاد پر ایک دليل قاطع هے 
 ہم نے بیان کیا تھا کہ سوره سین میں کہ جو قلب قرآن ہے مبداء ، معاد اور نبوت سے مربوط گفتگو مختلف حصوں میں آئی ، یہ سورہ قرآن مجید اور مسئلہ نبوت سے شروع ہوئی تھی اور مات ایسی منظر آیات پر ختم ہورہی ہے کہ جو معاد کے بارے میں قوی ترین بیانات کی حامل ہیں۔ 
 پہلے تو انسان کو خود اس کی زندگی کے آغاز کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جبکہ وہ ایک حقیر نطفے سے زیاده حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ بات انسان کو سوچنے پر آمادہ کرتی ہے اور کہتی ہے: "کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اور بڑھتے بڑھتے وہ ایسا جری ، باشعور اور ذی نطق ہوا کہ خدا ہی کے ساتھ جھگڑنے کھڑا ہوگیا اور کھلم کھلا جھگڑاکرنے والا ہوگیا"۔ (اولم يرالانسان انًا خلقناه من نطفة فاذا هو خصيم مبین)۔ ؎1
 کیسی عمدہ اور منہ بولتی تعبیر ہے ! پہلے انسان کا ذکر کرتا ہے یعنی ہرانسان - چا ہے جس اعتقاد اور مکتب سے تعلق رکھتا ہو، جتنی بھی عقل کا مالک ہو ، اس حقیقت کرپاسکتا ہے۔ 
 پھر قرآن "نطفہ" کے بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ لغت میں "نطفہ" دراصل ناچیز اور بے قدر و قیمت پانی کے معنی میں ہے ، یہ ذکراس لیے ہے کہ مغرور و خود پسند انسان تھوڑا بہت غوروفکر کرکے یہ جان لے کہ پہلے  روز وہ کیا تھا؟ دوسری بات ہے کہ پانی کا یہ نا چیز قطرہ بھی مکمل طور پر اس کی نشوونما کا مبداء نہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی چھوٹا سا زندہ خلیہ LIFE CELL کہ جو آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا. وہ ہزاروں خلیے کہ جو پانی کے قطرے میں تیر رہے تھے یہ ان میں سے ایک تھا ۔ ایک بہت ہی چھوٹے سے زندہ خلیے کے ساتھ کہ جو عورت کے رحم میں تھا مل کریہ ایک مرکب بنا اور انسان نے اس خوردبینی موجود سے عالم ہستی میں قدم رکھا۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
   ؎1     "خصیم" اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو خصومت اور جھگڑے کے درپے ہو اور "رویت" یہاں جاننے کے معنی میں ہے۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پھر اس نے تکامل و ارتقاء کے مراحل یکے بعد دیگرے طے کیے۔ جن میں سے قرآن کی سورہ مومنون کے اوائل کے مطابق چھ مرحلے رحم کے اندر تھے (نطلقه1 ، پھرعلقہ2 ، اس کے بعد مضغہ3 ، اس کے بعد ہڈیوں4  کا ظاہر ہونا ، پھر بڑھیوں پر گوشت کا پڑھنا اور آخر میں روح لینی حس و حرکت کا پیدا ہونا)۔ 
 تولد کے موقع پر وہ ایک بہت ہی ضعیت و ناتواں بچہ تھا ۔ اس کے بعد تکامل و ارتقاء کے مراحل تیزی 
کے ساتھ طے کرتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ جسمانی اور عقلی بلوغ و رشد کی حد تک پہنچ گیا۔ 
 ہاں! یہ ضعیف و ناتواں موجود اتنا قوی ہو گیا کہ "اللہ" کی دعوت کے مقابلے میں لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوگیا اور اسے نے اپنے ماضی و مستقبل کو بالکل ہی فراموش کردیا اور "خصيم مبین" کا واضح مصداق ہوگیا۔ 
 قابل توجہ بات یہ ہے کہ "خصيم مبين"  (واضح طور پر جھگڑنے والا کی تعبییر ایک تو قوت کے جنبہ کی حامل ہے اور ایک ضعف و کمزوری کے جنبہ کی . یہاں پر ظاہرًا قرآن کے پیش نظر دونوں جہات ہیں ۔
