Tafseer e Namoona

Topic

											

									  رسول شاعرنہیں بلکہ وہ زندوں کو ڈرانے والا ھے

										
																									
								

Ayat No : 69-70

: يس

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ ۶۹لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ ۷۰

Translation

اور ہم نے اپنے پیغمبر کو شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کے شایان شان ہے یہ تو ایک نصیحت اور کِھلا ہوا روشن قرآن ہے. تاکہ اس کے ذریعہ زندہ افراد کو عذاب الہٰی سے ڈرائیں اور کفاّر پر حجّت تمام ہوجائے.

Tafseer

									  تفسیر
           رسول شاعرنہیں بلکہ وہ زندوں کو ڈرانے والا ھے 
 ہم نے بیان کیا تھا کہ اس سورہ میں اصول دین میں سے توحید ، معاد اورنبوت کے بارے میں زنده اورجامع مباحث بیان کیےگئے ہیں اور گفتگو کے مختلف حصے یکے بعد دیگرے ایک خاص انداز سے آتے چلےجاتے ہیں ۔ 
 گزشتہ آیات میں توحید و معاد کے سلسلے میں مختلف بحثیں آتی ہیں۔ زیر نظر دونوں آیات میں نبوت کےبارے میں بحث کی گئی ہے۔ 
 پیغمبراسلامؐ پر جو اتہامات لگائے جاتے تھے ان میں سے جو اتہام سب سے زیادہ تھا اسے عنوان بناکر انہیں دندان شکن اورسبق آموز جواب دیا گیا ہے اور وہ ہے شعر گوئی کا الزام - فرمایا گیا ہے: 
 "ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی اس کے لیے مناسب اور لائق ہے کہ وہ شاعر ہو"۔ (اوما علمناه الشعر وما ينبغي له)۔ 
 وہ پیغمبراکرمؐ پر ایسے الزامات کیوں لگاتے تھے حالانکہ آپؐ نے کبھی بھی شعر میں کہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سب لوگ دلوں میں قرآن کی تاثیر اور کشش محسوس کرتے تھے اور اس کے لفظ ومعنی کی زیبائی اور فصاحت و بلاغت انکار کے قابل نہیں تھی ۔ یہاں تک کہ خود مشرکین بھی قرآن کی آواز اور بیان سے اتنے متاثرہوتے تھے کہ بعض اوقات رات کے وقت میں چھپ چھپ کر پیغمبراکرامؐ کی منزل کے قریب آتے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپؐ کی تلاوت کا زمزمہ سن سکیں ۔ 
 کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو قرآن کی چند آیات سنتے ہی اس کے شیفتہ اور فریفتہ ہو گئے اور ایک ہی مجلس میں اسلام قبول کرلیا اور قرآن کی آغوش میں پناہ لے لی۔ 
 یہی سبب تھا کہ اس عظیم تاثیر کی توجیہ اور اس آسمانی وحی سے لوگوں کو غافل رکھنے کے لیے ، انہوں نے ہرجگہ پیغمبراکرمؐ کی شعر گوئی کا پرو پیگیڈہ کیا اور یہ باطنی طور پر قرآن کی انتہائی تاثیر کا ایک اعتراف تھا۔
 لیکن شاعر ہونا پیغمبر کی شان کے لائق کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ "وحی" کا راستہ شعر کے راستے سے بالکل مختلف ہے ، کیونکہ : 
 1-  عام طور پر شعر کا سرچشم تخیلات و تصورات ہوتے ہیں ، شاعر زیادہ تر خیال کے دوش پر سفرکرتا ہے جبکہ "وحی" کا سرچشمہ مبداء ہستی ہے اور یہ حقیقتوں کے گرد گردش کرتی ہے ۔
 2- شعر انسانی تغیر پزیر حالت سے وقوع میں آتا ہے اور ہمیشہ تغیر کی حالت میں ہوتاہے جبکہ وحی آسمانی ثابت شده حقائق کو بیان کرتی ہے 
 3- شعر کا لطف اکثر موقعوں پر مبالغہ آرائی میں ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ کہا گیا ہے کہ : 
  احسن الشعر اکذبه 
  "سب سے بہتر شعروہ ہے کہ جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو"۔ 
 جبکہ وحی میں صداقت اور سچائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ 
 4- شاعر بہت سے موقعوں پر لفظ کی زیبائیوں کی خاطر مجبور ہوجاتا ہے کر خود کو الفاظ کے سپرد کردے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے اور کتنے ہی حقائق ایسے ہوتے ہیں کہ جو ایسی باتوں میں پامال ہوجاتے ہیں۔ 
 5- ایک مفسر کے خوبصورت خیال میں "شعر" ان آرازوؤں کا مجموعہ ہے کہ جو زمین آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں لیکن وحی ایسے حقائق کا مجموعہ ہے جو آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوتے ہیں اور یہ دونوں راستے ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ 
 اس مقام پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان شعراء کا حساب جدا سمجھیں کہ جو مقدس مقاصد کے لیے قدم اٹھاتے ہیں اور اپنے شعر کو غیر مطلوب عوارض سے دور رکھتے ہیں ،چاہیے کہ ایسے شعرا کے مقام اور فن کی قدر وقیمت کو فراموش نہ کریں۔ لیکن بہرحال عام طور پر شعر کا مزاج اور طبیعت یہی ہے جو بیان ہوا ہے۔ 
