جب زبان چپ هوگی، اعضا گواهی دیں گے
هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ۶۳اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ۶۴الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ۶۵وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ ۶۶وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ ۶۷وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ۶۸
یہی وہ جہّنم ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جارہا تھا. آج اسی میں چلے جاؤ کہ تم ہمیشہ کفر اختیار کیا کرتے تھے. آج ہم ان کے منہ پرلَہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اوران کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے. اور ہم اگر چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستہ کی طرف قدم بڑھاتے رہیں لیکن کہاں دیکھ سکتے ہیں. اور ہم چاہیں تو خود ان ہی کو بالکل مسخ کردیں جس کے بعد نہ آگے قدم بڑھاسکیں اور نہ پیچھے ہی پلٹ کر واپس آسکیں. اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں بچپنے کی طرف واپس کر دیتے ہیں کیا یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں.
تفسیر
جب زبان چپ هوگی، اعضا گواهی دیں گے
گزشتہ آیات میں قیامت میں مجرموں کے لیے خدا کی سرزنش کا ذکر ہے اور اس کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ دیر باتوں کا بیان ہے۔ زیر بحث آیات میں بھی وہی سلسلہ کلام جاری ہے۔
ہاں ! اس دن کہ جب کہ جہنم کی جلانے والی بھڑکتی ہوئی آگ مجرموں کی آنکھوں کے سامنےہوگی ، تو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجرموں کو مخاطب کیا جائےگا :" یہ وہی دوزخ ہے کہ جس کا تم سے وعدہ کیاجاتاتھا"۔ (هذه جهنم التي كنتم توعدون)۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خدا کے نبی یکے بعد دیگرے آتے رہے اور تمہیں اس دن اور ایسی آگ سے ڈراتے رہے لیکن تم نے ان سب کا تمسخر اڑا یا": آج اس میں داخل ہوجاؤ اور اس کی آگ میں جلو ، کیونکہ یہ اس کفر کی جزا ہے کہ جو تم کرتے تھے"۔ (اصلوها اليوم بما كنتم تكفرون)۔ ؎1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد قیامت کے دن کے گواہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ گواہ کہ جو خود انسان کے جسم کا حصہ ہیں اور ان کی باتوں کے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ فرمایا گیا ہے:" آج ہم ان کے منہ پیر
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "اصلو"، "صلی" کے مادہ سے آگ جلانا یا آگ میں جلانا اور بھوننا ، یا آگ میں داخل ہونا ، اور اس کو لازم کرلینے کے معنی میں ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان کاموں کی کہ ہے جو انہوں نے انجام دیئے تھے ہمارے حضور شہادت دیں گے"۔ (اليوم نختم على افواههم وتكلمنا ایدیھم و تشھد ارجلهم بما كانوا يكسبون) -
ہاں ! اس دن انسان کے اعضاء اس کی مرضی کے تابع نہیں ہوں گے ، وہ اپنا حساب انسان کے پورے وجود سے جدا کرکے پروردگار کا حکم مانین گے اور اس کے آستانہ مقدس پرسر جھکا دیں گے اور اپنی شہادت کے ذریعے حقائق آشکار کردیں گے۔ وہ کتنی عجیب عدالت ہے کہ جس کےگواہ خود انسان کےبدن کےاعضاء ہیں ، وہی آلات کہ جن کےذریعےاس نےگناہ انجام دیاتھا۔
شاید اعضاء کی گواہی اس بناء پرہوکہ ان مجرموں کو جس وقت ہوکہا جائے گا کہ جو عمل تم انجام دیا کرتے تھے اس کی سزا جہنم ہے ، تو وہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ شاید یہ دنیاوی عدالت ہے کہ جس میں حقائق سے پیٹھ پھیر کر انکار کیا جاسکتا ہے ، ان کا انکارکردیں گے ۔ اس پر اعضاء کی گواہی شروع ہوجائے گی ، ایسے میں ان پرتعجب اور وحشت چھا جائے گی اور بھاگنے کے تمام راستے ان پر بند ہو جائیں گے۔