ایک طرف تو یہ کام انسان کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ صاحب عقل وشعورہے اور استقلال ، اراده ، اختیار اور قدرت رکھتا ہے (اور ہم جانتے ہیں کہ انسانی زندگی کا اہم ترین امتیاز یہ ہے کہ وہ صاحب نطق ہے) بات کرتا ہے اور ان باتوں کے مضامین و مطالب اس کے دماغ میں پہلے پیدا ہوتے ہیں ، پھر جملوں کے قالب میں ڈھلتے ہیں اور پھر یہ باتیں دہن سے یوں نکلتی ہیں جیسے کسی خود کار ہتھیار سے گولیاں کسی ہدف کی طرف مسلسل پھینکی باتیں ہیں اور یہ ایسا کام ہے کہ جو انسان کے علاوہ کسی بھی جاندار سے ممکن نہیں ہے۔ 
 اس طرح سے قرآن خدا کی قدرت نمائی کو اس عظیم قوت میں مجسم کرتا ہے کہ جو اس نے پانی کے اس ناچیز قطرے کو دی ہے۔ 
 لیکن دوسری طرف سے انسان ایک فراموش کار اور مغرور ذات ہے۔ ان نعمتوں کو کہ جو اس کے ولی نعمت نے اُسے بخشی ہیں اسی کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے اور لڑنے جھگڑنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اس بے خبری اور خیرہ سری کو کیا کہیے؟ 
     ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس کی بے خبری کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ  "اس نے ہمارے لیے مثال دی اور اپنے خیال میں اس نے ایک دندان شکن دلیل پیدا کرلی ۔ حالانکہ وہ اپنی ابتدائی خلقت کو بھول گیا اور اس نے کہہ دیا کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے ، جبکہ یہ بوسیده ہوچکی ہیں (وضرب لنا مثلًا ونی خلقه قال من یحي العظام وهی رهیم)۔ ؎1  
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   "رمیم" ماده "رم" سے ہے۔ مفردات راغب کے مطابق اصل میں "رم" (بروزن "ذم) کہنہ اور بوسیدہ موجود کی اصلاح و ترمیم کے معنی میں ہے ۔ "رمۃ" (بروزن ہمت) خصوصیت کے ساتھ بوسیدہ ہڈی کے معنی میں آتا ہے اور "رمہ" (بروزن "قبہ") بوسیدہ اور پرانی طناب کو کہا جاتا ہے۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
یہاں ضرب المثل سے مراد عام ضرب المثل اور تشبیہ و کنایہ نہیں ہے  بلکہ اس سے مراد بیان استدلال ہے اور ایک مطلب کلی کے اثبات کے لیے مصداق کا ذکرکرنا مراد ہے۔ 
 ہاں ! (ابی بن خلف یا امیہ بن خلف یا عاص بن وائل) نے بیابان سے بوسیدہ ہڈی کا ایک ٹکڑا تلاس کیا اور وہ ہڈی جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی کی ہے ، کیا وہ طبیعی موت سے مراتھا؟ یا زمانہ جاہلیت کی کسی جنگ میں المناک موت کا شکارہواتھا؟ یا بھوک کی وجہ سے مراتھا؟ بہرصورت وہ سوچتا تھا کہ نفی معاد کے لیے اسے ایک دندان شکن دلیل مل گئی ہے غصے اور خوشی کےملےجلے جزبات کے ساتھ ، ہڈی کے ٹکڑے کو اٹھا کر کہتا ہے :
  الاخصمن محمدًا 
  "میں اس دلیل کے ساتھ محمد (ص) سے لڑوں گا، "اس طرح سے کہ وہ کوئی جواب نہ دے سکے گا ۔ 
 وہ تیزی سے پیغمبر اسلامؐ کے پاس آیا اور چیخ کر کہنے لگا: 
 مجھے بتلاؤ کس میں یہ قدرت ہے کہ اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کردے۔ 
 اس کے بعد اس نے ہڈی کے کچھ حصے کو پیسں کر زمین پر چھڑک  دیا . وہ سوچ رہا تھا کہ پیغمبر اسلامؐ اس دلیل کا کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ 
 یہ بات جاذب نظر ہے کہ قرآن مجید نے ایک ہی مختصرسے جملہ  "ونسي خلقہ" سے اس کا جواب دے دیا ۔ اگرچہ اس کے بعد مزید وضاحت اور اضافي دلائل بھی بیان کیے ۔