 اسی بنا پر قرآن مجید سوره شعراء کے آخر میں کہتا ہے : 
  والشعراء يتبعھم الغاوون 
  "شعراء تو وہ ہیں جن کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں"۔ (شعراء ----- 224) 
 اس کے بعد مختصر اور پر معنی عبارت میں اس کی دلیل پیش کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: 
  الم ترانھم في كل واد یهیمون وانهم يقولون ما لا يفعلون 
  "کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں (ہمیشہ خیالات و تصورات 
  کی دنیا اور اپنی شاعرانہ تشبیہات میں ڈوبے رہتے ہیں) اور ہیجانات کی موجوں اور خیالی 
  تحرکات کے سامنے جھکے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیکھتے نہیں ہوکہ جو باتیں وہ کہتے ہیں ان 
  پر عمل نہیں کرتے"۔  (شعراء - 225 - 226) 
 البتہ انہی آیات کے آخر میں ان شعراء کو جو صاحب ایمان اور نیک و صالح ہیں اور جن کافن ان کے اہداف و مقاصد کے کام آتا ہے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے اور ان کی قدر افزائی کی گئی ہے اور ان کا معاملہ دوسروں سے جدا رکھا گیا ہے 
 لیکن بہرحال پیغمبر شاعر نہیں ہوسکتا اور جس وقت قرآن یہ کہتا ہے کہ "خدا نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی "تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا پیغام شعر کی حیثیت نہیں رکھتا ، کیونکہ اس کی تمام تعلیمات کا منبع خدا ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ تواریخ و روایات میں بابرہانقل ہوا ہے کہ جس وقت پیغمبراکرمؐ چاہتے تھے کہ کسی شعر کو بطور مثال پیش کریں اور اسے اپنے قول کا شاہد قرار دیں تو اسے توڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ دشمن کے ہاتھ کوئی بہانہ نہ آجائے ، چنانچہ ایک دن پیغمبرؐ چاہتے تھے کہ عربوں کا مشہور شعر پڑھیں : 
  ستبدي لك الايام ماكنت جاهلا  وياتيك بالأخبار من الم تزود 
  "عنقريب زمانے تیرے لیے خبریں ایسے حقائق آشکار کر دے گا جن سے تو آگاہ نہیں تھا اور 
  ایسے افراد تیرے لیے خبریں لے کر آئیں گے جن کے لیے تونے زاد و توشہ مہیا نہیں کیا تھا"۔ 
 تو پیغمبراکرمؐ نے فرمایا : 
  یاتبك من لم تزود بالأخبار، اور جملے کو آگے پیچھے کر دیا۔ ؎1  
 قرآن پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں شعر کی نفی کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ :"یہ آیات سوائے بیداری کے وسیلہ اور آشکار قرآن سے اور کچھ نہیں ہیں"۔ (ان ھوالا ذکر قرآن مبین) - 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1   مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 "اس سے مقصد یہ ہے کہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جو زندہ ہیں اور کافروں پر اتمام حجت ہوجائے اور حکم عذاب ان کے لیے مسلم ہوجائے"۔ (لینذر من كان حيًا ويحق القول على الکافرین)۔ ؎1  
 ہاں! یہ آیات " ذکر" ہیں اور نصحیت و بیداری کا وسیلہ ہیں ۔ یہ قرآن مبین کی آیات ہیں کہ جوکسی قسم کی ہے پردہ پوشی کے بغیر بڑی صراحت کے ساتھ حق کو بیان کرتی ہیں اور اسی بنا پر بیداری اور حیات کا موجب ہیں۔ 
 ایک مرتبہ پھر ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ قرآن "ایمان" کو "حیات" اورمومنین کو "زندہ" اور بے ایمان افراد کو "مردہ" کے نام سے یاد کرتا ہے، ایک طرف تو "حئی"  (زندہ) ہے اور اس کے مقابل "کافرین" ہے ۔ یہ وہی معنوی حیات و موت ہے جو ظاہری موت و حیات سے کئی درجے بڑھ کر ہے اور اس کے آثار زیادہ وسیع ہیں ۔ اگر حیات سانس لینے ، کھانا کھانے اور چلنے پھرنے کا نام ہو تو یہ ایسی چیز ہے کہ جس میں تمام جانور شریک ہیں ۔ یہ انسانی حیات نہیں ہے ۔ حیات انسانی تو، روح انسانی میں ، عقل و خرد اور اعلٰی ملکات کے پھول کھلنے تقوٰی ، ایثار، فدا کاری ، نفس پر قابو رکھنے اور فضیلت و اخلاق کا نام ہے اور قرآن انسانوں کے وجود میں اس حیات کی پرورش کرتا ہے۔ 
 بہرحال انسان قرآن کی دعوت کے مقابلے میں دوگروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ، ایک گروہ زندہ و بیدار افراد کا ہے کہ جو اس کی ہردعوت پرلبیک کہتا ہے اور اس کی تـنبیوں پر توجہ دیتا ہے ، دوسرا گروہ مرده دل کفارکا ہے کہ جو اس کے جواب مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کرتا لیکن یہ انزار ان پر تمام حجت اورحکم عذاب کے مسلم ہونے کا باعث ہے۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