اعضاء کے بولنے کی کیفیت کیا ہوگی ، اس بارے میں مفسرین نے کئی احتمالی ذکر کیے ہیں:
1- خدا اس دن ایک ایک عضو میں بات کرنے کا ادراک و شعور پیدا کردے گا اور اعضاء سچ مچ باتیں کریں گے اور اس میں تعجب کی کونسی بات ہے کہ وہی ذات جس نے گوشت کے ایک ٹکڑے کو جسے زبان کہتے ہیں، یا انسان کے دماغ میں سے قدرت پیدا کی ہے، وہ دوسرے اعضاء میں بھی یہ قدرت پیدا کر سکتا ہے۔
2- وہ ادراک و شعور سے بہرہ مند نہیں ہوں گے ، لیکن خدا انہیں بات کرنے کا حکم دے گا اور حقیقت میں اعضاء گفتگوکےظہور کا محل ہوں گے ، اور حقائق کو خدا کے فرمان اور حکم سے شکار کریں گے۔
3- ہرانسان کے بدن کے اعضاء کے ساتھ ان اعمال کے آثار بھی یقینا ہوں گے جو انہوں نے عمر بھر میں انجام دیئے ہیں کیونکہ اس جہان میں کوئی عمل بھی نابود نہیں ہوتا ۔ یقینا اس کے آثار بدن کے ایک ایک حصے پراور فضائے محیط میں باقی رہ جاتے ہیں ۔ وہ ان کہ جوظاہر و آشکار ہونے کا دن ہے یہ آثاربھی ہاتھ پاؤں اور باقی اعضاء پر ظاہرہوجائیں گے اور ان آثار کا ظهور ان کی شہادت شمارہوگا ۔
یہ تعبیر روزمرہ کی باتوں اور ادباء کی تعبیرمیں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ مثلاً کہتے ہیں:
عينك تشهد بسهرك
"تیری آنکھ تیرے جاگتے رہنے کی گواہ ہے"۔
یا ہم کہتے ہیں :
الحيطان تبکی علٰی صاحب الدار
"دیواریں اس گھر کے مالک پر گریہ کرتی ہیں"۔
ایک فارسی شاعر بھی کہتا ہے:
؎ رنگ رخساره خبری دھد از سر درون
"رخسار کا رنگ اندرونی راز کی خبردے رہا ہے۔
بہرحال قیامت میں اعضاء کی گواہی مسلم ہے ، اب رہی یہ بات کہ کیا ہرخاص عضو اسی کام کو بیان کرے گا کہ جو اس نے انجام دیا ہے یا تمام کاموں کو؟ تو بلاشک وشبہ احتمال اول ہی مناسب ہے ۔ لہذا قرآن کی دوسری آیات میں کان ، آنکھ اور جلد بدن کے بات کرنے کا ذکر ہوا ہے۔
جیسا کہ سورة حٰم السجدہ کی آیہ 20 میں ہے:
حتى اذا ماجاء وها شهد عليهم سمعهم والبصارهم وجلودهم بما
كانوا يعملون
"جس وقت وہ جہنم کی آگ کے کنارے آکھڑے ہوں گے ، تو ان کے کان ، آنکھ اور بدن
کی جلد ان اعمال کی گواہی دے گی کہ جو وہ انجام دیتے تھے"۔
نیز سوره نور کی آیہ 24 میں آیا ہے:
يوم تشهد عليهم السنتھم و ایدیهم و وارجلهم بما كانوا يعملون
"اس دن ان کی زبان ، ہاتھ اور پاؤں ان اعمال کی گواہی دیں گے کہ جنہیں وہ
انجام دیتے تھے"۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ایک جگہ تو یہ فرمایا گیا ہے :
"ان کی زبانیں گواہی دیں گی"۔
جیسا کہ سوره نور میں ہے اور زیر بحث آیات میں فرمایا گیا ہے:" ہم ان کی زبان پر مہر لگا دیں گے"۔
ممکن ہے کہ یہ تعبیراس بناء پر ہو کہ پہلے تو انسان کی زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے دوسرے اعضا کلام کریں گے۔ جب وہ دیکھے گا کہ دوسرے اعضاء شهادت دے رہے ہیں تو اس کی زبان کھل جاۓ گی اور اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی لہذا زبان بھی اعتراف کرلے گی۔
یہ احتمال بھی ہے کہ زبان کی شہادت سے مراد عام تکلم نہ ہو بلکہ باقی اعضاء کی طرح کا تکلم ہو کہ جو اس کے اندر سے ابھرے نہ کہ باہر سے (اس عظیم عدالت کے گواہوں کی تعداد اور ان کی گواہی کی کیفیت کے سلسلے میں ہم انشاء اللہ سورہ حم السجدہ اس کی آیات 19-23 کے ذیل میں اس سے زیادہ تفصیلی گفتگو کریں گے)۔
آخری بات یہ ہے کہ اعضاء کی گواہی کفار اور مجرموں کے ساتھ مربوط ہے ، ورنہ مومنین کا مسئلہ تو واضح ہے اس لیے امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے:
