Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند قابل توجه نکات

										
																									
								

Ayat No : 71-76

: يس

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ۷۱وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ ۷۲وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ۷۳وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ ۷۴لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ ۷۵فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۷۶

Translation

کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے فائدے کے لئے اپنے دست قدرت سے چوپائے پیدا کردیئے ہیں تو اب یہ ان کے مالک کہے جاتے ہیں. اور پھر ہم نے ان جانوروں کو رام کردیا ہے تو بعض سے سواری کا کام لیتے ہیں اور بعض کو کھاتے ہیں. اور ان کے لئے ان جانوروں میں بہت سے فوائد ہیں اور پینے کی چیزیں بھی ہیں تو یہ شکر خدا کیوں نہیں کرتے ہیں. اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنالئے ہیں کہ شائد ان کی مدد کی جائے گی. حالانکہ یہ ان کی مدد کی طاقت نہیں رکھتے ہیں اور یہ ان کے ایسے لشکر ہیں جنہیں خود بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا. لہٰذا پیغمبر آپ ان کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں ہم وہ بھی جانتے ہیں جو یہ چھپا رہے ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں جس کا یہ اظہار کررہے ہیں.

Tafseer

									
  چند قابل توجه نکات 
 1- مختلف نعمتیں کہ جن میں انسان سرسے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے، ان میں سے یہان چاپایوں کی طرف اشارہ ہورہا ہے کیونکہ وہ انسان کی روزمرہ کی 

زندگی میں ہمیشہ حاضررہتے ہیں ، انسانی زندگی ان کے ساتھ اس حد تک وابستہ ہے کہ اگر وہ انسانی زندگی سے حذف ہوجائیں تو واقعًا انسان کی زندگی مشکل اور پیچیدہ ہو جائے۔ 
 2- "عملت إيدينا"  (ہمارے ہاتھوں نے انہیں انجام دیا) ۔ یہ جملہ پروردگار کی مستقیم DIRECT قدرت کے اعمال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انسان 

کا اہم ترین عضو کہ جس کے ساتھ وہ اپنی قدرت کو عمل میں لاتا ہے ، اس کے ہاتھ ہیں ۔ اسی وجہ سے "ید" (ہاتھ)  قدرت کے لیے کنایہ ہے ۔ قرآن مجید کہتاہے: 
  یدالله فوق اید یهم 
  "خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے"۔   (فتح ـــــــ 10 )
 بہرحال "ایدی" کا ذکر جمع کی شکل میں  پروردگار کی قدرت کے گوناں گوں مظاہرکی اشارہ ہے۔ 
 3- "فهم لھا مالكون"  (فاء تفریع کے ساتھ ) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے چوپایوں کو اپنی قدرت کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن اس کی مالکیت 

انسانوں کو بخش دی ہے اور اس سے لطف پروردگار کی انتہا ظاہرہوتی ہے ، اس بناء پر وہ اشکال کہ جو بعض مفسرین کے لیے یہاں "فاء"تفریع" میں پیدا ہوگیا ہے ختم ہوجاتا ہے۔ یہ 

بالکل اسی طرح ہے کہ ہم کسی سے کہیں کہ یہ باغ ہم نے آباد کیا ہے لیکن تم اس سے فائدہ اٹھاؤگے اور یہ انتہائی محبت و ایثار کی نشانی ہے۔ 
 4- "ذللناها لهم" انسانوں کے لیے چوپائے رام ہونے کے اہم مسئلے کی طرف اشارہ ہے یہ طاقتور حیوانات کہ جو کبھی کبھی نادر طور پر خدا کے "

ذللناها"  کے فرمان کو فراموش کرتے ہوۓ عصیان و طغيان پر اتر آ تے ہیں تو اس قدر خطرناک ہو جاتے ہیں کہ دسیوں افراد ان کے مقابلہ میں عاجز آجاتے ہیں لیکن عام حالات میں اونٹوں 

کی ایک قطار کو ایک رسی سے باندھ کر ایک چند سالہ بچے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے تو وہ انہیں جہاں اس کا دل چاہے لے جاتا ہے۔ 
 واقعًا عجیب بات ہے، نہ تو انسان اس بات پر قادر ہیں کہ ایک مکھی ہی پیدا کرسکیں اور نہ ہی وہ ایک مکھی کو اپنا میطع و فرمانبردار بناسکتے ہیں لیکن خداۓ قادرومنان 

نے لاکھوں قسم کے چوپائے پیدا کیے ہیں اور انہیں انسان کے لیے رام اور مطیع کردیا ہے اور وہ ہمیشہ انسان کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ 
 5- "فمنها ركوبهم ومنها ياکلون " میں "رکوب"  صفت مشبہ ہے اور "مرکوب"  یعنی وہ جانورکہ جس پر سوار ہوتے ہیں کے معنی میں ہے ۔ یہ جملہ اس 

بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کچھ حیوانات کو تو مرکب اور سواری کے طور پر استعمال کرتا ہے اور کچھ کو کھانے کے لیے ۔
 اگرچہ تمام عام جانوروں کا گوشت اسلام کی نظر میں حلال ہے لیکن عملی طور پر ان میں سے کچھ ہی جانور کھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلًا گدھے کا گوشت 

