قیامت کی چیخ
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۴۸مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ ۴۹فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ ۵۰وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ ۵۱قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ۵۲إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ ۵۳
اور پھر کہتے ہیں کہ آخر یہ وعدہ قیامت کب پورا ہوگا اگر تم لوگ اپنے وعدہ میں سچّے ہو. درحقیقت یہ صرف ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں جو انہیں اپنی گرفت میں لے لے گی اور یہ جھگڑا ہی کرتے رہ جائیں گے. پھر نہ کوئی وصیّت کر پائیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف پلٹ کر ہی جاسکیں گے. اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے. کہیں گے کہ آخر یہ ہمیں ہماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا ہے .... بیشک یہی وہ چیز ہے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کہا تھا. قیامت تو صرف ایک چنگھاڑ ہے اس کے بعد سب ہماری بارگاہ میں حاضر کردیئے جائیں گے.
تفسیر
قیامت کی چیخ
گزشتہ آیات میں خرچ کرنے کے سلسلے میں کفار کی کمزور اور بہانہ ساز منطق کا ذکر کرنے کے بعد اب زیربحث آیات میں قیامت کے بارے میں ان کے استهزاء سے بات شروع کی گئی ہے۔ نیزانکارمعادکے بارے میں ان کے بوسیدہ منطق کو دو ٹوک جواب کے ساتھ توڑ دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ آیات میں توحید سے بارے میں جو گفتگو آئی ہے معاد کی گفتگو کرکے اس سلسلہ کلام کی تکمیل کی گئی ہے۔
پہلے فرمایا گیا ہے :" وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ جس کا تم ذکر کر رہے ہوکب پورا گا (ويقولون متى ھذا الوعد ان کنتم صادقین) یہی بات کہ تم قیام قیامت کی تاریخ کا تعین نہیں کرسکتے اس امر کی ، دلیل ہے کہ تم اپنی گفتگو میں سچے نہیں ہو۔
بعد والی آیت میں استہزار کے طور پر کئے گئے اس سوال کا ایک محکم اور سنجید ہ جواب دیا گیا ہے ، فرمایا گیا ہے: قیام قیامت اور اس جہان کا اختتام خدا کے لیے کوئی پیچید و مسئلہ اور مشکل کام نہیں ہے "وہ اس کے علاوہ کسی اورچیز کے منتظر نہیں ہیں کہ ایک عظیم صیحۂ آسمانی انہیں اپنی گرفت میں لے لے اور انہیں اچانک اس حالت میں گھیرلے کہ وہ دنیاوی امور کے بارے میں جھگڑ رہے ہوں (ماينظرون الاصيحة واحدة تأخذ هم وهم يخصموان)۔
ایک زور دار آسمانی چیخ ہی کافی ہے کہ سب لوگوں کی روح قبض کرلے ۔ ایک ہی لمحے میں ہر ایک کو اسی مکان میں اور اسی حالت میں کہ جس میں وہ ہے اچک لے ۔ اور ان کی پرغوغامادی زندگی ایک خاموش اور بے صدا دنیا میں بدل د ے وہی دنیا کہ جو ہمیشہ سے ان کا میدان جنگ بنا ہوا ہے روایات اسلامی میں پیغمبرگرامی اسلامؐ سے منقول ہے :
تقوم الساعة والرجلان قد نشراثو بھما یتبا يعاته نه فمایطویانه
حتی نقوم !، والرجل یرفع اکلنہ الي فيه فماتصل الٰى فیه حتی تقوم !