لیست تشھد الجوارح علٰى مؤمن ، انما تشهد علٰى من حقت عليه لمۃ
العذاب ، فاما المؤمن فیعطى كتابه بیمینه ، قال الله عزوجل فمن اوتي
كتابه بيمينه فاولئك يقرء ون کتابهم ولا يظلمون فتيلًا -
"اعضاء جسمانی مومن کے خلاف گواہی نہیں دیں گے بلکہ اس شخص کے برخلاف گوہی
دیں گے جس پر فرمان عذاب مسلم ہوچکا ہوگا ، باقی رہا مومن تو اس کا نامہ اعمال اس کےدائیں
ہاتھ میں ہوتا (اور وہ خود ہی اسے پڑھے گا) جیسا کہ خدا وند تعالٰی فرماتا ہے:
"جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے (وہ سرفرازی اور افتخار کے ساتھ)
اپنا نامۂ اعمال پڑھیں گے اور ان پر معمولی سا ظلم بھی نہیں ہوگا"۔ ؎1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعد والی آیت میں ایک عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ممکن ہے کہ خدا اس مجرم گروہ کو اسی دنیا میں اس عذاب میں مبتلا کردے ایک ایسا عذاب کہ جو درودناک بھی ہے اور وحشت انگیز بھی ارشاد ہوتا ہے:" اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیا میٹ کردیں:۔ (ولونشاء لطمسنا على اعينھم) ۔ ؎2
اس حالت میں انہیں انتہائی وحشت گھیرلے گی "وہ چاہیں گے کہ جیسے وہ پہلے کیا کرتے تھے اسی طرح ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں لیکن وہ کس طرح سے دیکھ سکتے ہیں" (فاستبقوا الصراط فاني يبصرون )۔
وہ تو اپنے گھر کا راستہ تک بھی تلاش نہ کرپائیں گے چہ جائیکہ وہ راہ حق کو تلاش کرسکیں اور صراط مستقیم پرچل سکیں ۔
دوسری درد ناک سزا یہ ہے کہ "اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی اپنی جگہ پر ہی مسخ کر دیں (بے روح اور بےحس و حرکت مجسموں یا مفلوج جانوروں کی طرح) اس طرح سے کہ نہ تو وہ آگے کو سفر جاری رکھ سکیں اور نہ ہی پیچھے کی طرف مڑسکیں"۔ (ولونشاء لمسخناهم علٰى مکا نتھم فما استطاعو مضيًا و لا يرجعون )۔ ؎ 3
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیرصافي زیربحث آیت کے ذیل میں۔
؎2 "طمسنا" "طمس" (بروزن "شمس") کے مادہ سے محوکرنے اور کسی چیز سے آثارختم کرنے کے معنی میں ہے اور یہاں آنکھ کے نوریا خود آنکھ کو اس طرح محو کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں سے کوئی چیز باقی نہ رہ جائے اور وہ بالکل محو ہوجائے۔
؎3 "مكانة" ٹھرنے کی جگہ، کے معنی میں ہے اور یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا انہیں ان کی اسی جائے قیام میں ، انسانی شکل سے محروم کردے گا ، ان کی شکل بھی بدل جائے گی اور چلنے پھرنے کی توانائی بھی ان میں باقی نہ رہے گی بالکل بے روح مجسموں کی طرح۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"فاستبقوا الصراط" ممکن ہے کہ اس راستے کی تلاش میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے معنی میں ہو جس پر وہ عام طور یہ کیا کیا کرتے تھے ۔ یا راستے سے بھٹک جانے اور اسے نہ پا سکنے کے معنی میں ہو ، کیونکہ جن ارباب لغت سے کہا ہے کہ :"فاستبقوا الصراط " "جاوزوه وتركوه حتى ضلوا" کے معنی میں ہے۔ یعنی راستے سے آگے نکل گئے اور پیچھے چھوڑ دیا ۔ یہاں تک کہ وه گمراہ ہو گئے ۔ ؎1
بہرحال اس تفسیر کے مطابق کہ جسے اکثر مفسرین نے قبول کیا ہے یہ دونوں آیات عذابِ دنیا کے ساتھ مربوط ہیں اور کفا ومجرمین کو اس بات کی تنبیہ و تہدید کرتی ہیں کہ خدا انہیں اس جہان میں ایسے درد ناک انجام میں مبتلاکرسکتا ہے لیکن اس نے اپنے لطف و رحمت کی بنا پر ایسا نہیں کیا کہ شاید یہ ہٹ دهرم بیدارہوجائیں اور راہ حق کی طرف پلٹ آئیں۔
