کشتیوں کا دریاؤں میں چلنا بھی آیت الٰہی هے
وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ۴۱وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ ۴۲وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ ۴۳إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ ۴۴
اور ان کے لئے ہماری ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کے بزرگوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں اٹھایا ہے. اور اس کشتی جیسی اور بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں. اور اگر ہم چاہیں تو سب کو غرق کردیں پھر نہ کوئی ان کافریاد رس پیدا ہوگا اور نہ یہ بچائے جاسکیں گے. مگر یہ کہ خود ہماری رحمت شامل حال ہوجائے اور ہم ایک مدّت تک آرام کرنے دیں.
تفسیر
کشتیوں کا دریاؤں میں چلنا بھی آیت الٰہی هے
اگرچہ قرطبی اور بعض دوسرے مفسرین نے زیربحث پہلی آیت کو اس سورہ کی پیچیده ترین آیت شمارکیا ہے لیکن ان آیات میں غور کرنے اور گزشتہ آیات سے ان کا تعلق دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات کی تفسیر میں کوئی خاص پیچیدگی نہیں ہے کیونکہ گزشتہ آیات میں سورج ، چاند ، رات ، دن اور اسیطرح زمین اور زمین کی برکات کی خلقت میں پروتدگار اور کی نشانیوں کے بارے میں گفتگو تھی جبکہ زیر بحث آیات میں دریاؤں اور سمند دروں کی نعمتوں یعنی ان میں تجارتی اور مسافر بردار کشتیوں اور جہازوں کے چلنے کے بارے میں گفتگو ہے۔
علاوہ ازیں کشتیوں کا سمندر کے اندر چلنا ، آسمانی ستاروں کی فضا کے سمندر میں حرکت کرنے کے ساتھ غیر مشابہ نہیں ہے ۔
اس سے پہلے فرمایا گیا ہے کہ: "یہ بھی ان کے لیے عظمت پروردگار کی ایک نشانی ہے کہ ہم ان کی اولاو و ذریت کو ان کشتیوں میں کہ جووسائل زندگی سے پر ہیں سوار کرتے " (وأية لهم انا حملنا ذريتهم في الفلك المشحون) -
"لهم" کی ضمیر نہ صرف مشرکین مکہ کی طرف بلکہ ان تمام عباد اوربندگان خدا کی طرف لوٹتی ہے کہ جن کے بارے میں گزشتہ آیات میں گفتگوتھی۔
"ذرية" جیسا کہ راغب نے مفردات میں بیان کیا ہے ، اصل میں چھوٹی اولاد کے معنی میں سوارھے، اگرچہ بعض اوقات تمام چھوٹی بڑی اولاد پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہ لفظ مفرد کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور جمع کے معنی میں بھی۔
قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو (چھوٹی اولاد کو) ان کشتیوں میں سوار کیا۔ گویا اولاد کے بارے میں گفتگو ہے اور خود ان کے بارے میں کوئی بات نہیں۔ شاید یہ اس مناسبت سے ہے کہ بچے اس سواری کی زیادہ احتیاج رکھتے ہیں کیونکہ بڑی عمر کے لوگ تو دریاؤں کے ساحل کے ساتھ ساتھ چل کر بھی راستہ لے کرلیتے ہیں ۔
اس سے قطع نظریہ تعبیر ان کے احساسات و میلانات کی تحریک کے لیے زیادہ مناسب ہے۔
لفظ "مشحون" (مملو اور پر)اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نہ وہ خو دکشتی میں سوار ہوتے ہیں بلکہ ان کے مال تجارت اور ضروریات زندگی کی نقل و حمل بھی اسی کے ذریعے ہوتی ہے ۔ بعض نے اس آیت میں "فلك" سے خاص طور پر حضرت نوحؑ کی کشتی مراد لی ہے اور "ذریة" کی آباؤ اجداد کے معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ "ذرا" کے مادہ سے خلقت کے معنی میں ہے ۔
یہ تفسیر بہت ہی بعید نظر آتی ہے۔ ہاں اگر اس سے مراد ایک واضح مصداق بیان کرنا ہو تو پھر ٹھیک ہے۔
بہرحال کشتیوں کا چلنا کہ جو بشر کے لیے نقل وحمل کا ایک عظیم اور اہم ترین ذریعہ ہے اور ان سے جو کام کیا جاتا ہے وہ دوسرے ذرائع نقل وحمل کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ یہ سب نتیجہ ہے پانی کے اپنے خواص کا ، ان اجسام کے مخصوص وزن کہ جن سے کشتی بنتی ہے، بادبانی کشتیوں کے لیے ہواؤں کی خاصیت کا ــــــ انجن والی کشتیوں کے بخارات کی قوت کا اور ان کشتیوں میں کہ جو ایٹمی طاقت سے کام کرتی ہیں ایٹمی توانائی کا -
یہ سب ایسی قوتیں اور طاقتیں ہیں کہ جنہیں خدا نے انسان کے لیے مسخر کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک (علیحدہ علیحدہ بھی) اور مجموعی طور پر بھی آیات الٰہی میں سے ہیں۔