سوائے مجبوری کی حالت کے کوئی نہیں کھاتا۔ 
 البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ "منھا" کو دونوں جملوں میں "تبعیض" کے معنی میں لیا جائے لیکن اگر پہلا  "منها" تبعیض حیوانات اور دوسرا "تبیعض" اجزاء کے لیے 

ہو ، تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ بعض جانوروں کو تم اپنی سواری بناتے ہو اور بعض کے اجزائے بدن سے غذا حاصل کرتے تو (کیونکہ ہڈیاں وغیره غذا کے قابل نہیں ہیں) ۔ 
 6-  "لهم فيها منافع" کا جملہ ان دوسرے بہت سے فوائد کی طرف اشارہ ہے کہ جو چوپایوں سے انسان کو حاصل ہوتے ہیں ۔ ان کی اوان سے طرح 

طرح کے لباس اور خیمے بنتے ہیں اور ان کا چمڑا لباس جوتا ٹوپی اور زندگی کی دوسری مختلف اور ضروریات کے کام آتا ہے ۔ یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی جبکہ مصنوعات نے 

انسانی زندگی کا چہرہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے پھر بھی انسانوں کی یقینی ضرورت لباس کے لحاظ سے بھی اور باقی وسائل زندگی سے لحاظ سے بھی چوپایوں سے اپنی پوری شد ومد کے 

ساتھ باقی ہے۔ 
 یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں انواع و اقسام کے سیرم (EXTRACT ) اور ویکسین (VACCINE ) کہ جو بیماریوں کا مقابلہ کرتے یا خفظ ماتقدم کے لیے 

موثر ترین ذریعہ ہیں چوپایوں سے ہی حاصل ہوتی کہ جو ان کے خون سے مہیا کیا جاتا ہے۔
 یہاں تک کہ چوپایوں کی زندگی کی بے قدر و قیمت چیزیں گوبر اور پیشاب سے بھی استفادہ کیا جاتاہے اور اسے زمینوں اور درختوں کے لیےکھادکےطورکےاستعمال 

کیاجاتاہے۔ 
 7- "مشارب" کی تعبیر اس دودھ کی طرف اشارہ ہے کہ جو مختلف جانوروں سے حاصل کیا جاتاہے اور انسان کی غذا کا ایک اہم حصہ اس سے اور 

اسی سے بنائی ہوئی چیزوں سے جانا ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ آج دنیا میں دودھ کی پیداوار اور دودھ سے بنی ہوئی صنعتیں مختلف ممالک کی درآمد و برآمد کا ایک اہم حصہ ہیں - وہی دودھ کہ 

جو انسان کے لیے ایک مکمل غذا ہے اور یہ خوش گوار دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے کہ جو پینے والے کے لیے باعث لذت اور ناتوانوں کےلیے توانائی بخش ہے ۔ ؎1
 8- "افلايشكرون"  استفہام انکاری کی صورت میں آیا ہے۔ یہ جملہ خدا کی بے پایاں نعمتوں پر احساس تشکر ابھارنے کی غرض سے ہے۔ جیسا کہ ہم 

جانتے ہیں "شکرمنعم کا لزوم" "معرفت خدا" کے لیے ان ایک بنیادی چیز ہے۔ کیونکہ شکر، نعمت بخشنے والے کی پہچان کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ان نعمتوں کا مطالعہ اور اس 

بات کا شعور کہ بتوں کا ان میں ہرگز کوئی عمل دخل نہیں ، شرک کو باطل کرنے کا ایک وسیلہ ہوگا ۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس لیے بعد والی آیات میں مشرکین کی حالت بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: "انہوں نے خدا کے علاوہ اپنے لیے کچھ معبود بنالیے ہیں ، اس امید پرکہ وہ ان کی مدد 

کریں گے" (اور انہیں بتوں کی حمایت حاصل ہوگی) (واتخذوا من دون الله الهة لعلھم ينصرون )- 
 کیا خیال خام اور باطل نظریہ ہے کہ ان کمزور موجودات کو جو خود اپنے دفاع پربھی قادرنہیں ہیں ، زمین و آسمان کے خالق اور ان تمام نعمتوں کے بخشنے والے کے 

برابر قرار دے دیا جاۓ اور زندگی کے مشکل امور میں ان سے مدد طلب کی جاۓ۔ 
  واتخذوا من دون الله الهة ليكونوا لهم عزا 
  "ہاں ! وہ کبھی اس بنا پر بتوں کے پیچھے جاتے تھے کہ وہ ان کے لیے سرمایہ عزت 
  ہوں گے"۔   (مریم ----- 81)  
 اور کبھی انہیں خدا کی بارگاہ میں شفیع خیال کرتے ۔
  ويعبدون من دون الله مالا يضرهم ولاينفعهم ويقولون هٰؤلاء 
  شفعاؤنا عند الله 
  "وہ خدا کے علاوہ کچھ ایسی موجودات کی پرستش کرتے ہیں کہ جو انہیں کوئی ضرر پہنچاسکتے 
  ہیں اور نہ ہی کوئی نفع ، وہ کہتے ہیں کہ یہ بارگاہ خدا میں ہمارے شفیع ہیں"۔   (یونس ـــــ 18) 
 بہرحال یہ تمام خیالات نقش برآب ہیں اور جیسا کہ قرآن سوره اعراف کی آیہ 192 میں فرماتا ہے:  
  ولا يستطيعون لهم نصرًا ولا انفسهم ینصرون 
  "یہ بت نہ تو اپنے عبادت گزاروں کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
  ؎1    جانوروں کے پستانوں سے نکلنے والے دودھ میں خدا کی قدرت نمائی اور دودھ کی خوبیوں کے بارے میں ہم تفصیلی بحث میں جلد 11 میں سورہ نحل کی آیه 66 کے ذیل میں 