لیکن ایک احتمال اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ آیات روز قیامت کے عذاب سے متعلق ہیں نہ کہ دنیاکے۔ درحقیقت گزشتہ آیت کہہ رہی تھی کہ ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے ۔ ان آیات میں دو دوسری ستراؤں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ اگر خدا چاہے تو یہ سزائیں ان پر لاگو کر دے۔
پہلی یہ کہ ان کی آنکھوں کو نابینا کردے تاکہ وہ "صراط" جنت کے راستے کو نہ پاسکیں اور دوسری یہ کہ ان لوگوں کو کہ جو دنیا میں راه سعادت پر نہیں چلتے تھے اس دن انہیں بے روح جسموں کی صورت میں ظاہر کردے تاکہ وہ عرصہ محشر میں حیران و پریشان ہو کر رہ جائیں " نہ تو انہیں آگے کی طرف کوئی راستہ سجھائی دے اور نہ ہی ہیچھے کی طرف البتہ جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے آیات کی مناسبت اس تفسیر کے لیے ایک تائید ہے ، اگرچہ اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو قبول کیا ہے ۔ ؎2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زیر بحث آخری آیت میں ، عقل وجسم کے ضعف و ناتوانی کے لحاظ سے ، عمر کے آخر میں انسان کی حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کے لیے کہ جو راہ ہدایت اختیار کرنے میں آج اور کل کرتے رہتے ہیں ، ایک تنبیہ بھی ہو اور ان لوگوں کا جواب بھی ہوکہ جو اپنی کوتاہیوں کو عمر کی کمی کے سر ڈال دیتے ہیں اور یہی بات خدا کی قدرت کی دلیل بھی ہو کہ وہ جس طرح ایک قوی اور طاقتور انسان کو ایک نومولود کی ناتواني کی طرف پلٹا سکتا ہے کچھ ایسے ہی وہ معاد پر بھی قادر ہے اور اسی طرح مجرموں کو نابینا کرنے اور چلنے پھرنے
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 لسان العرب ، قطر المحيط ، المنجد (ماده "سبق")۔
؎2 اس تفسیر کو "في ظلال" نے اکیلی تفسیر کی صورت میں ذکر کیا ہے جبکہ پہلی تفسیر کو مجع البیان ،بتیان ، المیزان ، صا في ، الروح المعانی ،روح البیان قرطبی اور تفسیر کبیرازفخرالدین رازی میں اختیار کیا گیا ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سے باز رکھنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ فرمایا گیا ہے :"جس شخص کو ہم طول عمر دیتے ہیں اسے خلقت کے اعتبار سے پلٹ دیتے ہیں ، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے"۔ (ومن نعمره ننکسه في الخلق افلا يعقلون )۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ "ننکسه" "ننکیس" کے مادہ سے کسی چیز کو اس طرح سرنگوں کردیناہے کے سر پاؤں کی جگہ آجائیں اور یہاں انسان کے بالکل بچپن کی حالت کی طرف پلٹ جانے کے لیے کنایہ ہے کیونکہ انسان ابتدائے خلقت میں ضیعف ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ رشد و کمال کی طرف جاتا ہے۔ شکم مادر کے دور میں ہر روز نئی خلقت اور جدید رُشد سے گزرتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد بھی جسم و روح میں اپنے تکامل و ارتقاء کو تیزی کے ساتھ جاری و ساری رکھتا ہے اور خدا داد قوتیں اور صلاحیتیں کہ جو اس کے وجود کے اندر چھپی ہوئی ہیں یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔ جوانی کا دور اور اس کے بعد پختگی کا وقت آن پہنچتا ہے اور انسان جسمانی و روحانی تکامل و ارتقاء کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں بعض اوقات جسم و روح اپنے سفر کو ایک دوسرے سے جدا کرلیتے ہیں ۔ روح تو اسی طرح سے اپنے تکامل و ارتقًا کو جاری رکھتی ہے ۔ جبکہ جسم پیچھے کی طرف پلٹنا شروع کردیتا ہے لیکن انجام کار عقل میں بھی تنزل شروع ہوجاتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ اور کبھی تیزی کے ساتھ بچپن کے مراحل کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ بچوں جیسی حرکتیں ، بچوں جیسی سوچ ،یہاں تک کے بہانہ تراشیاں بھی بچوں کی طرح ہی ہو جاتی ہیں اور جسمانی کمزوری بھی اس کے ہم آہنگ ہوجاتی ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ بچوں کی یہ حرکتیں اور پیاری لگتی ہیں اور امید بخش و مسرت آفریں مستقبل کی خوشخبری ہوتی ہیں ۔ اسی وجہ سے بالکل قابل برداشت ہوتی ہیں لیکن بوڑھوں کی طرف سے ناپسندیدہ اور کبھی نفرت خیزیا ترحم انگیز ہوتی ہیں۔
