Tafseer e Namoona

Topic

											

									  وہ تمام آیات الٰہی کو نظرانداز کردیتے ھیں

										
																									
								

Ayat No : 45-47

: يس

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۴۵وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ ۴۶وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۴۷

Translation

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے ڈرو جو سامنے یا پیچھے سے آسکتا ہے شاید کہ تم پر رحم کیا جائے. تو ان کے پاس خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں آتی ہے مگر یہ کہ یہ کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں. اور جب کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے دیا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو تو یہ کفّار صاحبانِ ایمان سے طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں جنہیں خدا چاہتا تو خود ہی کھلادیتا تم لوگ تو کِھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو.

Tafseer

									  تفسیر
                     وہ تمام آیات الٰہی کو نظرانداز کردیتے ھیں 
 گزشتہ آیات میں ، وسیع عالم ہستی سے متعلق پروردگار کی آیات کے بارے میں گفتگو تھی ، اب زیربحث آیات میں ہٹ دھرم کفار کا طرز عمل بیان کیا گیا ہے کہ جو وہ آیات الٰہی اور دعوت پیغمبر اور عذاب الٰہی سے ڈرانے کے جواب میں پیش کرتے ہیں۔ 
 زیر نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: "جس وقت ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ عذاب الٰہی میں سے جو کچھ تمہارے آگے اور تمہارے پیچھے ہے اس سے ڈروتا کہ رحمت الٰہي تمهارے شامل حال ہو تو وہ پہلوتہی کرتے ہیں اور روگردان ہوجاتے ہیں"۔ (واذا قيل لهم اتقوا مابین ایدیکم و ماخلفكم لعلكم ترحمون)۔ ؎1 
 "مابين ایدیکم" (جو کچھ تمهارے سامنے ہے ) "وما خلقكم" (اور جو کچھ تمہارے پیچھے ہے)۔ سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین نے بہت سی تفسیریں بیان کی ہیں۔ 
 ان میں ایک یہ ہے کہ "مابين ایدیکم " سے مراد دنیا کی سزائیں اور عذاب ہیں کہ جن کا ایک نمونہ گزشتہ آیات میں بیان ہوا ہے اور "وماخلفکم"  سے مراد آخرت کے عذاب میں کہ جوان کے پیچھے ہیں - پیچھے کی تعبیر اس بنا پر ہے ، کہ ابھی ان کی نوبت نہیں آئی ، گویا وہ انسان کے پیچھے چل رہے ہیں اور انجام کار کسی دن اس تک پہنچ جائیں گے اور اس کا دامن پکڑلیں گے اور ان عذابوں سے پرہیز کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے عوامل مہیانہ کیے جائیں دوسرے لفظوں میں ایسے کام نہ کیے جائیں کہ جن کی وجہ سے انسان ان عقوبتوں کے مستحق بنیں۔ 
 اس گفتگو کا شاہد یہ ہے کہ آیات قرآنی میں "اتقوا"  کی تعبیر یا تو خدا کے بارے میں استعمال ہوتی ہے یا قیامت کے دن اور خدائی عذاب کے متعلق ، جبکہ حقیقت میں دونوں کی بازگشت ایک ہی معنی کی طرف ہے کیونکہ خدا سے ڈرنا اس کے عذاب سے ڈرنا ہے۔ 
 یہ بات خود اس امر کی دلیل ہے کہ زیر بحث آیت میں بھی اس جہان اور دوسرے جہان میں خدائی عذاب اور سزا سے پرہیزہی مراد ہے۔  
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1      واذا قيل لهم... جملہ شرطیہ ہے اور اس کی جزا محذوف ہے کہ جس کے بعد والی آیت سے استفادہ ہوتا ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا:
  واذا قيل لهم اتقوا .... اعرضوا عنه۔
  جب ان سے کہا جائے کہ ڈرو تو وه اعراض کرتے ہیں۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 بعض نے اس معنی کے برعکس تعبیر کی ہے۔ انہوں نے  "مامين ایدیکم" سے عذاب آخرت اور : "ماخلفكم"  سے عذاب دنیا مراد لیا ہے کیونکہ آخرت ہمارے سامنے قرار پائی ہے ،(یہ تفسیر نتیجے کے لحاظ سے پہلی تفسیر سے چنداں مختلف نہیں)۔ 
 لیکن بعض نے کہا ہے کہ "سامنے" سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جو "پہلے" انجام پائے اور ان سے پرہیز توبہ و تلافی کے معنی میں ہے اور یپچھے سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جو بعد میں انجام پائیں گے ۔ 