والرجل بلیط حوضه لیسقی ماشتیتہ، فما يسقیها حتٰى تقوم۔ ؎1
صبحہ آسمانی اس طرح غفلت کی حالت میں ہو گی کے دو آدمیوں نے کپٹرے کاتھان
کھولا ہوگا اور وہ معاملہ کرنے میں مشغول ہوں گے ۔ اس سے پہلےکہ معاملہ
ختم ہو اور وہ اس کو لپٹیں دنیا ختم ہوجائے گی ۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ انہوں نے کھانے
کالقمہ پلٹ سے اٹھایا ہوگا لیکن اس سے پہلے کہ ان کے منہ تک پہنچے صیحہ آسمانی آن پہنچے
گی اور دنیا ختم ہوجائے گی ۔ کچھ لوگ حوض کی تعمیر میں مشغول ہوں گے کہ چویایوں کو اس سے
سیراب کریں اس سے پہلے کہ چوپاۓ سیراب ہوں قیامت برپا کر ہوجاۓ کی۔
"ماينظرون" یہاں "انتظار نہیں کریں گے" کے معنی میں آیا ہے ، کیونکه "نظر" کا مادہ "راغب" "مفردات" میں کہتا ہے ، کسی چیز کے مشاہدہ یا ادراک کے لیے غور و فکرکرنے کے معنی میں ہے اورکبھی تامل اور جستجو کرنے کے معنی ہیں ۔۔۔۔ اور جستجو کرنے سے حاصل شدہ معرفت کے معنی میں بھی آیا ہے ۔
اوربنیادی طور پر "صیحہ" لکڑی یا کپڑے کو چیرنے یا پھاڑنے سے بلند ہونے والی آواز کے معنی میں ہے بعد ازاں ہربلند صدا اور چیخ جیسی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے بعض اوقات طول قامت کے لیے بھی آیا ہے مثلًا کہاجاتاہے کہ :
بارض فلان شجر قد صاح
فلان زمین میں ایک درخت ہے کہ جو چیخ رہا ہے۔
یعنی اس قدر لمبا ہو گیا ہے کہ گویا چیخ و پکار کر رہا ہے اور لوگوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے۔
"يخصمون " خصومت کے مادہ سے نزاع اور جنگ کے معنی میں ہے
لیکن وہ کسی چیز کے بارے میں جنگ و جمال کرتے ہیں ، آیت میں اس کا ذکر نہیں ہوا۔ البتہ واضح
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "مجمع البیان" زیر بحث آیات کے ذیل میں یہی روایت مختصر سے فرق کے ساتھ دوسری تفاسیر مثلًا تفسیر قرطبی اور روح المعانی وغیرہ میں بھی آئی ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہے کہ اس سے مراد ام دینا اور مادی زندگی کے امور میں جدال کرنا ہے البتہ بعض نے اسے امرمعاد میں جدال کے معنی میں لیا ہے جبکہ پہلا معنی زیادہ مناسب نظرآتا ہے اگرچہ ایسے جامع معنی مراد لینا بھی بعید نہیں جو دونوں معانی پر محیط اور ہر قسم کے جنگ و جدال اور من مخاصم کو اپنے اندرلےلے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت میں موجود تمام ضمیریں مشرکین مکہ کی طرف لوٹتی ہیں کہ جو امر معاد میں شک رکھتے تھے اور اس استہزا کے طور پر کہتے تھے کہ قیامت کب برپا ہوگی؟
لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس سے ان کی ذات مراد نہیں ہے بلکہ ان کی نوع ہے (معاد غافل اور بے خبر انسانوں کی نوع) کیونکہ وہ تومرگئے اور انہوں نے اس صیحہ آسمانی کو ہرگز نہیں سنا۔
بہرحال قرآن اس مختصر اور دو ٹوک تعبیر کے ساتھ انہیں تنبیہ کرتا ہے کہ اول تو قیامت ناگہانی طور پراورغفلت کی حالت میں برپا ہوگی اور دوسرے یہ کوئی ایسا پیچیدہ موضوع نہیں ہے کہ وہ اس کے امکان کے بارے میں بحث و مخاصمت کے لیے کھڑے ہوجائیں ۔ اس ایک ہی چیخ کے ساتھ ہر چیز ختم ہوجائے گی اور دنیا تمام ہوجاۓگی۔