نیز اس بنا پرکہ یہ وہم نہ ہو کہ خدا داد سواریاں صرف کشتیاں ہی ہیں اس کے بعد والی آیت میں قرآن مزید کہتا ہے: "میں نے ان کے لیے دوسری سواریاں بھی ان کے مانندخلق کی ہیں"۔ (وخلقنا لهم من مثله مايركبون) - وہ سواریاں کہ جو خشکی یا ہوا اور فضا میں چلتی ہیں اور انسانوں اور ان کے سازو سامان کو اپنے دوش پر اٹھاتی ہیں۔
اگرچہ بعض نے خصوصیت کے ساتھ یہاں اونٹ مراد لیا ہے جس کا نام "صحرائی کشتی" یا "سحرا کا جہاز" پڑ گیا ہے بعض نے تمام چوپائے مراد لیے ہیں اور بعض نے ہوائی جہازاور فضائی کشتیاں مراد لی ہیں جو ہمارے زمانے میں بنی ہیں (اور ان کے بارے "خلقنا" کی تعبیر اس لحاظ سے ہے کہ ان کا مواد اور وسائل پہلے سے خلق شدہ ہیں)۔
لیکن آیت کی تعبیر کا اطلاق ایک وسیع مفہوم کی تصویر پیش کرتا ہے کہ جس میں یہ سب اور ان کے علاوہ اور دوسری سواریاں بھی موجود ہیں۔
البتہ قرآن کی متعدد آیات میں "انعام" (چوپائے کا) "فلك" (کشتیوں) کے ساتھ ذکر ہوا ہے ۔ مثلًا :
وجعل لكم من الفلك والانعام ما تركبون
کشتیوں پر بھی اور چوپاؤں میں سے بھی اس نے ایسے پیدا کیے ہیں کہ جن پر تم سوار
ہوتے ہو ( زخرف - 12)-
اور سورہ مومن کی آیت 80 میں ہے:
و عليہا وعلى الفلك تحملون
اور تم جو پاؤں اورکشتیوں ہے پربوجھ لادتے (اور سوار ہوتے) ہو۔
لیکن یہ آیات بھی زیر بحث آیت کے مفہوم کی عمومیت کے ساتھ تضاد نہیں رکھتیں۔
بعد والی آیت میں ، اس عظیم نعمت کو زیادہ واضح کرنے کے لیے ، ایک حالت بیان کی گئی ہے۔ کہ اس نعمت کے دگرگوں ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا گیا ہے:" اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کردیں اس طرح کہ نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہو اور نہ ہی کوئی ایسا آدمی کہ جو انہیں دریا سے باہر نکال سکے"۔ (وان نشأ نفرقهم فلا صريخ لهم ولا هم ينقدون)۔
ہم کسی عظیم لہر و حکم دے دیں گے کہ وہ ان کی کشتی کو الٹ دے یا ایک بھنور کو مامور کر دیں گے کہ وہ انہیں نگل لے یا ایک طوفان کو حکم دیں گے کہ وہ انہیں ایک تنکے کی طرح مٹا کرموجوں کے اندر پھنیک دے۔
اگر ہم چاہیں تو پانی اورکشتی کی خاصیت اور ہواچلنے کے نظام اور دریا کے سکون کو درہم برہم کردی تاکہ ان کی ہر چیز تباہ ہو جائے ۔ یہ ہم ہی ہیں کہ جو اس نظام کو دوام بخشتے ہیں تاکہ وہ بہرو ور ہوں اور اگر ہم کبھی کبھی اس قسم کے حادثات بھیجتے ہیں تو یہ اس بنا پر ہے کہ وہ اس نعمت کی اہمیت کو سمجھیں کہ جس میں وہ مستغرق ہیں۔
"صريخ" "صراخ" کے مادہ سے ، فریاد رس کے معنی میں ہے اور "ينقذون" ، " انقاذ" کے مادہ سے پکڑلینے اور نجات دینے کے معنی میں ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخر میں آخری زیر بحث آیت - اس گفتگو کی تکمیل کے لیے مزید کہتی ہے:" مگر یہ کہ پھر بھی ہماری رحمت ہی ان کے شمال حال ہو اور وہ ایک معين زمانے تک اس کی زندگی سے فائده اٹھائیں"۔ (الا رحمة مناومتاعًا الٰي حين)۔
ہاں ! وہ کسی بھی ذریعے سے نجات نہیں پاسکتے مگر یہ کہ ہماری ہی رحمت کی بادنیسم چلے اور ہمارا ہی لطف و کرم ان کی مرد کے لیے آئے۔
"حين" وقت کے معنی میں ہے اور اس آیت میں انسان کی زندگی کے اختتام اور اس کی اجل کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے اس سے اس جہان کا اختتام مراد لیاہے۔
ہاں وہ لوگ کہ جوکشتی پر سوار ہوئے ہیں (خواہ وہ قدیم زمانے کی چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیاں ہوں یا موجودہ زمانے کے کوہ پیکر سمندری جہاز انہوں نے اچھی طرح سے اس آیت کی تعبیر کی گہرائی کو سمجھا ہے کہ دنیا بھر کے لیے بحری جہاز دریاؤں کی عظیم موجوں اور سمندروں کے ہولناک طوفانوں کے مقابلے میں ایک تنکے کے مانند ہیں اور اگر رحمت الٰہی انسانوں کے شامل حال نہ ہو تو ان کی نجات ممکن نہیں ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ اس مختصر سے وقفے میں کہ جو موت اور زندگی کے درمیان ہے ،اپنی عظیم قدرت کی انسانوں کو نشاندہی کرائے کہ شاید راستے سے بھٹکے ہوئے انسان ہوش میں آجائیں اور اس طریقے سے اس کے راستے پرآجائیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