 بعض دوسرے مفسرین نظریہ ہے کہ "سامنے" سے مراد آشکار اور ظاہری گناہ ہیں اور "پیچھے" پوشیده وپنہان گناہوں کے معنی میں ہے۔
 بعض دواسرے  "مابين ایدیکم"  کو طرح طرح کے عذاب دنیا کی طرف اشارہ اور "ماخلفکم" کو موت کی طرف اشاره سمھجتے ہیں (جبکہ موت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس  پرہیزکیا جاسکے)۔ 
 بعض مفسرین جیسے  "في ظلال" کے مولف نے ان دونوں تعبیروں کو موجبات غضب اور عذاب الٰہی کا احاطہ کے لیے کنایہ سمجھا ہے کہ جنہوں نے کافروں کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ 
 آلوسی نے "روح المعانی"  میں اور فخررازی نے "تفسیرکبیر" میں یعنی بردو نے متعدد احتمال ذکر کیے ہیں  کہ جن میں سے کچھ بیان ہو چکے ہیں - علامہ  طباطبائی تفسیر  "المیزان" میں " مابین ایدیکم" کو دنیا کے شرک و معاصی کی طرف اشاره سمجھتے ہیں اور "ماخلقکم" کو عذاب آخرت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔ ؎1  
 حالانکہ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی چیز کی طرف اشاره ہیں صرف زمانے کا فرق ہے نہ کہ ایک شرک و گناه کی طرف اور دوسرا عذاب و سزا کی طرف اشاره ہو۔ 
 بہرحال اس جملے کی بہترین تفسیر وہی ہے کہ جو ابتدا میں بیان ہوچکی ہے اور قرآن کی مختلف آیات بھی اس پر گواہ  ہیں اور وہ یہ کہ "مابین ایدکم "، سے مراد دنیا عذاب ہیں اور "ماخلفکم" سے مراد آخرت کا عذاب۔ 
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 بعد والی آیت میں اسی مطلب پر تاکید کی گئی ہے اور دل کے ان اندھوں کی آیات الٰہی اور پیغمبروں کی تعلیمات کو نظر انداز کرنے میں ہٹ  دھرمی کو واضح کیا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے:" ان کے پروردگار کی آیات میں سے کوئی آیت ان کے پاس نہیں آتی مگر یہ مگر وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں" (وماتأتيھم من أية من 
آیات ربھم الهاکانوا عنہا معرضین)۔ 
 نہ توآیات انفس کا بیان ان پر موثر ہے اور نہ ہی آیات آفاقی کا ذکز تہدید و انذار اور نہ بی رحمت 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    المیزان جلد  17 ص  92  زیر بحٹ آیات کے ذیل میں ۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الٰہی کی بشارت و نوید . نہ ہی وہ عقل وخرد کی منطق کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی فرمان فطرت کو ۔ وہ ان اندھوں کے مانند ہیں کہ جو اپنے اطراف کی نزدیک ترین چیزوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے یہاں تک کہ وہ تو سورج کی روشنی اور رات کی تاریکی میں بھی فرق نہیں کرسکتے۔ 
   ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 اس کے بعد قرآن ان کی بت دھرمی اور روگردانی کی ایک اہم صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:" اس وقت ان سے یہ کہاجائے کہ خدا نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو تو کفار مومنین سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھانا کھلائیں کہ جسے خدا چاہتا تو سیر کر دیتا تم تو واضح گمراہی میں ہوا"۔ (واذا قيل لهم انفقوا مما رزقكم الله قال الذين كفروا للذين آمنوا انطعم من لويشاء الله اطعمه آن انتم الا في ضلال مبين)۔ 
 یہ وہی ایک عامیانہ منطق ہے کہ جو ہر زمانے میں خود غرض اور بخیل افراد کی طرف سے پیش ہو تی رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر فلاں شخص فقیر ہے تو ضرور اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے خدا چاہتا ہے کہ وہ فقیر رہے اور اگر ہم تونگر اور مالدار ہیں تو ضرور ہم نے کوئی ایسا عمل انجام دیا ہے کہ ہم لطف خداوندی کے حامل ہو گئے ہیں ۔ اس بنا پر ان کا فقر اور ہماری تونگری حکومت و مصلحت کے بغیر نہیں ہے ۔
 وہ اس بات سے غافل ہیں کہ یہ جہان آزمائش و امتحان کا میدان ہے ، خدا ایک کی تنگدستی کے ساتھ آزمائش کرتا ہے اور دوسرے کو غنا وتو نگری سے اور بعض اوقات ایک ہی انسان کو دو زمانوں میں ان دنوں کے ساتھ امتحان کی بھٹی میں سے گزارتا ہے کہ کیا وہ فقرو فاقہ کے موقع پر امانت ، قناعت طبع اور شکر گزاری کے مراتب بجا لاتا ہے یا سب کو پاؤں تلے روند ڈالتا ہے؟ اور تونگری کے موقع پر جو کچھ اس کے پاس ہے اسے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا نہیں؟ 
