اهل بہشت مادی وروحانی نعتوں سے سرشار هونگے
فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۵۴إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ ۵۵هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ ۵۶لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ ۵۷سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ۵۸
پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے اعمال تم کررہے تھے. بیشک اہل جنّت آج کے دن طرح طرح کے مشاغل میں مزے کررہے ہوں گے. وہ اور ان کی بیویاں سب جنّت کی چھاؤں میں تخت پر تکیئے لگائے آرام کررہے ہوں گے. ان کے لئے تازہ تازہ میوے ہوں گے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ چاہیں گے. ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگار کا قول صرف سلامتی ہوگا.
تفسیر
اهل بہشت مادی وروحانی نعتوں سے سرشار هونگے
قرآن یہاں میدان حشر میں حساب و کتاب کی کیفیت کے بارے میں بحث کو سربستہ چھوڑتے ہوئے گزرجاتا ہے اور صالح مومنین اور بداعمال کافروں کے انجام کار کی وضاحت کرتے ہوۓ قرآن کہتا ہے؟ "آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا"۔ (فالیوم لا تظلم نفس شیئًا)۔
نہ تو کسی کے اجر و ثواب میں کمی ہوگی اور نہ ہی کسی کی سزا میں اضافہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ایک سوئی کی نوک کے برابر بھی کمی ، زیادتی ، ناانصافی اور ظلم وستم نہیں ہوگا ۔
اس کے بعد ایک ایسے امر کو بیان کیا گیا ہے کہ جو حقیقت میں اس عظیم عدالت میں ظلم و ستم کے نہ ہونے کی ایک واضح اور روشن دلیل ہے ۔ فرمایا گیا ہے:" تمہیں سوائے اس عمل کے کہ جو تم کیا کرتے تھے اور کوئی جزا نہیں دی جائے گی"۔ (ولا تجزون الأماكنتم تعملون)۔
اس تعبیر کا ظاہر بغیر اس کے کہ اس میں کوئی چیز مقدر ہو یہ ہے کہ تم سب کی جزا وہی تمہارے اعمال ہی ہیں۔ غور کیجئے کونسی عدالت اس سے بہتروبرتر ہوسکتی ہے؟
دوسرے لفظوں میں ، جو نیک و بد اعمال تم اس دنیا میں انجام دیتے ہو وہی وہاں تمہارے ہمراہ ہوں گے . وہی اعمال مجسم ہوجائیں گے اور محشر کے تمام مواقف میں اور حساب و کتاب کے اختتام کے بعد تمہارے ہمدم و ہمنشیں ہوں گے ۔ کیا کسی کے اعمال کا اصل اس کے حوا لے کرنا عدالت کے خلاف ہے اور کیا خوداعمال کو مجسم کرنا اور اس کا ساتھی بنانا ظلم ہے؟
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ بنیادی طور پر "ظلم" کا اس جگہ کوئی مفہوم ہی نہیں ہے اور اگر ہماری اس دنیا میں انسانوں کے درمیان کبھی عدالت ہوتی ہے اور بھی ظلم ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ توانائی نہیں رکھتے کہ ہرشخص کے اعمال خود اس کی تحویل میں دے دیں۔
مفسرین کی ایک جماعت نے یہ تصور کرلیا ہے کہ آخری جملہ بداعمالول اور کشاد کے لیے مخصوص ہے کہ جو اپنے اعمال کے مطابق سزا بھگتیں گے اور مومن اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ خدا انہیں ان کے اعمال سے زیادہ اجروثواب دے گا۔
یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے یہ اشتباہ دورہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں جزا و سزا میں عدالت اور استحقاق کی بنیاد پرصلہ حاصل کرنے سے متعلق گفتگو ہے اور یہ چیز اس سے تضاد نہیں رکھتی کہ خدا مومنین کے لیے اپنے فضل و رحمت سے ہزاروں گنا اضافہ کردے اور بہ "تفضل" کا مسئلہ ہے اور وہ استحقاق کا مسئلہ ہے۔
اس کے بعد مومنین کی جزا کے ایک گوشے کو بیان کیاگیا ہے۔ سب سے پہلے سکون قلب اور راحت و آرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :"اہل بہشت اس دن خدا کی نعمتوں میں ایسے مشغول ہوں گے کہ ہر قسم کی بے رام کرنے والی فکر سے دور ہوں گے"۔ (ان! اصحاب الجنة اليوم في شغل)۔
"اور وہ انتہائی خوشی و سرور میں ہوں گے" (فاکھون)۔