اسی لیے بعد والی آیت میں قرآن کہتا ہے کہ یہ مسئلہ اس قدر تیز رفتار بجلی کی طرح غافلانہ ہوگا کہ "انہیں وصیت کرنےتک کی بھی طاقت نہیں ہوگی اور انہیں اپنے گھر اور گھر والوں کی طرف واپس لوٹنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی" (فلا يستطيعون توصية ولا الٰى اهلھم يرجعون)۔
عام طور پر جب کوئی حادثہ انسان کو پیش آتا ہے تو وہ یہ احساس کرتا ہے کہ اس کی زندگی قریب الاختتام ہے لہذا کوشش کرتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے اپنے گھر اور ٹھکانے تک جا پہنچے اور اپنے بیوی اور بچوں کے پاس چلا جائے اور پھر اپنے ادھورے پڑے ہوئے کاموں اور اپنے پسماندگان کی سرنوشت وصیت کے زریعے کسی نہ کسی کے ذمہ لگائے اور دوسروں کو ان کے بارے میں سفارش کر جائے۔
مگر کیا دنیا کے خاتمہ کی چیخ کسی کو مہلت دے گی یا بالفرض مہلت ہوبھی تو کیا کوئی زندہ بچے گا کہ وہ کسی انسان کی وصیت کو سنے کیا مثلًا بیوی اور اولاد اپنے شوہر اور باپ کے سرہانے بیٹھیں گے اور اس کا سر اپنی آغوش میں لیں گے تاکہ وہ آرام و سکون کے ساتھ جان دے د ے ؟ ان امور میں سے کوئی چیزبھی ممکن نہیں ہے
اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ "توصية" نکرہ کی صورت میں آیا ہے ، تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں ایک وصیت اور چھوٹی سی سفارش کرنے تک بھی مہلت نہیں ملے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد ایک دوسرےمرحلےکی طرف اشارہ کیاگیاہےکہ جو موت کےبعدحیات کا مرحلہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:" (پھردوباره)صور پھونکا جائےگا تو وہ یکایک (اپنی) قبروں سے (نکل کر) دوڑتے ہوئے اپنے پروردگار کی (عدالت کی) طرف جائیں گے" (ونفخ في الصور فاذا هم من الأجداث الٰى ربھم ينسلون)۔
مٹی اور بوسیدہ ہڈیاں حکم پروردگار سے لباس حیات زیب تن کرلیں گی اور قبر سے نکل آئیں گی اور حساب و کتاب کے لیے سب کے سب اس عجیب عدالت میں حاضرہوجائیں گے۔ جس طرح سے ایک ہی "صیحہ" کے ساتھ سب مر گئے تھے اسی طرح سے ایک ہی " نفخہ (صور پھونکٓنے) سےسب کے سب زندہ ہو جائیں گے۔ نہ ان کا مارنا خدا کے لیے کوئی مشکل کام ہے اور نہ ہی ان کا زندہ کرنا۔ ٹھیک اس بگل کے مانند کہ جولشکر کو جمع کرنے اور تیار کرنے کے لیے بجایا جاتا ہے اور ایک ہی لمحے میں وہ سب کے سب نیند سے بیدار ہوجاتےہیں اور خیموں سے باہر دوڑ پڑتے ہیں اور صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ خدا کے لیے مردوں کو زندہ کرنا بھی اسی طرح آسان اور سریع ہے۔
"اجداث" "جدث" (بروزن "قفس") کی جمع ہے اور قبر کے معنی میں ہے ، یہ تعبیراس بات کی اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہے کہ معاد و قیامت جنبہ روحانی کے علاوہ جنبہ جسمانی بھی رکھتی ہے اور اسی پہلے والے جسم کے مواد سے ہی جدید جسم تیارہوگا ۔
"نفخ" (پھونکاجائےگا) کی تعبیر فعل ماضی کی شکل میں اس بنا پر ہے چونکہ عرب آئندہ کے یقینی مسائل کو عام طور پر فعل ماضی کی صورت میں بیان کرتے ہیں ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتاہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے، گویا یہ کام پہلے سے ہوچکا ہے۔
