Tafseer e Namoona

Topic

											

									  دلوں کی موت اور زندگی

										
																									
								

Ayat No : 69-70

: يس

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ ۶۹لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ ۷۰

Translation

اور ہم نے اپنے پیغمبر کو شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کے شایان شان ہے یہ تو ایک نصیحت اور کِھلا ہوا روشن قرآن ہے. تاکہ اس کے ذریعہ زندہ افراد کو عذاب الہٰی سے ڈرائیں اور کفاّر پر حجّت تمام ہوجائے.

Tafseer

									
  دلوں کی موت اور زندگی : 
 انسان چند قسموں کی موت و حیات کاحامل ہے۔
 پہلی تو "نباتی" موت و حیات ہے جو نشوونما ، غذا کھانے اور تولید نسل کی مظہر ہے۔ اس لحاظ سے انسان تمام نباتات کے مانند ہے۔ 
 دوسری موت و حیات "حیوانی" ہے کہ جس کی واضح نشانی حس و حرکت ہے اور ان دونوں خصوصيات میں انسان تمام حیوانات کے ساتھ شریک ہے۔ 
 البتہ تیسری قسم حیات کی وہ ہے جو انسانوں کے ساتھ مخصوص ہے ، جو انہیں نباتات اور دوسرے 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1   "لينذر" "ذکر" سے متعلق ہے کہ جو اس سے پہلے کی آیت میں ہے اوربعض نے اسے "علمنا" یا  "نزلنا" سے متعلق سمجھا ہے کہ جو مقدار ہے لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب نظر آتا ہے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
حیوانات سے جدا کرتی ہے اور وہ ہے حیات انسانی و روحانی ۔ یہ وہی چیز ہے جسے اسلامی روایات میں حیات القلوب قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر "قلب" سے مراد وہی روح ، عقل اور احساسات انسانی ہیں۔ 
 امیرالمومنین علی علیہ اسلام کے ارشادات میں نہج البلاغہ کے خطبات اور کلمات قصار میں اس مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک خطبے میں آپؑ قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں: 
  تفقهوا فيه فانه ر بیع القلوب 
  "قرآن کے بارے میں غور و فکر کرو ، کیونکہ اس میں دلوں کو حیات بخشنے والی بہار ہے"۔ ؎1 
 دوسری جگہ حکمت و دانش کے متعلق فرماتے ہیں : 
  ھي حيات للقلب الميت 
  "حکمت و دانائی مردہ دلوں کے لیے سبب حیات ہے۔ ؎2 
 کبھی دل کی بیماری کا بدن کی بیماری سے تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
  واشد من مرض البدن مرض القلب 
  "بدن کی بیماری سے دل کی بیماری بدترہے "۔ ؎3  
 کبھی فرماتے ہیں : 
  ومن قل ورعه مات قلبه 
  "جس میں پیرہیزگاری کی روح کم ہوجائے اس کا دل مرجاتا ہے"۔م 4 
 دوسری طرف قرآن مجید نے انسان کے لیے ظاہری بینائی و شنوائی اور شعورو ادراک کے علاوہ ایک خاص قسم کی بینائی وشنوائی اور شعور و ادراک کا ذکر کیا ہے جیسا کہ کفار کے بارے میں ہے : 
  صم بکم عمی فھم لا يعقلون 
  "وہ بہرے ،گونگے اور اندھتے ہیں اور اسی بنا پر عقل وشعور نہیں رکھتے"۔  ( بقره - 171) 
 دوسری جگہ منافقین کو دل کے بیماروں کا نام دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے: 
  في قلوبهم مرض فزاد هم الله مرضًا" 
  "خدا ان کی بیماری میں اضافہ کر دیتا ہے".   (بقره ---- 10)
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     نہج البلاغہ خطبہ 110 - 
  ؎1     نہج البلاغہ خطبہ 133 - 
  ؎1     نہج البلاغہ ، کلمات قصار کلمہ 388-
  ؎1     نہج البلاغہ ، کلمات قصار کلمہ 349-
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 نیز جن لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف نہیں ہے انہیں قرآن سنگدل قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: 