کرچکے ہیں ۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 بعد والی آیت میں قرآن مزیدکہتا ہے:" وہ اپنے عبادت گزاروں کی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں اور یہ عبادت کرنے والے قیامت کے دن ان کا لشکر ہوں گے اور سب کے 

سب دوزخ میں حاض ہوں گے"۔ (لا يستطيعون نصرهم وهم لهم جند محضرون)۔ 
 کتنی دردناک صورت حال ہے کہ یہ پیروکار اس دن سپاہیوں کی صورت میں بتوں کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور سب کے سب خدا کی عدالت میں حاضر ہوں گے۔ اس 

کے بعد سب کے سب دوزخ بھیج دیئے جائیں گے بغیر اس کے کہ وہ اپنے لشکر کی کوئی مشکل حل کرسکیں۔ 
 اصولی طور پر "محضرون" کی تعبیر ہر جگہ تحقیر و تذلیل کی علامت ہوتی ہے اور لوگوں کو ان کے مائل ہوۓ بغیر حاضر کرنا ان کی حقارت کی نشانی ہے۔ 
 اس تفسیر کے مطابق "وهم لھم جند محضرون" میں پہلی ضمیر " ھم"  عابدوں کی طرف اور دوسری ضمیریں معبودوں کی طرف لوٹتی ہے جبکہ بعض مفسرین نے اس 

کے برخلاف بھی خیال ظاہرکیا ہے ۔ وہ یہ کہ معبودوں اور بت اس دن عبادت کرنے والوں کا لشكر ہوں گے اورلشکر ہونے کے باوجود  معمولی سی مدد بھی ان سے نہ ہوسکے گی۔ 
 البتہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے۔ 
 بہرحال یہ تعبیریں صرف صاحب شعور شیاطین اور سرکش جن و انس جیسے معبودوں کے بارے میں صادق آتی ہیں لیکن یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس دن خدا ان 

بتوں میں عقل و شعور پیدا کردے گا جو انہوں نے پتھر اور لکڑی سے بنائے ہوں گے ۔ تاکہ وہ اپنے عبادت کرنے والوں کی سرزنش کریں ضمنی طور پر یہی پتھر اور لکڑیاں جہنم کے 

ایندھن کے طور پر ان کے ساتھ ہوں گی ۔ جیسا کہ قرآن مجید سوره انبیا کی آیہ 98 میں کہتا ہے :
  انكم وما تعبدون من دون الله حصب جھنم انتم لها واردون 
  تم بھی اور جن جن کی تم خدا کے سوا عبادت کیا کرتے تھے ، جہنم کا ایندھن ہوں گے اور 
  سب کے سب اس میں داخل ہوں گے"۔ 
 آخر کار زیربحث آخری آیت میں پیغمبراکرمؐ کی تسلی اور ان مخالفتوں , فتنہ انگیزیوں اور خرافاتی اعمال و افکار کے مقابلے میں انکی روحانی تقویت کے لیے فرمایا گیا 

ہے: اب جبکہ ایسا ہے تو ان کی باتیں تجھے غمگین نہ کریں کہ کبھی وہ تجھے شاعر کہتے ہیں اور کبھی جادوگر اور کبھی دوسری تہمتیں باندھـتے ہیں۔ کیونکہ جس چیز کو وہ دلوں میں 

مخفی رکھتے ہیں یا زبان کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں ہم وہ سب کچھ جانتے ہیں"۔ (فلا یحزنك قولھم انا نعلم ما يسرون وما يعلنون) ۔
 نہ تو ان کی نیتیں ہم سے پوشیدہ ہیں اور نہ ہی ان کی خفیہ سازشیں اور نہ ہی ان کی آشکارا تکذیبیں اور شیطنتیں ۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور ان کا حساب روز حساب 

کے لیے محفوظ رکھتے ہیں اور تجھے ہم اس جہان میں بھی ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔ 
 نہ صرف پیغمبیرؐ بلکہ ہر مومن اس الٰہی گفتار سے مطمئن ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس عالم کی ہرچیزخدا کے حضور میں ہے اور دشمنوں کے مکروفریب میں سے کوئی 

چیز اس پر مخفی نہیں ۔ وہ اپنے دوستوں کوسختی کے لمحات میں اکیلا نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ ان کا حامی و محافظ رہتا ہے۔ 


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