"شغل" (بروزن "شتر") اور "شغل" (بروزن "قفل") دونوں ایسے امور و حالات کے معنی میں ہیں کہ جو انسان کو پیش آتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ مشغول رکھتے ہیں چاہے وہ مسرت بخش ہوں یا غم انگیز۔
لیکن چونکہ اس کے بعد بلافاصلہ لفظ "فاکھون" لایا گیا ہے اور یہ لفظ "فاکه" کی جمع ہے کہ جومسرور شاداب کے معنی میں ہے اس لیے ہوسکتا ہے یہ ایسے امور کی طرف اشارہ ہو کہ جو انسان کو فرط مسرت سے اس طرح مشغول رکھتے ہیں کہ جو پریشان کن امور سے بالکل غافل کر دیتے ہیں گویا وہ سرور و نشاط میں اس طرح محو ہوگا کہ اس پر کوئی غم و اندوه غالب نہ آسکے گا ۔ یہاں تک کہ وہ وحشت جو قیام قیامت اور عدالت الٰہی میں حاضر ہوتے وقت اسے ہوئی تھی وہ بھی بھول جائے گا کیونکہ اگر سچ مچ وہ نہ بھولے تو ہمیشہ پریشانی اور غم و اندوہ کا سایہ اس کے دل پربوجھ بنارہےگا ۔ اس بنا پر اس اشغال ذہنی کا ایک اثرمحشرکی ہولناکیوں کو بھول جاناہے۔ ؎1
بہرحال اطمینان قلب کی نعمت جو تمام نعمتوں کی بنیاد ہے اور تمام نعمتوں سے استفادہ کی شرط ہے اس کے بعد دوسری نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کیا ہے: "وہ اور ان کی بیویاں لذت بخش سایوں کے نیچے (خلوت گاہوں میں) تختوں کے اوپر تکیہ لگائے ہوں گے"۔ (هم وازوا جهم في ظلال على الارائك متكتون)۔ ؎2
"ازواج" بہشتی بیویوں یا ان مومن بیویوں کے معنی میں ہے کہ جو اس دنیا میں ان کی شریک حیات تھیں بعض نے خیال ظاہرکیا ہے کہ یہ ہمطراز و ہم فکر کے افراد کے معنی میں ہے جیسا کہ سورہ صافات کی آیہ 22 میں بیان ہوا ہے:
احشروا الذين ظلموا وازواجهم
"ظالموں اور ان کے ہمطراز لوگوں کو حاضر کرو"۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 راغب مفردات میں کہتا ہے کہ "فاکھۃ" ہرقسم کے پھل کے معنی میں ہے اور "فکاہ" ان باتوں کو کہا جاتا ہے کہ جو انسان کو مانوس و مشغول رکھیں اور ابن المنظور لسان العرب میں کہتا ہے کہ "فکاہ" مزاج کے معنی میں ہے اور "فاکہ" خواش مزاج انسان کو کہا جاتا ہے۔
؎2 اس آیت کی ترکیب میں علمًا نے بہت سے احتمال ذکر کیے ہیں لیکن ان سب میں سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ "هم" مبتدا، اور "متکؤن" خبرہے اور "على الارائد" اس سے متعلق ہے اور " في ظلال بھی اسی کے متعلق ہے یا ایک محزوف کے متعلق ہے۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ خیال یہاں بعید نظرآتا ہے ، خاص طور پر جبکہ مفسرین اور ارباب لغت کی ایک کثیر جماعت کے مطابق "ارائک" "اریکہ" کی جمع ہے کہ جو ان تختوں کے معنی میں ہے حجلہ گاہ میں ہوتے ہیں۔ ؎1
"ظلال" (ساۓ) کی تعبیر جنت کے درختوں کے سایوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن کے نیچے اہل جنت کے تخت بچھے ہوں گے یا بہشتی محلول کے سائے کی طرف اشارہ ہے اور یہ سب اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہاں بھی ایک سورج ہوگا لیکن اور وہ آزار و تکلیف دینے والا سورج نہیں ہوگا - ہاں ! انہیں جنت کے دل پسند سیایوں میں ایک اور ہی نشاط و سرور حاصل ہوگا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علاوہ ازیں "ان کے لیے بہت سی لذت بخش میوے اور پھل ہوں گے اور وہ جو کچھ چاہیں گے انہیں میسر ہوگا"۔ (لهم فیھا فاکھۃ ولھم مايدعون)۔
قرآن محمد کی دوسری آیات سے اچھی طرح معلم ہوتا ہے کہ اہل جنت کی غذا صرف پھل ہی نہیں ہیں لیکن زیر بحث آیت کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے پھل بھی ۔ جو ایک خاص قسم کے پھل ہیں جو اس جہان کے پھلوں سے ذائقے میں بہت زیادہ لطیف ہیں۔۔۔ بہشت کی افضل ترین غذا ہیں، یہاں تک کہ اس جہان میں بھی غذا شناس ماہریں کی گواہی کے مطابق پھل انسان کے لیے بہترین غذا ہیں۔