 اگرچہ بعض نے اس آیت کو کسی مخصوص گروہ پر منطبق کیا ہے مثلاً یہودیا مشرکین عرب یا دین و آئین انبیاء کے منکرین و ملحدين۔ لیكن ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت عمومی مفہوم رکھتی ہے کہ جس کے مصداق ہر زمانے میں مل سکتے ہیں اگرچہ نزول آیت کے زمانے میں اس کے مصداق یہود یا مشرکین کے کچھ افراد تھے۔ 
  یہ تو ہمیشہ سے ایک بہانہ تھا اور ہے کہ ایسے اشخاص کھتے ہیں : اگر خدا رازق ہے تو پھر ہم سے کیوں چاہتے ہو کہ ہم فقیروں کو کھانا کھلائیں اور خدا نے یہ چاہا ہے کہ وہ محروم رہیں تو پھر ہم کیوں کسی ایسے کو بہرہ مند کریں جسے خدا نے محروم کر رکھا ہے؟ 
 وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ نظام تکوین ایک چیز کا تقاضا کرتا ہے اور نظام تشریع کسی دوسری چیزکا۔
 نظام تکوین کا تقاضا ہے کہ خدا زمین کو اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ بشر کو دے دےاور اسے تکامل و ارتقاء کی راہ طے کرنے کے لیے ان کے اعمال میں آزاد چھوڑدے ، اس کے ساتھ ہی  اس میں کچھ جبلتیں بھی خلق کی ہیں کہ جو اسے اپنے تقاضوں کے مطابق چلنے کو کہتی ہیں - 
 نظام تشریح کا تقاضا ہے کہ کچھ قوانین ، ایثار و قربانی ، فداکاری و درگذر اور انفاق کے ذریعے سے انسانوں کی جبلت کو کنٹرول کیا جائے اور اس طریقے سے تہذیب نفوس کی جائے اور انسان کو کہ جو خلیفہ الٰہی کے مقام تک پہنچنے کی استعداد رکھتا ہے ، اس طریقہ سے اس بلند مقام تک پہنچایا جائے ۔ زکوة کے ذریعے نفوس کی تطہیر کی جائے ، راہ خدا میں خرچ کے ذریعے بخل کو دلوں سے دور کیا جائے اور طبقاتی فاصلہ کہ جو انسان کی زندگی میں ہزارہا مفاسدہ کے پیدا ہونے کا سبب ہے ، اس کو ختم کیا جاۓ۔ 
 یہ بات بالکل ایسے ہے کہ کچھ افراد یہ کہیں کہ کیا ضرورت ہے جو ہم درس پڑھیں یا دوسرے کو درس پڑھائیں؟ اگر خدا چاہتا تو ہم سب کو علم دیتا تاکہ کسی شخص کو علم حاصل کرنے کی احتیاج نہ رہتی ، کیا کوئی بھی عاقل اس منطق کو قبول کر لے گا۔ ؎1 
 "قال الذين كفروا"  کاجملہ کہ ان کے کفر کا ذکرکررہا ہے، حالانکہ اس کے بجائے ضمیر سے بھی استفا دہ ہوسکتا تھا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان بہانہ سازوں کی اسی خرافاتی منطق کا سرچشمہ کفرہے۔ 
 یہ جو مومنین سے کہا گیا ہے کہ "انفقوا مما رزقكم الله" (انفاق کرو اس رزق سے کہ جو خدانے تمہیں دیا ہے اس بات کی طرف اشاره ہے کہ درحققیت اصلی مالک خدا ہے اگرچہ یہ امانت چند دنوں کے لیے انسانوں کے سپرد ہوتی ہے کتنے بخیل ہیں وہ لوگ کہ جو کسی کے مال کو اسی کے حکم سے بھی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ 
 "ان انتم الا فی ضلال مبين"  (تم واضح گمراہی میں ہو)  کی تفسیر کے بارے میں تین احتمال ہیں: 
 پہلا احتمال: یہ ہے کہ یہ کفار کی مومنین کے ساتھ گفتگو کا تتمہ ہے۔ 
 دوسرا احتمال : یہ ہے کہ یہ خدا کا کفار سے خطاب ہے۔ 
 تیسرا احتمال : یہ ہے کہ یہ کفار کے مقابلے میں مومنین کی گفتگو ہے۔ 
 لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہ کفار کے کلمات کے ساتھ متصل اور مربوط ہے، درحقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ مومنین کو بالمثل جواب دیں اور ان کی طرف "ضلل مبین" کی نسبت دیں۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1     مفسرین کی ایک جماعت سے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ عرب اس زمانے میں مہمان نوازی میں مشہور تھےاور خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے کافروں کا مقصد یہ تھا کہ وہ مومنین کامذاق اڑائیں کیونکہ وہ سب چیزوں کی نسبت خدا کی طرف دیتے تھے۔ انہوں نے بھی استهزاء کے طور پر کہا کہ اگر خدا چاہتا اور اس کی مشیت ہوتی تو فقراء کو بے نیاز کردیتا لہذا ہمارے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں هے لیکن جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے : وہ زیادہ مناسب نظرآتی ہے (تفسیر بتییان ، تفسیرقرطبی ، تفسیرروح المعانی  کی طرف 
زیر بحث آیات کے ذیل میں رجوع کریں)۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------