 قرآن کہتا ہے : اگر تو اپنی خلقت کو بھول نہ گیا ہوتا تو ہرگزایسا بے ہودہ اور کمزور استدلال اختیارنہ کرتا، اے فراموش کارانسان! تو اپنے پیچھے کی طرف مڑکردیکھ اور اپنی خلقت پر نگاہ کر- تو کس طرح سے ایک ناچیز نطفہ تھا ۔ اس خالق مطلق نے ہر روز ایک نیا لباس حیات تیرے بدن پر پہنایا تُوتو ہمیشہ سے موت و معاد کی حالت میں ہے ۔ مردہ جمادات سے تیری بنیاد پڑی پھر مردہ نباتات سے حیوان نے استفادہ کیا ۔ اور مردہ حیوانات سے تیری نشو و نما ہوئی اور تو انسان ہوگیا۔ لیکن توایسا فراموش کار ہے کہ ان تمام چیزوں کو بھول کر اب پوچھتا ہے کہ ان بوسیدہ  ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ 
 یہ ہڈیاں اگر مکمل طور پر بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجائیں تو زیادہ سے زیادہ پھر مٹی ہوجائیں گی توکیا تو پہلے دن مٹی نہیں تھا؟ 

 لہذا بلا فاصلہ پیغمبر اسلام کو حکم دیا گیا ہے کہ اس خیرہ سر، مغرور اور فراموش کار سے "کہیے کہ اسے وہی 
زندہ کرے گا جس نے پہلے دن اسے خلق کیا تھا (قل یحييها الذي انشأها اول مرة)۔ 
 اگر آج اس کی ایک یادگارہڈی باقی رہ گئی ہے تو ایک دن ایسا بھی تھا کہ یہ بوسیدہ ہڈی بھی نہیں تھی بلکہ مٹی تک بھی موجود نہیں تھی ۔ ہاں ! وہی ذات کہ جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے اس کے لیے بوسیدہ ہڈی کو نئی زندگی عطا کرنا زیادہ آسان ہے۔ 
 اگر تم یہ سوچتے ہو کہ یہ اور بوسیدہ ہڈیاں جب مٹی بن جاتی ہیں اور ادھر اُدھر بکھر جاتی ہیں تو ان کے اجزا کو کون پہچان سکتا ہے اور کون انہیں مختلف مقامات سے جمع کرسکتا ہے؟تو اس کا جواب بھی واضح ہے "وہ ہر مخلوق سے آگاہ ہے "اور ان کی تمام خصوصیات کو جانتا ہے (وهو بكل خلق عليم) - 
 جو ہستی اس قسم کا علم اور اس قسم کی قدرت رکھتی ہو ، اس کے لیے مسئلہ معاد اور مُردوں کو زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ 
 اگر ہم مٹی کے ڈھیرمیں کہ جس میں لوہے کے چھوٹے چھوٹے ذرات بکھرے ہوں ہیں ، مقناطیس کا ایک ٹکڑا گھمائیں تو وہ ان تمام ذرات کو فورا جمع کرلے گا۔ حالانکہ وہ ایک بے جان موجود سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ خداوند تعالٰی ہرانسان کے تمام ذرات بدن کو خواہ وہ کره زمین کے کسی بھی گوشہ میں ہوں ایک ہی حکم سے آسانی کے ساتھ جمع کردےگا۔ 
 وہ نہ صرف انسان کی بنیاد خلقت سے آگاہ ہے بلکہ ان کی نیتوں اور اعمال سے بھی آگاہ ہے اور ان کا حساب و کتاب اسی کے سامنے واضح و روشن ہے۔ 
 اس بنا پر اعمال و نیات اور اندرونی اعتقادات کا حساب بھی اس کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرے گا۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیه 284 میں ہے: 
  وان تبدوا ما في انفسکم او تخفوه بحاسبكوبه الله 
  "اگر تم اس چیز کو جسے دل میں رکھتے ہو چپاؤ یا ظاہرکرو ، خدا اس کا تم سے حساب سے لےلے گا"۔ 
فرعون مسئلہ معاد میں شک کرتا تھا اور گزشتہ لوگوں کے زندہ ہونے اور ان کے حساب و کتاب سے اظہار تعجب کرتا تھا۔ حضرت موسٰیؑ کو حکم ہوا کہ اس سے یہ "کہیں کہ اس کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میں ثبت ہے اور میرا پروردگار نہ تو اشتباہ کرتا ہے اور نہ ہی بھولتاہے". 
  قال علمها عند ربي في كتاب لا يضل ربي ولا ينسي  (طٰہٰ ـــــ 52) 
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