"يدعون" "دعایہ" کے مادہ سے طلب کرنے کے معنی میں ہے یعنی جو کچھ طاب کریں گے اورجس چیز کی تمنا کریں گے وہ انہیں حاصل ہوجائے گی اور ان کے دل میں کوئی ایسی آرزو نہ ہوگی کہ جو پوری نہ ہو۔
مرحوم طبرسی "مجمع البیان" میں کہتے ہیں کہ عرب یہ تعبیر "تنا" کے موقع پر استعمال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں:
ادع علٰى ماشئت
"جو تیرا دل چاہے مانگ اور مجھ سےتمناکر"
اس طرح سے آج جو کچھ انسان سوچ سکتا ہے وہ بھی اور جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ آئے وہ بھی طرح طرح کی نعمتیں وہاں مہیا ہیں اور خدا اپنے مہمانوں کی بہت اچھی پذیرائی کرے گا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن سب نعمتوں سے زیادہ اہم وہی روحانی نعمتیں ہیں کہ جن کی طرف آخری زیر بحث آیت میں اشاره
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 لسان العرب، مفردات راغب، مجمع البیان ، قرطبی، روح المعانی اور دوسری، تفاسیر۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:" ان کے لیے اسلام اور خدائی تہنیت ہے ، یہ قول ہے ان کے رحیم اور مہربان پروردگار کی طرف سے"۔ (اسلام قولًا من رب رحیم)۔ ؎1
اس کی یہ روح افزا و نشاط بخش اور مہرو محبت سے پُرندا ، انسان کی روح کو اس طرح سے اپنے اندر جذب کرے گی اور اسے لذت و خوشی اور روحانی سرور بخشے گی کہ کوئی نعمت اس کے برابر نہیں ہوگی ۔ ہاں ! محبوب کی ندا سننا ، اسی ندا جو محبت بھری ہو اور لطلف وکرم سے پرہو، اہل بہشت کو سرتاپا سرور وخوشی میں غرق کردے گی کہ جس کا ایک ہی لمحہ دنیا و مافیاسے برتر ہے ۔
ایک روایت میں پیغمبرگرامی اسلامؐ سے منقول ہوا ہے کہ جس وقت بہشتی لوگ جنت کی نعمتوں سے متمع ہو رہے ہوں گے تو ایک نور ان کے سروں کے اوپر ظاہر ہوگا۔ یہ لطف خدا کا نور ہے کہ جو ان کے اوپر سایہ فگن ہوگا اور اس سے ندا آئے گی کہ سلام ہوتم پر اے بہشت میں رہنے والو اور یہ وہی ہے کہ جو قرآن میں آیا ہے "سلام قولًا من رب رحيم"یہ وہ مقام ہے کہ لطف خدا کا احساس انہیں اس طرح مشغول کردے گا کہ وہ سوائے اس کے ہر چیز سے غافل ہوجائیں گے اور اس حالت میں جنت کی تمام نعمتوں کو فراموش کر دیں گے اوریہ وہ منزل ہے کہ فرشتے ہردروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر درود هو۔ ؎2
ہاں! محبوب کے شہود کا جذبہ اور لطف دوست کا دیداراس قدر لذت بخش اور شوق انگیز ہے کہ اس کا ایک لمحہ بھی کسی نعمت کے یہاں تک کہ سارے جہان کے برابر نہیں ہے۔ اس کے دیدار کے عاشق اس طرح ہیں کہ اگر فیض روحانی ان سے منقطع ہوجائے تو ان کی روح جسم سے پرواز کرجائے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں امیرالمومنین سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا :
الوحجبت عنه ساعة لمت
"اگری گھڑی بھر کے لیے اس کے دیدار سے محجوب رہ جاؤں تو جان دے دوں"۔ ؎3
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت کا ظاہریہ ہے کہ پروردگار کا یہ سلام کہ جو بہشتی مومنین پر نچھاور ہوگا مستقیم و بلا واسطہ سلام ہے ۔ ایک ایساسلام کہ جو پالنے والے اور پروردگار کی طرف سے ہے ایسا سلام کہ جو اس کی رحمت خاصیہ یعنی مقام رحیمیت کے سرچشمہ سے حاصل ہوتا ہے جس میں تمام الطاف و کرامات جمع ہیں اور یہ کتنی عمدہ نعمت ہے؟
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "قولا" کے اعراب کے محل کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے اور سب سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہا جائے کہ وه "مفعول مطلق" ہے فعل محذوف کا اور تقدیر میں " يقول قولًا" تھا ۔
؎2 تفسیر روح المعانی جلد 23 ص 35 زیر بحث آیت کے ذیل میں
؎3 الروح البیان جلد 7 ص 416 -
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------