  ثم قست قلوبكم من بعد ذالک فھی کا الحجارة او اشد قسوة 
  "ان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے"۔  (بقره --- 74) 
 اور کافروں کو "ناپاک دل والےافراد" کے ساتھ تعارف کراتے ہوئے قرآن کہتا ہے: 
  اولئك الذين لم يرد الله ان يطهر قلو بلھم 
  "وہ ایسے لوگ ہیں کہ خدا ان کے دلوں کو پاک نہیں کرنا چاہتا"۔  (مائده ــــ 41) 
 ایک اور جگہ کہتاہے: 
  "تیری دعوت کو صرف وہ زندہ لوگ ہی قبول کریں گے کہ جو سننے والے کان رکھتے ہیں ، نہ کہ مردہ لوگ"۔
  انما يستجيب الذين يسمعون والموتٰی پبعثهم الله ثم اليه يرجعون 
 ایک اور جگہ ہے:
  " صرف وہ لوگ ہی کہ جو سننے والے کان رکھتے ہیں تیری دعوت قبول کریں گے ۔ باقی رہے
   مردے تو انہیں خدا قیامت میں اٹھائے گا پھر وہ اس کی طرف پلٹ کرجائیں گے"۔   (انعام ـــــــــ 32)
 ان تعبیرات کے مجموعے اور ان سے مشابہ بہت سی دوسری تعبیروں سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن موت و حیات کا محور اسی عقل والے انسانی محور کو شمار کرتا ہے کیونکہ انسان کی تمام قدروقیمت اسی حصے میں چھپی ہوئی ہے۔ 
 حقیقت میں حیات و ادراک ، دیکھنا اور سننا وغیرہ انسانی وجود کے اسی حصے میں مجتمع ہوتا ہے۔ 
 اگرچہ بعض مفسرین نے ان تعبیرات کو مجاز سمجھا ہے لیکن وہ اس مقام پر روح قرآنی سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ قران کی نگاہ میں حقیقت یہی ہے اور حیوانی موت وحیات ایک مجاز سے زیادہ نہیں ہے۔ 
 روحانی موت و حیات کے عوامل و اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن قدر مسلم یہ ہے کہ نفاق تکبر ، غرور تعصب ، جہالت اور گناہان کبیره دل کو مردہ کر دیتے ہیں جیسا کہ امام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام کی پندرہ و مناجاتوں میں سے تائبین کی مناجات میں بیان ہے :
  وامات قلبی عظیم جنایی 
  "میرے بڑے بڑے جرائم نے میرے دل کو مردہ کردیا ہے"۔ ؎1 
 زیر بحث آیات بھی اسی حقیقت پہ ایک تاکید ہیں۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     امام علی بن الحسینؑ کی پندرہ مناجاتوں میں سے پہلی مناجات (مناجات تائبین) -
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
کیا وہ لوگ زندہ ہیں کہ جو زندگی میں صرف اس بات پر قانع ہوگئے ہیں کہ وہ بےخبری کی حالت میں ہمیشہ عیش و نوش میں زندگی بسر کریں ،نہ کسی مظلوم کی فریاد سنیں ، نہ منادیان حق کی ندا پر لبیک کہیں ، نہ ظالم کے ظلم سے ناراحت اور پریشان ہوں اور نہ مظلومین کی محرومیت پر ان میں جنبش و حرکت پیدا ہو ، صرف اپنے بارے میں سوچیں اور اپنے غیر بلکہ خود اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوں۔ 
 کیا زندگی یہی ہے کہ جس کا ماحصل صرف کچھ غذا کھالینا ، کچھ کپڑے بوسیدہ کرلینا اور سونے اور جاگنے کی تکرار کرتے رہنا ؟
 اگر زندگی یہی ہے تو پھرحیوان اور عالم انسانی میں کیا فرق ہے؟ 
 پس یہ بات قبول کرنی ہی پڑے گی کہ اس ظاہری زندگی کے ماوراء اور پس پردہ ایک حقیقت ہے کہ جس کا قرآن ذکرکرتا ہے اور اس کے بارے میں بات کرتا ہے۔ 
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایسے مرنے والے کہ جن کی موت میں بھی حیات انسانی کے انسانی کے آثار پائے جاتے ہیں قرآن کی نگاہ میں مرکر بھی زندہ ہیں لیکن وہ زندہ کہ جن میں حیات انسانی کے آثار میں سے کوئی نظر نہیں آتا ، قرآن کی منطق میں مردہ ہیں ۔ ایک جانکاه  رقت بار موت . 
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