سچ مچ ایسے دن آن پہنچتے ہیں کہ جو بہت ہی درد ناک ہوتے ہیں اور جن کی تکلیت کی گہرائی کا بڑی
مشکل سے تصور کیا جا سکتاہے۔
قران مجید سوره حج کی آیہ 5 میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے :
ومنکم من يرد الٰى ارذل العمر لكيلا يعلم من بعد علم شيئًا
"تم میں سے بعض اس قدر عمر رسیدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ بدترین زندگی اور بڑھاپے کے مرحلے
کو پہنچ جاتے ہیں اس طرح سے کہ جو علم انہوں نے حاصل کیا ہے وہ بھی یاد نہیں رہتا (یہاں تک
کہ اپنے گھر کے افراد میں سے قریب ترین افراد کو بھی نہیں پہچان سکتے) ۔
لہذا بعض روایات میں ستر سالہ افراد کو "اسيرالله في الارض" (زمین میں خدا کے قیدی) کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ؎1
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 یہ جملہ حدیث نبوی (کتاب سفینہ ماده "عمر") میں آیا ہے جبکہ دوسری روایات میں نوے سال کا ذکر ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ بہرحال "افلايعقلون" اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب تنبیہ ہے اور انسانوں سے کہتی ہے کہ اگر یہ قدرت و توانائی کہ جو تم رکھتے ہو عاریتًا نہ ہوتی تو اتنی آسانی کے ساتھ تم سے نہ چھین لی جاتی. جان لو کہ کسی اور کا دست قدرت تمہارے سر پر ہے کہ جو ہر چیز پر قادر ہے۔
جب تک اس مرحلے تک نہیں پہنچتے اپنی خبرلو اور اس سے پہلے کہ نشاط و زیبائی پژمردگی میں تبدیل ہو اس چمن کے پھول چن لو اور آخرت سے طولانی سفر کا توشہ اس جہان سے لے لو۔ کیونکہ ناتوانی ، بڑھاپے اور درماندگی کے وقت تم سے کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔
اسی لیے جن پانچ چیزوں کی پیغمبراکرمؐ نے ابوذر کو وصیت کی تھی ان میں سے ایک یہ تھی کہ بڑھاپے سے پہلے دور جوانی کو غنیمت جانو :-
اغتنم خمًا قبل خمس: شبابك قبل هرمك ، صحتك قبل سقمك وغناك
قبل فقرك، وفراغك قبل شغلك وحياتك تيل موتك
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، اپنی
صحت کو بیماری سے پہلی ، اپنی تونگری کو فقرو فاقہ سے پہلے ، اپنی فراغت کو مشغولیت سے
پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے ۔ ؎1
یا بقول شاعر:
چنین گفت روزی به پیری جوانی کہ چوں است با پیریت زندگا ني
بگفتا دریں نامه حرنی است مبہم کہ معنیش جزوقت پیری ندا ني
توبہ کز توانائی خویش گوئی چو می پرسی از دوره ناتواني
مساعی کہ من رائیگاں داوم ازکف تو گرمی تواني مده را ئگاني
"ایک دن ایک نوجوان نے ایک بوڑھے سے پوچھا کہ تیرے بڑھاپے کے دن کیسے گزر رہے ہیں؟
اس نے جواب دیا کہ اس خط میں ایک مہم بات ہے کہ جس کا معنی تو بڑھاپےسےپیچھےنہیں جان سکتا ۔
بہتر ہے کہ تو اپنی قوت وتوانائی کی بات کرے ناتوانی اورعجز کے دور کے متعلق کیا پوچھتا ہے"۔
"وہ متاع کہ جو میں اپنے ہاتھ سے مفت میں دے چکا ہوں اگر تجھ سے ہوسکے تو اسے رائیگاں اور مفت میں نہ جانے دے"۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحار ، جلد 77 ص 77۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------