"ینسلون" "نسل" (بروزن "فصل") کے مادہ سے سریع اور تیزی کے ساتھ چلنے کے معنی میں ہے۔
راغب مفردات میں کہتا ہے کہ یہ لفظ اس میں کسی چیز سے جدا ہونے کے معنی میں ہے۔اور یہ جو انسان کی اولاد کونسل" کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ سے جدا ہوئے ہوتے ہیں (اس بنا پر جب انسان سرعت کے ساتھ دور ہوتا ہے اور جدا ہوجاتاہے تویہ تعبیراستعمال ہوتی ہے)۔
"ربھم" (ان کا پروردگار) کی تعبیر گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی ربوبیت مالکیت اور پرورش ظاہرکرتی ہے کہ حساب و کتاب اور معاد و قیامت ہونا چاہیئے۔
بہرحال آیات قرآنی سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کا اختتام اور دوسرے جہان کا آ غاز دونوں ایک ہی جنبش انقلابی کے ساتھ اچانک صورت پزیرہوگا اور ان میں سےہرایک کو نفخہ (صور پھونکنے ) سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس کی مکمل تشرح انشاء اللہ سوره زمر کی آیہ 28 کے ذیل میں آئے گی۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے:" اس وقت قیامت اور معاد کے منکر یہ کہیں گے کہ وائے ہو ہم پر ہمیں کسی نے ہماری خوابگاہ سے اٹھا دیا ہے"۔ (قالوا يا ويلنا من بعثنا من مرقدنا) -
"یہ تو وہی چیز ہے کہ جس کا خدائے رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کہا تھا"۔ (هذا ما وعد الرحمٰن وصدق المرسلون)۔
ہاں! یہ منظر ایسا ہی منہ بولتا اور دہشت انگیز ہوگا کہ انسان تمام باطل اور لغومسائل کو بھول جائے گا اور حقیقوں کے صریح اعتراف کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ ہوگا۔ قبروں کو خوابگاہ سے تشبیہ دے گا اور قیامت کو نیند سے بیدار ہونا قرار دے گا جیسا کہ ایک مشہور حدیث میں بھی آیا ہے:
كما تنامون نموتوں وکما تستيقضون تبعثون
"جس طرح سے تم سوتے ہو اسی طرح مروگے اور جس طرح نیند سے بیدار ہوتے ہو
اسی طرح زندہ ہوجاؤگے"
یہاں وہ پہلے وحشت زدہ ہو کر فریاد کریں گے کہ وائے ہو ہم پر ہمیں کس نے اسکی نیند سے بیدارکردیا ہے اورکس نے ہماری خوابگاہ سے ہمیں اٹھادیا ہے۔
لیکن بہت جلد وہ متوجہ ہوجائیں گے اور انہیں یاد آجائیں گے کہ سچے پیغمبروں نے خدا کی طرف سے انہیں اسی دن کا وعدہ کیا تھالہذا وہ خود اپنے آپ کو یہ جواب دیں گے کہ یہ تو خدائے کا وعدہ ہے۔ وہ خدا کہ جس کی رحمت عامہ نے سب کو گھیر رکھا ہے اور اس کے پیغمبروں نے سچ کہا ہے اور ہمیں اس دن سے آگاہ کیا ہے لیکن افسوس کہ ہم نے ان سب کا مذاق اور تمسخراڑایا ہے۔
اس بنا پر "هذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون" کا جملہ قیامت کے انہیں منکرین کی گفتگو کا آخری حصہ ہے لیکن بعض اسے فرشتوں یا مومنین کا کلام سمجھا ہے جو کہ آیت کے ظاہرکے برخلاف ہے اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ اس دن منکرین کا حقائق کا اعتراف کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو اسی آیت میں آئی ہو جیسا کہ سورہ انبیاء کی آیہ 97 میں بیان ہوا:
واقترب الوعد الحق فاذٰھی شاخصۃ ابصار الذين كفروا يا ويلنا قدكنا
في غفلة من هذا بل كنا ظالمين
"وعده حق (قیامت کے بارے میں) نزدیک ہوجائے گا ، اس وقت کافروں کی آنکھیں شدت وحشت سے پتھرا جائیں گی (اور وہ کہیں گے :)وائے ہو ہم پرکہ ہم اس امر سے غافل تھے ، بلکہ ہم تو ظالم تھے"۔
بہرحال "مرقد" کی تعبیر کہ جو "خوابگاہ" اور "نیند" کے معنی میں آتی ہے اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ وہ لوگ عالم برزخ میں ایک ایسی حالت میں ہوں گے کہ جو نیند کے مشابہ ہوگی نیز جیسا کہ ہم نے سوره
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 پہلی صورت میں اسم مکان اور دوسری صورت میں "مصدرمیمی" ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مومنون کی آیہ 100 کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ جو ایمان و کفر کی ایک درمیانی حالت میں ہوں گے ان کیلئے عالم برزخ ننید کی حالت سے غیر مشابہ نہیں ہے، جبکہ اچھے مومنین اور حد سے بڑے ہوئے بدکار کافر وہاں پورے طور پر ایک طرح کی بیداری کے عالم میں ہوں گے اور مومن نعمتوں سے فیضیاب ہوں گے اور کافر طرح طرح کےعذاب میں گرفتار ہوں گے۔؎1
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کا ہول اور وحشت اس قدر ہے کہ اس کے مقابلے میں برزخ کا عذاب آرام دہ اور نیند سے زیادہ نہیں ہے۔
اس کے بعد اس نے نفخ صور کے وقوع کی سرعت کے بارے میں وضاحت کے لیے فرمایا گیا ہے: "وہ آیات ایک چیخ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ایک زور دار آواز بلند ہوگی اور وہ سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہوجائیں گے"۔ (ان كانت الا صيحة واحدة فاذاھم جميع لدينا محضرون)۔
اس بنا پر مردوں کے زندہ ہونے اور ان کے قبروں سے باہر نکلنے اور پروردگار کی عدالت میں حاضر ہونے کے لیے زیادہ وقت اور زمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ لوگوں کو مارنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں تھی ۔ پہلی چیخ موت کی پکارہے اور دوسری چیخ پھر سے زندگی ملنے اور پروردگار کی عدالت میں حاض ہونے کی پکار ہے۔
"صيحة" (ایک چیخ) کی تعبیر اور "واحدۃ" کے ساتھ اس کی تاکید اور پھر "اذا" کہ جو اس قسم کے موقعوں پر کسی چیز کے ناگہانی اور اچانک وقوع کی خبر دیتا ہے اور جملہ اسمیہ کی صورت میں "هم جميع لدينا و محضرون کی تعبیر سب قیامت کے تیزی کے ساتھ واقع ہونے کی دلیل ہیں ۔
ان آیات کا دو ٹوک لب و لہجہ اور ان کا پرتاثیرانداز انسانوں کے دل میں اس طرح سے اترجاتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس آواز کو دل کے کانوں سے سن رہے ہیں کہ اے سوۓ ہوئے انسانو! کے بکھری ہوئی مٹی! اور اے بوسیدہ ہڈیو! کھڑی ہوجاؤ اور حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لیے تیار ہوجاؤ، آپ نے دیکھا کہ کسی قدر زیبا ہیں قرآنی آیات اور اس قدر ناطق ہیں اس کی ننبہیں؟
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 ہم "برزخ" کے بارے میں اور وہاں لوگوں کی کیفیت کے متعلق جلد 14 میں گفتگو کرچکے ہیں ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------